کوویڈ نے ساڑھے چار کروڑ امریکی ملازمتیں ختم کر دیں اور پینتیس لاکھ کاروبار ٹھپ ہو گئے۔ اکتالیس فیصد سیاہ فام کاروبار دیوالیہ ہو گئے۔ اس وبا نے بہت کچھ کھول کے رکھ دیا۔ایک ایسا ملک جو کبھی ہر گھنٹے میں ایک لڑاکا طیارہ بنانے کے قابل تھا۔اسے ماسک اور کاٹن کی پٹیوں کے لالے پڑ گئے
جس ملک نے کئی عشروں تک طبی سائنس و تحقیق و دریافت میں دنیا کی رہنمائی کی۔پولیو اور خسرہ سے نجات حاصل کرنے میں کل عالم کی مدد کی۔اس ملک کی سب سے اونچی و بااختیار کرسی پر بیٹھا مسخرہ پہلے تو کورونا کو نزلے کی ایک نئی قسم قرار دیتا رہا اور پھر یہ تجویز کرنے لگا کہ کورونا کو مارنے کے لیے گھریلو صفائی کے کیمیکل بھی رگوں میں داخل کیے جا سکتے ہیں
دنیا کی چار فیصد آبادی اس وقت امریکا میں رہتی ہے مگر کوویڈ سے دنیا بھر میں مرنے والوں میں سے بیس فیصد شہری بھی امریکی تھے۔اخبار آئرش ٹائمز کے مطابق ’’ دو صدیوں سے زائد مدت تک باقی دنیا امریکا سے نفرت یا محبت ، خوف اور اطمینان، حسد اور رشک کے جذبات میں مبتلا رہی۔ پہلی بار ان جذبات میں ترس کا جذبہ بھی شامل ہو گیا۔جب امریکی ڈاکٹر اور نرسیں چین سے آنے والی بنیادی طبی رسد کی کھیپ کا بے چینی سے انتظار کرتے رہے۔یوں تاریخ کا رخ ایشیا کی صدی کی جانب مڑ گیا‘‘
اس وبا کے سبب گزشتہ دو برس میں امریکا کی عظیم برتری ایک عام سے ملک کی آمریت دکھائی دینے لگی اور آمریت سے جوج رہے ممالک امریکا کو اخلاقی درس دینے لگے۔مثلاً سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں موت پر انگشت برابر ریاست چیچنیا کے آمر رمضان قادریوف نے امریکا کی انسانی حقوق کی بہیمانہ پالیسی کو خوب لتاڑا۔شمالی کوریا کے اخبارات نے امریکی پولیس کی زیادتیوں کی کھل کے مذمت کی۔ ایران کے مذہبی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اس واقعے سے امریکا نے اپنی بربادی کا آغاز کر دیا ہے
جب ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے ہانگ کانگ میں جمہوری حقوق کی تحریک کچلے جانے اور چین میں انسانی حقوق کے مجموعی حالات پر ٹویٹ کیا تو چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اس کے جواب میں جارج فلائیڈ کے یہ آخری الفاظ ٹویٹ کر دیے ’’ میں سانس نہیں لے سکتا ۔‘‘
ٹرمپ کا آنا محض اقتصادی و سماجی بے چینی کا شاخسانہ نہیں تھا بلکہ امریکن ڈریم کا اپنے ہی بوجھ سے چٹخنے کا بگل تھا۔جس ملک کے بانیوں نے آزادیِ اظہار کو جمہوری رگوں میں دوڑنے والے خون جتنا اہم قرار دیا، وہ ملک آج آزادیِ اظہار اور اطلاعات کی کھلی رسائی کی عالمی فہرست میں پینتالیسویں پائیدان پر کھڑا ہے
ایسی ریاست جو تارکینِ وطن نے تشکیل دی اور اپنے قیام کے ڈیڑھ سو برس بعد تک ہر مصیبت کے مارے کے لیے اپنے بازو کھولے رکھے اور ہر نئے آنے والے کو آزادی دی کہ امریکن ڈریم میں سے اپنی صلاحیتوں کی بنا پر جتنا حصہ بٹورنا چاہے بٹور لے۔آج اسی قوم کے آدھے لوگ صحتِ عامہ کے ڈھانچے پر رقم لگانے کو میکسیکو سے ملنے والی جنوبی سرحد پر تارکینِ وطن کو روکنے کی خاطر دیوار اٹھانے کے منصوبے سے کم اہم سمجھتے ہیں
