’کاہو جو دڑو‘ ایک گم شدہ شہر

عبدالغنی بجیر

کاہو جو دڑو‘ ایک گم شدہ شہر
سندھ کے خطے میں ہزاروں سال قبل مختلف النوع تہذیبوں نے جنم لیا اور اس کے ہر شہر میں ان کے آثار بکھرے ہوئے ہیں جو ارتقائے انسانی کی نشانیوں اور پرشکوہ ادوار کی عکاسی کرتے ہیں۔ کاہو جو دڑو بھی ان میں سے ایک ایسا ہی گم گشتہ شہر ہے ، جو بدھ مت کا مذہبی مرکز تھا۔تقریباً 40 ایکڑ رقبے پر محیط ’’کاہو جو دڑو ‘‘کے بارے میں قدیم آثار کے ماہرین کی تحقیق کے مطابق ڈھائی ہزارسال قبل اسے کاہن قوم کے راجہ ’’کاہو‘‘ نے بسایا تھا اور اسی کے نام سے یہ شہر موسوم ہوا۔

دوسری تاریخی روایت کے مطابق500 سال قبل اس مقام پر ’’ کاہو‘‘ نام کے جاگیردار کی رہائش تھی، جو سومرا حکم راں جام نظام الدین نندو کا سپہ سالار تھا، جس کی مناسبت سے اس شہر کو ’’کاہو جو ڈیرو‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔کاہو جو دڑو کا نام سن کر ایک ایسے تباہ حال شہر کا خاکہ ذہن میں آتا ہے جوقدیم عمارتوں کے کھنڈرات پربکھرا ہوا ہو اور جس کے گرد بلند وبالا فصیل بنی ہوئی ہو۔ اس قدیم شہرکے تاریخی آثارگردش ایام اور موسمیاتی تغیرات کی وجہ سےمعدوم ہوچکے ہیں۔

اس مقام پر جا بجا مٹی اور پتھروں کے بلند و بالا ٹیلے ہیں، جن کے اطراف خود رو جھاڑیوں کا جنگل اگا ہوا ہے۔ میرپور خاص سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پرخاردار تاروں سے گھرےایک وسیع و عریض مقام پر گندے پانی کے تالاب کے عین درمیان سرخ مٹی کا ایک جزیرہ نما ٹیلا نظر آتا ہےجسے لوگ’’ کاہو جو دڑو ‘‘کے نام سے جانتے ہیں ۔

بریگیڈیئر جنرل جان جیکب، جن کے نام سے جیکب آباد کا شہر موسوم ہے، ایسٹ انڈیا کمپنی میں فوجی افسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔برطانوی حکومت نے انہیں 1847ء میں پولٹیکل سپرنٹڈنٹ بنا کرخان گڑھ بھیجا ۔ وہ 1857ء میں اپنی وفات تک اسی شہر میں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ جان جیکب ، فوجی افسر ہونے کے ساتھ سول و مکینیکل انجینیئر اور ماہر تعمیرات بھی تھے۔، انہوں نے یہاں ایک عظیم الشان کبوتر خانہ تعمیر کرایا تھا جو آج بھی موجود ہے۔

انہیں تاریخی آثار سے بھی گہری دل چسپی تھی، اس مقصد کے لیے انہوں نے سندھ کے متعدد شہروں میں کھدائی کروائی جن میں میر پور خاص میں کاہو جودڑو کا علاقہ بھی شامل تھا۔کاہو جو دڑو کی کھدائی ان کی زندگی کے آخری ایام میں شروع ہوئی جو دسمبر 1858میں ان کی وفات کی وجہ سے ادھوری رہ گئی ۔ 1889ء میں جب میرپورخاص کو نواب شاہ تک ریلوے لائن کے ذریعے مربوط کرنے کے لیے ریل کی پٹڑی بچھائی جارہی تھی تو کھدائی کے دوران وہاں سے قدیم دور کے سکے، نوادرات اور کرسٹل کے ٹکڑے ملے۔قدیم آثار کے ماہرین نے انہیں بدھ دور کے آثار قرار دیا ۔برطانوی سرکار کی جانب سے انہیں کراچی اور ممبئی کے عجائب خانوں میں رکھوادیا گیا جو آج بھی وہاں موجود ہیں۔

