سندھ کے بچے غذائی قلت، کمزوری اور پست قامت میں سرِفہرست

نیوز ڈیسک

کراچی : ایک تحقیق کے مطابق ملک میں بچوں میں بھوک اور غذائی قلت سے کم وزن اور کوتاہ قد کی شرح صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ پائی گئی ہے

اگرچہ یہ تحقیق 2018ع اور 2014ع میں کی جا چکی ہے، لیکن اس ضمن میں مزید کچھ شہادتیں سامنے آئی ہیں

نیچر سائنٹفک رپورٹس  میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کے بچوں میں بھوک سے اپنی عمر کے لحاظ سے چھوٹے قد (اسٹنٹنگ) اور گوشت پوست کی کمی (ویسٹنگ) کا پروپونسٹی اسکور میچنگ طریقے سے جائزہ لیا گیا ہے

یہ تحقیق نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں شعبہ معاشیات کے اسکالر، فیصل عباس، ہیلتھ سروسز اکادمی کے رمیش کمار، جامعہ چترال کے طاہر محمود اور بنکاک میں کالج آف پبلک ہیلتھ سے وابستہ رتنا سمرونگتونگ نے کی ہے

تحقیق میں صوبہ سندھ کے اٹھائیس اضلاع کے شہروں اور دیہاتوں کے انیس ہزار پانچ سو گھرانوں میں پانچ سال تک کے ہزاروں بچوں کا ڈیٹا لیا گیا ہے

اعداد و شمار کے مطابق کل 7781 بچوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان میں 5685 بچے اپنی عمر کے لحاظ سے پورے قد کے تھے، جن کا وزن اور جسامت بھی نارمل تھی، لیکن 2095 بچے ایسے ملے جن کی پیدائش کے وقت وزن اور جسامت کم تھی اور یہ رحجان پانچ برس کی عمر تک برقرار رہا

تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دورانِ حمل خود ماں کی غذا اس میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور پانچ سال سے کم عمر جن بچوں کا اوسط قد، وزن اور جسامت معمول سے کم تھی، وہ بچے عین اسی کیفیت کے ساتھ پیدا ہوئے تھے۔ جس سے ثابت ہوا کہ پیدائش کے وقت کم وزنی بچے ہی ویسٹنگ اور اسٹنٹنگ کے زیادہ شکار ہوتے ہیں

تحقیق کے مطابق صوبہ سندھ میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں درمیانے درجے کی ویسٹنگ کی شرح 21 فیصد اور شدید درجے کی جسمانی کمزوری یا سوکھے پن کی شرح 6 فیصد ہے۔ جبکہ 10 فیصد بچے ایسے ہیں جو بدقسمتی سے ویسٹنگ اور اسٹنٹنگ دونوں سے ہی متاثر ہیں

تاہم مقالہ نگاروں نے اعتراف کیا ہے کہ اس میں سے بہت سا ڈیٹا پرانا ہے جو 2014ع کے سروے سے حاصل کیا گیا ہے، جبکہ ماں کے وزن، قد اور جسامت کی دیگر تفصیلات بھی نہیں مل سکی ہیں

تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بھر میں بچوں میں بونا پن اور کمزوری کے عوامل میں کئی فیصد کی کمی دیکھی گئی ہے

دوسری اہم بات یہ ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں چھوٹے قد اور وزن میں کمی کو دور کرنے لیے حکومتِ سندھ کو عالمی بینک کی جانب سے حال ہی میں مالی امداد بھی دی گئی ہے، لیکن حالیہ اعداد و شمار نے مذکورہ امداد کے شفاف استعمال پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے

ماہرین نے زور دے کر کہا ہے کہ بالخصوص سندھ حکومت اس ضمن میں بچے کے پہلے ایک ہزار دن کا خصوصی پروگرام بنائے اور ان میں مدتِ حمل کے نو ماہ بھی شامل کرے، تاکہ ماں اور بچے کی صحت، نشو نما اور بقا کو لازمی بنایا جاسکے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close