وزیراعلیٰ بلوچستان اور مخالفین کا دنگل، تحریک عدم اعتماد منتخب نمائندوں کا جمہوری حق ہے. اختر مینگل

نیوز ڈیسک

کوئٹہ : بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان اور ناراض ارکان کے اسلام آباد سے واپسی کے بعد سیاسی گرما گرمی کوئٹہ منتقل ہوچکی ہے۔ ناراض ارکین کو منانے کی تمام تر کوششوں کی ناکامی کے بعد لگتا ہے کہ فریقین کی جانب سے اب اسمبلی میں اپنی اکثریت دکھا کر ہی اس معاملے کا فیصلہ کیا جائے گا

ادہر بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد منتخب نمائندوں کا جمہوری حق ہے اور کسی کو اختیار نہیں کہ وہ غیر جمہوری طریقے اسے ناکام بنائے

اسلام آباد سے کوئٹہ پہنچنے کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے ناراض اراکین نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جام کمال اگر مقابلہ کرنے کا شوق رکھتے ہیں تو مقابلہ کر لیں، جبکہ اسپیکر بلوچستان اسمبلی اور ناراض ارکان میں سے ایک عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ بلوچستان میں گمراہ کن صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے

ناراض اراکین نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے دن پتہ چل جائے گا کہ اکثریت کس کے پاس ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ جام کمال پارٹی سے استعفیٰ دے چکے ہیں اب وہ پارٹی کے صدر نہیں ہیں

انہوں نے کہا کہ رواں ماہ کی 20 تاریخ کو تحریک عدم اعتماد کو بلوچستان اسمبلی میں پیش کر دیا جائے گا

اسی حوالے سے اپنی ٹوئٹ میں اختر مینگل نے کہا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک خواہ مرکز میں ہو یا کسی صوبے میں، یہ اُس ادارے سے تعلق رکھنے والے منتخب نمائندوں کا آئینی اور جمہوری حق ہے، کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ غیر جمہوری طریقوں سے اس کو ناکام کرنے کی کوشش کریں، جب کبھی بھی ایسے معاملات میں غیر جمہوری قوتوں کو استعمال کیا گیا اُس کے نتائج سنگین نکلے ہیں

دوسری جانب ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت اپنی موجودہ  آئینی مدت پوری کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان صوبے کے پہلے بھی وزیر اعلیٰ تھے اور آئندہ بھی رہیں گے

ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی نے کہا کہ جو عناصر بلوچستان کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گے انہوں نے کہا کہ  وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی شروع دن سے ہی یہی کوشش رہی ہے کہ بلوچستان کی مخلوط حکومت  اور اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں، لیکن کچھ عناصر شروع سے ہی بلوچستان کی ترقی اور وزیر اعلیٰ کے مخالف رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے خلاف ’سازش ہرگز کامیاب نہیں ہوگی۔‘

جبکہ ناراض اراکین نے لیاقت شاہوانی کو بلوچستان حکومت کا نہیں بلکہ جام کمال کا ترجمان قرار دیا ہے

صورتحال کے بارے میں بلوچستان کے سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں ناراض ارکان کو کامیابی ملی ہے۔ جام کمال مدد حاصل کرنے اور مخالف گروپ کے سیاسی قائدین کو غیر جانبدار رہنے کی کوشش کرنے آئے تھے. موجودہ صورت حال میں وزیراعلیٰ کو اپنی وزارت بچانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آتا ہے

تجزیہ نگاروں کے مطابق ناراض ارکان اور وزیراعلیٰ جام کمال کی اسلام آباد میں ملاقاتیں بھی اسی ضمن میں تھیں

انتہائی باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ جام کمال نے وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی اور ان سے بحران سے نکلنے میں مدد مانگی. وزیراعظم نے جام کمال کو کہا ہے کہ ہم اتحادی ہیں اور رہیں گے، لیکن جو موجودہ سیاسی بحران ہے وہ آپ کے جماعت کا اندرونی مسئلہ ہے۔ ہم اس لڑائی میں شامل نہیں ہوسکتے. پی ٹی آئی کے ارکان بھی ملاقات میں موجود تھے اور انہوں نے جام کمال کو یاد دلایا کہ وہ جب بھی کوئٹہ کا دورہ کرتے ہیں تو بلوچستان کے پارلیمانی رہنما شکایات کے انبار لے کر آتے، جس کی وجہ سے جماعت کو بھی نقصان پہنچا