10-1909ء میں ضلع تھرپار میں جب جان میکنزی، ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے تعینات ہوئےتو انہوں نے آثار قدیمہ کے محکمے سے کاہو جو دڑو کی کھدائی کے لیے خط و کتابت شروع کی۔ ان کی عرض داشتوںپر غور وخوض کے بعد ہندوستان کی برطانوی حکومت نےمحکمہ قدیم آثارکے سروے سپرنٹنڈنٹ مسٹر ہنری کزنس کو میر پور خاص بھیجا جنہوں نے وہاں پہنچ کر کاہو جو دڑو کی دوبارہ کھدائی شروع کرائی تو یہاں سے بدھ دور کا ایک اسٹوپا دریافت ہوا، جس کے اوپر مجسمہ نصب تھا۔

اسے نہایت خوبصورتی کے ساتھ بنایا گیا تھا اور اس دور کےمجسمہ سازوں کی فنی مہارت کی عکاسی کرتا تھا ۔کاہو جو دڑوکا علاقہ تقریباً 40 ایکڑ کے وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہواتھا، جہاں دور دور تک مٹی کے تودے ، ٹیلے اور گہرے کھنڈرات تھے۔ جب وہاں مزید کھدائی کی گئی تو بدھ مت کی ایک عبادت گاہ یعنی ’’سمادھی‘‘ ملی جو تقریباً 50 سے 52 مربع فٹ طویل و عریض تھی اور اس کی چاروں دیواروں پرنقش و نگاری کے ذریعے پھول بنائے گئےتھے۔

اس کے بالکل وسط میں ایک دروازہ ملا جس کے اندر جا کرسمادھی کی محرابیں، گوتم بدھ کی شبیہ اور مجسمے دریافت ہوئے ، جنہیں آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق مٹی سے بنانے کے بعد آگ میں پکاکر انہیں رنگا گیا تھا۔ کئی مجسموں میں گوتم بدھ رنج و الم کی کیفیات کے عالم میں آلتی پالتی مارے مراقبے کی حالت میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔

اس سمادھی کو جب مغربی سمت سے کھودا گیا تو وہاں سے’’ کبیر‘‘ نام کے دیوتا کا مجسمہ بازیاب ہوا۔ہندو مت میں کبیر کومال و دلت کا دیوتا (دھن پتی )کہا جاتا ہے ۔مزیدکھدائی کے بعد اینٹیں ہٹانے سے ایک چھوٹا سا کنواں بھی دریافت ہوا جس کا منہ پتھروں سے بند تھا۔ ایک مقام پر پتھروں کے ڈھیر ہٹانے کے بعد وہاں سے ایک ٹوٹی ہوئی بوتل ملی جس کے اندر ایک موم بتی نما شیشی رکھی تھی جس پر سونے کا ورق چڑھا یا گیا تھا۔اس کے اندر گوتم بدھ کی چتا کی راکھ تبرک کے طور پر محفوظ کی گئی تھی۔

مورخین کے مطابق گوتم بدھ کا تعلق ’’ساک منی‘‘ قوم سے تھا، جس نے مختلف مذہبی روایات اپنائی ہوئی تھیں۔ انہی میں سے ایک روایت کے مطابق جب کوئی مہاتما بزرگ وفات پا تا تو اس کے جسم کو جلا کر اس کی خاک پر سمادھیاں تعمیر کروائی جاتی تھی۔گوتم بدھ کےمرنے کے بعد خاندانی روایت پر عمل کیا گیا اور اس کی چتا کی راکھ 8 حصوں میں تقسیم کرکے مختلف مقامات پر دفنا کر مندراسٹوپا اور سمادھیاں بنائی گئیں۔

کھدائی کے دوران ایک ٹیلے کے نیچے سے 17 فٹ بلند چوکورطرز کا چبوترا دریافت ہوا، جس پر 38 فٹ بلند گنبد نما مینار بنا ہوا تھا۔چبوترے کے تین اطراف مہاتما بدھ کےطویل القامت مجسمے ایستادہ تھے۔ اس چبوترے پر بدھ بھکشو ’’پرادکشنا ‘‘کی مذہبی رسم کی ادائیگی کے لیے آتے تھے۔

اس کے علاوہ یہاں سےمٹی کے ظروف اور ناپ تول کے اوزان بھی دریافت ہوئے، جن پر گوتم بدھ کے بجائے ’’پگوڈوں‘‘کی اشکال منقش تھیں۔ کاہو جو دڑو سے ملنے والے نوادرات، ممبئی کے’’پرنس آف ویلز ‘‘عجائب خانے لے جائے گئے، جہاں وہ آج بھی محفوظ ہیں۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close