ایمازون پر کاروبار کر کے کئی پاکستانی لاکھوں کما رہے ہیں

ویب ڈیسک

لاہور – پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے تعلق رکھنے والے عبداللہ طارق اِن دنوں دنیا کی معروف ترین ای کامرس ویب سائٹ ’ایمازون‘ میں بطور ’سیلر اور سروس پرووائڈر‘ کام کر رہے ہیں

عبداللہ طارق کہتے ہیں ”انجینیئرنگ کرنے کے بعد ایک دوا ساز کمپنی میں ملازمت ملی، کام کی نوعیت ایسی تھی کہ ہر وقت یہی فکر رہتی کہ ابھی کوئی نہ کوئی سینیئر ’اوئے‘ کہہ کر پکارے گا۔ میں خود سے سوال کرتا تھا کہ کیا یہی میرا مستقبل ہے؟“

عبداللہ اب ایمازون میں سیلر اور سروس پرووائڈر کے طور پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ سروس پرووائڈر ایجنسی بنا کر اپنے جیسے دیگر افراد کو نجی یا سرکاری اداروں میں ملازمت کے بجائے ای کامرس انڈسٹری میں کاروبار کے موجود مواقع سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب اور تربیت بھی دے رہے ہیں

عبداللہ نے اپنی ملازمت کے دور کے بارے میں جو کہا وہ زیادہ پرانا قصہ نہیں، بلکہ صرف چند ماہ قبل کی ہی بات ہے

گذشتہ برس جب دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس کی عالمی وبا مسلسل دو برسوں سے معیشت پر اثر انداز ہو رہی تھی، تبھی اُنہیں آن لائن کاروبار یا کام کی تلاش کے دوران ایمازون کے بارے میں معلوم ہوا

وہ بتاتے ہیں ”میں کچھ عرصہ قبل انٹرنیٹ کے ذریعے کاروبار کی کوشش میں خاصا نقصان اٹھا چکا تھا۔ میں ایسی شرٹس، کپ اور دیگر اشیا آن لائن فروخت کرتا تھا، جس پر لوگ اپنی مرضی کی تصاویر یا تحریر پرنٹ کروا سکتے تھے۔ پروڈکٹ کی تیاری پر میری گرفت مضبوط تھی تاہم کسٹمر تک اِن اشیا کو پہنچانے میں کوریئر کمپنی کا انتخاب اِس کاروبار کے خاتمے کا باعث بنا“

عبداللہ نے بتایا ”گذشتہ برس جون میں مجھے ’بریکلے لرننگ‘ کے بارے میں علم ہوا، جو ایمازون پر کاروبار کے بارے میں مفت کورس کروا رہے تھے. میں نے وہ کورس کیا، ایمازون پر اپنا اکاؤنٹ بنایا جس کے لیے ایک لاکھ روپے تک کی رقم بھی درکار تھی، میں تب نوکری چھوڑ چکا تھا۔ میں نے رات کے وقت آن لائن ٹیکسی چلانا شروع کر دیا، جس سے حاصل ہونے والی رقم سے گھر کے اخراجات میں مدد ملتی اور ساتھ ساتھ ایمازون پر توجہ دیتا رہا“

اسلام آباد کی رہائشی کائنات عمر تین بچوں کی والدہ ہیں، جو عبداللہ ہی کی طرح ’ایمازون‘ کے ذریعے کامیاب انداز میں کاروبار کر رہی ہیں

کائنات کہتی ہیں ”میری والدہ ٹیچر تھیں تو اُن کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر یا ٹیچر بنوں، مگر مجھے اِن دونوں شعبوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں نے ٹیکنالوجی کا انتخاب کیا، سافٹ ویئر انجنیئرنگ کی، پھر پراجیکٹ مینیجمنٹ کے ساتھ نیٹ ورکنگ کا کورس کیا۔ اس کے بعد ایک ملازمت اختیار کی اور تعلیم جاری رکھی، ایم ایس کر رہی تھی کہ میری شادی ہو گئی. شادی کے بعد بچے ہوئے تو زندگی انہی کے گرد گھومنے لگی، جب بچے اسکول جانے لگے تو میں نے کام کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ میں نے کپڑوں کا کاروبار کیا، پھر ایک اور کام شروع کیا مگر کبھی سپلائرز اور کبھی کوئی دوسرا مسئلہ آتا رہا اور مجھے کام بند کرنے پڑے، یہ تمام کام ہوم بیسڈ ہی تھے، تاہم اس سب میں مالی نقصان خاصا ہوا“

