کوٹری بیراج میں پانی کی قلت سے ماہی گیروں اور دکانداروں کا روزگار متاثر

نیوز ڈیسک

حیدر آباد :  دریائے سندھ پر واقع کوٹری بیراج میں پانی کی قلت کی وجہ سے جامشورو کے علاقے میں ماہی گیروں اور دکانداروں کا کاروبار بری طرح سے متاثر ہو رہا ہے

دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں کمی کے باعث نہ صرف کشتی بان ملاح مچھلی کا شکار نہ ملنے سے پریشان ہیں، بلکہ جامشورو میں بیراج کے ساتھ بند کے کنارے بنی فرائی مچھلی کی دکانوں کا کاروبار بھی ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے

حیدرآباد کے اس سیاحتی مقام کو ’المنظر‘ کا نام دیا گیا ہے، جہاں نہ صرف کوٹری، جامشورو اور حیدرآباد کے رہائشی موسم خوشگوار ہونے کے بعد تفریح کے لیے یہاں کا رخ کرتے ہیں بلکہ دیگر شہروں سے بھی لوگ اس پرفضا مقام پر آنے کو ترجیح دیتے ہیں

جب دریائے سندھ پر ڈیم بناکر دریا کو قید نہیں کیا گیا تھا تو اس دور میں ڈاؤن اسٹریم کوٹری میں وافر مقدار میں پانی آتا تھا اور مقامی ماہی گیر سندھ کی مشہور پَلّا مچھلی اور دیگر اقسام کی مچھلیاں بڑی تعداد میں پکڑتے تھے

لیکن اب پانی کی شدید قلت کی وجہ سےمچھلی کا، شکار تقریباً ناپید ہو چکا ہے، جس کے باعث کئی مقامی ماہی گیروں نے مچھلی کے شکار کے بجائے اپنی کشتیوں کو المنظر پر آنے والے سیاحوں کو دریائے سندھ کی سیر کرانے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے

مگر یہ ساری رونقیں پانی سے ہی تھیں، لوگ یہاں پانی کی موجوں اور جامشورو کی ٹھنڈی ہواؤں سے لبریز شاموں کا لطف اٹھانے آتے تھے، دریا کے پیٹ سے اڑتی دھول کی لپیٹیں دیکھنے کے لیے نہیں. یہی وجہ ہے کہ اب لوگوں کی بہت ہی معمولی تعداد یہاں کا رخ کرتی ہے

پہلے مچھلیوں کا شکار کرنے اور اب اپنی کشتی پر سیاحوں کو دریائے سندھ کی سیر کرانے والے ماہی گیر امان اللہ ملاح کا کہنا ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو بہت زیادہ رش ہوتا ہے۔ دور دور سے لوگ آتے ہیں۔ مگر جب بارش نہ بھی ہو، تو تب بھی لوگ پانی کی وجہ سے یہاں آتے تھے اور ہم ان کو کشتی کی سیر کرا کے روزگار کماتے تھے، مگر گذشتہ چند سالوں سے پانی آنا کم ہو گیا ہے، جس سے ہمارا روزگار بھی شدید متاثر ہوا ہے

یہ ماہی گیر کشتی پر ایک چکر لگانے کے تین سو روپے لیتے ہیں۔ 2010ع میں آنے والے سیلاب کو یاد کرتے ہوئے امان اللہ ملاح نے بتایا کہ اس وقت یہاں بہت گہرا پانی تھا اور اس سیلاب کے بعد ان ماہی گیروں کی اچھی کمائی ہوئی تھی ، لیکن اب کوٹری بیراج پر پانی نہ آنے سے ان کا روزگار شدید متاثر ہوا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close