ذرائع کے مطابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بھی کھل کر ناراض گروپ کی مدد کررہے ہیں۔ انہوں نے ناراض گروپ کی مقتدر حلقوں سے بات بھی کروائی اور ان کے لیے راہ بھی ہموار کر رہے ہیں، جبکہ اس سیاسی بحران کے دوران چیئرمین سینیٹ متعدد بار بلوچستان کا دورہ بھی کرچکے ہیں اور ناراض ارکان سے بھی ملاقات بھی کر چکے ہیں

تجزیہ نگاروں کا مزید کہنا ہے کہ جب بلوچستان میں وزیراعلیٰ کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تو اس وقت صوبے میں موجود اسٹیبلشمنٹ نے اس پر شدید غصے کا اظہار کیا تھا۔ ناراض ارکان نے قرآن پر حلف لیا ہے کہ وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں

واضح رہے کہ اس وقت بلوچستان میں حکمران جماعت کے ناراض 14 ارکان نے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی ہے، جس میں آئینی طور پر سات دنوں کے بعد اسمبلی کا اجلاس بلانا ضروری ہے

دوسری طرف اگر بلوچستان میں وزرائے اعلیٰ کی تاریخ اور گذشتہ ادوار کو دیکھیں تو بلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل، نواب اسلم رئیسانی ، نواب ثنااللہ زہری کو بھی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ اس کی وجہ تجزیہ کار ’قبائلیت اور اسٹیلشمنٹ کے کنٹرول‘ کو قرار دیتے ہیں

اس حوالے سے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بلوچستان میں قبائلیت اب بھی موجود ہے اور اراکین اسمبلی میں ایک دوسرے کی کوتاہی کو برداشت کرنے کا رویہ کم دکھائی دیتا ہے۔ دوسری طرف یہاں کی حکومت اسٹیبلشمنٹ کے مکمل کنٹرول میں رہتی ہے

انہوں نے کہا یہ صوبے کی بدقسمتی ہے کہ یہاں بار بار تبدیلی آتی رہتی ہے اور جو کچھ کام کرنا چاہتا ہے وہ بھی نہیں کرسکتا ہے۔ دوسرے جو نااہل ہوتے ہیں اور کام  نہیں کرتےان کو بھی موقع ملتا ہے کہ کہہ سکیں کہ ہمیں تو موقع ہی نہیں ملا

سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ جام کمال کا تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کا فیصلہ اور استعفیٰ نہ دینا ایک درست اقدام ہے۔ انہوں نے سابقہ وزرائے اعلیٰ کی طرح پیچھے ہٹنے کے بجائے آخری بال تک کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے، جو یہاں کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے

وزیراعلیٰ جام کمال نے اسلام آباد جانے سے قبل کوئٹہ میں مقامی ایڈیٹرز سے بھی ملاقات کی تھی، جس میں انہوں نے اپنا موقف سامنے رکھا تھا۔ ان میں ایک سینیئر صحافی عبدالخالق رند بھی موجود تھے

عبدالخالق رند نے اس ملاقات کے حوالے سے بتایا کہ جام کمال اس دوران انتہائی پراعتماد نظر آئے اور انہوں نے چند لوگوں کی خواہش پر مستعفی ہونے کے تاثر کو مسترد کر دیا

انہوں نے بتایا کہ جام کمال کے مطابق اس وقت بھی انہیں 26 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ وہ کسی بھی صورت حال کا سامنا کرسکتے ہیں

واضح رہے کہ بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد 65 ہے اور قائد ایوان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 33 ارکان کی حمایت درکار ہوگی

بلوچستان میں اپوزیشن اراکین کی تعداد 23 ہے، وہ گذشتہ تین سال سے وزیراعلیٰ جام کمال سے نالاں رہے ہیں اور انہوں نے اس کے خلاف دھرنا دیا اور اسمبلی میں داخل ہونے سے انہیں روکنے کی کوشش بھی کی، جس پر ان کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوا تھا

تحریک اعتماد جمع ہونے کے بعد اس کی سات دنوں کی مدت 19 اکتوبر کو پوری ہو رہی ہے۔ تاہم 12 ربیع الاول کو تعطیل کے باعث بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 20 اکتوبر کو طلب کیے جانے کا امکان ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close