پاکستان میں ایمازون کے ذریعے کاروبار کیسے ممکن؟

بریکلے لرننگ کے نام سے لاہور میں ایک ادارہ ایمازون پر کاروبار کے حوالے سے عوام کو تربیت فراہم کر رہا ہے۔ اس کی بنیاد عثمان اختر نے تقریباً آٹھ ماہ پہلے رکھی تھی۔ عبداللہ اور کائنات بھی انہی کے زیر تربیت رہنے کے بعد آج اپنا کاروبار اور ایجنسی چلا رہے ہیں

عثمان اختر بتاتے ہیں ”پاکستان میں رہتے ہوئے ایمازون پر محفوظ ترین کاروبار کا ماڈل یہ ہے کہ آپ پہلے سے وہاں فروخت کے لیے موجود اشیا کو خرید کر اسی ویب سائٹ پر موجود خریدار کو بیچ دیں۔ پروڈکٹ بیچنے والے کو ڈلیوری کے لیے خریدار کا ایڈریس دے دیں اور خریدار سے اپنے منافع کے ساتھ قیمت وصول کر لیں۔ اس ماڈل میں آپ کو پروڈکٹ اسٹاک تک نہیں کرنی پڑتی اور اسے ڈراپ شپنگ کہا جاتا ہے“

کائنات عمر یہ کام سیکھنے کے سفر کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ’انٹرنیٹ پر ایمازون کے بارے جاننے کی کوشش میں میری ابتدائی معلومات یہ تھیں کہ ڈراپ شپنگ کا کام رسک سے بھرپور اور نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ دو بڑے آن لائن گروپس میں ڈراپ شپنگ سے ڈرنے کے بعد میں نے جب دیگر آپشنز پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ کام شروع کرنے کے لیے ہزاروں ڈالرز کی ضرورت ہے، جو کہ میرے پاس نہیں تھے۔‘

کائنات نے بتایا ”میں کسی اور جانب منھ موڑنے ہی والی تھیں کہ مجھے بریکلے کے نام سے ایک نئے ایمازون گروپ کا علم ہوا۔ جہاں ڈراپ شپنگ کے ماڈل کو سمجھنے کے لیے مفت تربیتی کورس کی پیشکش کی جا رہی تھی. ظاہر ہے کہ مفت تھا تو کیوں نہیں؟“

”بریکلے کمپنی کے ذمہ داران نے اُس مفت تربیتی کورس میں ہمیں نہ صرف سمجھایا بلکہ ایمازون پر ڈراپ شپنگ سے متعلق اپنے فعال اکاؤنٹس بھی دکھائے جو بہت اچھی کارکردگی کے حامل تھے۔ میرے دماغ وہ سب سمجھنے کے بعد ایک ہی بات اُبھری کہ اگر اتنے لوگ کامیابی سے یہ کام کر سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں؟“

کائنات کہتی ہیں ”اس سوال نے مجھے وہ جہت دی کہ میں اِس میں آگے بڑھ سکوں. میں نے تربیتی کورس کے بعد بریکلے کا پہلا بوٹ کیمپ جوائن کیا، سیکھنے کا عمل جاری رکھتے ہوئے ایمازون پر اپنا اکاؤنٹ بنایا۔ برطانیہ اور امریکا کے لیے سروسز کا آغاز کیا، اس سفر کا آغاز گذشتہ برس جون میں ہوا اور اب میں ڈراپ شپنگ کے ساتھ ساتھ ایمازون اکاؤنٹس کی ری انسٹیٹمنٹ کی سروسز بھی فراہم کر رہی ہوں“

اس کام کے لیے تعلیمی قابلیت یا معیار کیا ہے؟

اس حوالے سے عثمان اختر کا کہنا ہے کہ ایمازون پر کاروبار یا سروس پرووائڈر کے طور پر کام کرنے کے لیے انگریزی زبان کا بنیادی علم ضروری ہے تاکہ آپ پروڈکٹ کے بارے میں صحیح معلومات سمجھ سکیں، سیلر اور کسٹمرز سے بہتر انداز میں رابطہ رکھ سکیں۔ اس کے علاوہ کسی تعلیمی سند ضرورت نہیں