اطلاعات تک رسائی سے کہیں اہم آئین کی دوسری ترمیم کے تحت اس حق کو سمجھا جاتا ہے جس کے تحت ہر امریکی کو اپنے دفاع میں اسلحہ رکھنے کا حق ہے۔ حالانکہ جس زمانے میں یہ حق دیا گیا تھا، اس وقت امریکا کی زمینی توسیع اور آباد کاروں کی جانب سے قدرتی وسائل کی چھینا جھپٹی کی مزاحمت کرنے والے مقامی لوگوں سے نپٹنے کا معاملہ درپیش تھا۔ بعد میں اسی بندر بانٹ کے سبب پیدا ہونے والی رقابت کے نتیجے میں یہ آبادکار چار سالہ خانہ جنگی میں باہم دست و گریباں بھی رہے
لیکن آج بظاہر کوئی مسلح خانہ جنگی نہیں۔ نہ ہی بزور زمینیں اور وسائل ہتھیانے کا چلن ہے۔پھر بھی ہر شہری کو اسلحہ رکھنے کی اجازت دینے کا مطلب سوائے اس کے کیا نکل رہا ہے کہ وہ بندوق کی نالی کا رخ اپنے ہی ہمسائیوں کی جانب موڑ دے یا پھر محبوبہ کے چھوڑ کر چلے جانے کے غم میں کسی کلب یا اسکول میں گھس کر موت برسا دے۔مگر اسلحہ رکھنے کے حق کو آج بھی دیگر حقوق سے زیادہ مقدس سمجھا جاتا ہے۔کہنے کو امریکا عالمی پولیس مین ہے لیکن امریکی شہری اپنے انفرادی تحفظ کی مکمل زمہ داری اس پولیس مین کے حوالے کرنے پر یقین نہیں رکھتے
ایک ایسی ریاست جو قومی سطح پر تقسیم در تقسیم اور بے چینی کی مختلف پرتوں کو کم کرنے کے بجائے اضافے کا موجب بن رہی ہے۔وبائی لہروں، ماحولیات کی ابتری اور دہشت گردی کے جھکڑ کے پیچھے موجزن بنیادی علاقائی و نسلی و سیاسی اسباب میں کمی کے لیے ایک ایماندار سرپنچ بننے کے بجائے ایک جانبدار دلالی کو جائز سمجھتی ہے۔وہ ایک لامحدود عرصے کے لیے عالمی لیڈر بننے کی کیوں کر دعویدار رھ سکتی ہے اور باقی دنیا اس پر کیوں اعتبار کرتی رہے ؟ جھنڈے میں لپٹی اندھی حب الوطنی رحم و درگزر کا متبادل نہیں ہو سکتی۔مسلسل غصہ اور دشمنی لگاؤ کے جذبے کو کیسے پنپا سکتا ہے؟
گاندھی سے کسی نے پوچھا کہ مغربی تہذیب کے بارے میں آپ کے کیا وچار ہیں۔گاندھی جی نے ترنت کہا ’’ میرے خیال میں یہ ایک اچھی اختراع ہے‘‘۔مغربی تہذیب پر تو شاید یہ جواب پوری طرح لاگو نہ ہو لیکن امریکن ڈریم ضرور گاندھی جی کے اس مقولے کے کھانچے میں آج فٹ بیٹھتا ہے
لیکن ایسا بھی نہیں کہ امریکا کل ڈوب جائے گا۔یہ مدت طویل بھی ہو سکتی ہے اگر بڑے بڑے شگافوں کی مرمت ابھی سے شروع ہو جائے۔مگر کون سا شگاف زیادہ خطرناک ہے اور اس کا پہلے بھرنا ضروری ہے۔لگتا ہے اسی سوچ میں مدت گذر جائے گی اور تہذیب کے اگلے بیڑے تب تک کوسوں آگے بڑھ چکے ہوں گے اور ایک دن امریکا کا یہ نعرہ ’’ ہم خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں ‘‘ ’’ پدرم سلطان بود ‘‘ سے بدل جائے گا،جو گیند جتنی رفتار سے اوپر جاتی ہے اتنی ہی رفتار سے نیچے بھی آتی ہے۔یہ نیوٹن کا نہیں قدرت کا قانون ہے
(’’ کیا امریکا بکھر رہا ہے‘‘ کے عنوان سے آپ نے تین حصوں پر مشتمل جو مضمون پڑھا, وہ دراصل کینیڈا کی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے ثقافتی و ماحولیاتی محقق ویڈ ڈیوس کا تجزیہ ہے۔ اس مضمون کے بارے میں حتمی رائے کا حق قاری کی ہی ملکیت ہے۔)