عثمان کہتے ہیں کہ ایمازون پر مؤثر انداز میں کام کرنے کے لیے بنیادی اور انتہائی اہم عنصر کام کرنے کی لگن ہے. سروس پرووائڈر جتنا وقت فعال انداز میں اس کام کو دے گا، اس کی کامیابی کے مواقع اتنے ہی زیادہ ہوں گے

وہ کہتے ہیں ”بریکلے میں ہم ایمازون کے بارے میں عوامی آگاہی پر خاصی توجہ دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں ہم نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عوام کی معاونت کے لیے بہت سا مواد رکھا ہے“

ان کے مطابق بریکلے کی جانب سے رواں سال جنوری میں اسکالر شپس کا بھی آغاز کیا گیا ہے۔ اس سکالر شپ پروگرام سے بیوہ خواتین، غریب طلبہ، شہدا کے بچوں سمیت معاشرے میں مشکلات کے شکار حصے سے تعلق رکھنے والے افراد مستفید ہو سکتے ہیں۔ ہم گذشتہ ماہ فروری کے وسط تک ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی اسکالر شپس عوام کو فراہم کر چکے ہیں

ملازمت پر کاروبار کو ترجیح دینے کا بڑھتا رجحان

بریکلے لرننگ کے سربراہ کے مطابق ادارے کے آغاز سے اب تک تقریباً آٹھ ماہ کے عرصے میں وہ ملک بھر سے ایک ہزار کے قریب افراد کو ایمازون پر کام کرنے کی تربیت فراہم کر چکے ہیں، جن میں صرف ڈراپ شپنگ ہی نہیں بلکہ اکاؤنٹس مینیجمنٹ، اکاؤنٹس ری انسٹیٹمنٹ جیسی متعدد سروسز شامل ہیں

اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ تربیت پانے والوں میں سے صرف 5 فیصد ایسے ہیں، جو کسی ذاتی نوعیت کے مسئلے کی وجہ سے یہ کام نہ کر پائے ہوں، باقی 95 فیصد کاروبار کی سمت اختیار کر چکے ہیں

کائنات کہتی ہیں ”مجھے گھر سے باہر نکل کر کام کرنا مشکل لگتا ہے اور نہ میں خود کو کسی کے زیر اثر یا جوابدہ رہ کر کام کر پانے والا سمجھتی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ اپنے کام پر ہی نظریں جمائے رکھیں“

وہ بتاتی ہیں ”اِس سارے عمل میں خوشی کے بہت سے پہلو ہیں، اپنے کام کی خواہش پوری ہوئی، ایسا کام جس میں کسی کی محتاجی نہیں مگر سب سے زیادہ خوشی کا احساس معاشی طور پر خود کفیل ہونے میں چُھپا ہے، جسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔‘

عبداللہ طارق کے مطابق ”پاکستان جیسے معاشروں میں اسکول، کالج اور پھر یونیورسٹی تک جانے کے بعد بھی اس ساری تعلیم کا مقصد بہتر ملازمت کا حصول مانا جاتا ہے۔ جتنی بہتر تعلیم، جتنی زیادہ محنت اتنا ہی بہتر کمپنی یا ادارے میں ملازمت کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ ہمیں بچپن سے جوانی تک اور گھر سے یونیورسٹی تک یہی سکھایا جاتا، کوئی یہ نہیں کہتا کہ اتنی تعلیم کے بعد کاروبار اچھا ہو سکتا ہے یا کوئی تعلیمی ادارہ ہمیں بہتر کاروبار کرنے کے لیے تیار نہیں کرتا“

عبداللہ کہتے ہیں ”یہ ملازمت اور بہتر ملازمت کے حصول کے نظریے کا ایسا تسلسل ہے کہ کئی کئی نسلیں کسی کے کاروبار کے لیے اپنی زندگیاں محض چند ہزار یا لاکھ کے لیے بسر کر دیتی ہیں۔ ہماری نسلیں اسی تسلسل کو آگے بڑھاتی جا رہی ہیں۔ یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہے گا، جب تک ہم اپنی سہولت کے ماحول کو ترک کرتے ہوئے اپنے آپ کے لیے ہمت نہیں کریں گے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close