1965ع میں، میں تئیس سال کا تھا اور ہائی اسکول میں زبان و ادب کا استاد بننے کے لئے پڑھ رہا تھا..
ستمبر کی ہوا میں موسمِ بہار کی خوشبو آنے لگی تھی۔ ایک صبح میں اپنے کمرے میں پڑھ رہا تھا۔ اس بلاک میں صرف ہمارا گھر اپارٹمنٹ بلڈنگ تھا اور ہم چھٹی منزل پر رہتے تھے
مجھے بہت سستی محسوس ہو رہی تھی اور بار بار میری نگاہ کتاب سے ہٹ کر کھڑکی کے باہر جا رہی تھی۔ وہاں سے میں سڑک دیکھ سکتا تھا۔
سڑک کے پار کونے والے گھر کا سجا سنورا، بوڑھے ڈان سساریو کا باغیچہ بھی۔ اس کے گھر کا نقشہ قریب قریب پینٹاگون کی طرح پانچ کونوں والا تھا
ڈان سساریو کے بعد والا بیرناسکونی گھرانے کے بھلے مانس لوگوں کا خوبصورت سا گھر تھا۔ ان کی تین بیٹیاں تھیں اور سب سے بڑی بیٹی ایڈریانا کی محبت میں، میں مبتلا تھا.. چنانچہ دل کے ہاتھوں مجبور ہر تھوڑی دیر بعد میں اس کی جھلک پانے کی اُمید میں فٹ پاتھ کی طرف نظر ڈال لیتا
اپنے معمول کے مطابق بوڑھا ڈان سساریو اپنے محبوب باغیچے میں پانی دے رہا تھا۔ باغیچہ سڑک کی سطح سے قدرے اوپر تھا۔ پتھر کی تین سیڑھیاں چڑھ کر اس میں داخل ہوا جا سکتا تھا۔ باغیچہ ارد گرد سے لوہے کی نیچی باڑ سے گھرا ہوا تھا
سڑک ویران تھی، اس لیے جب اگلے بلاک پر ایک آدمی نمودار ہوا تو میرا دھیان اس کی طرف گیا۔ وہ ڈان کے گھر کی طرف والی سڑک سے ہماری طرف ہی آرہا تھا..
وہ کچرا چُننے والا بھکاری تھا۔ گہرے رنگوں کے ست رنگی چیتھڑوں والا لباس پہنے، دبلا پتلا.. اس کا سر پیلے رنگ کے تنکوں والے ہیٹ سے ڈھکا ہوا تھا. گرمی کے باوجود وہ ایک پھٹے پرانے بھورے اوورکوٹ میں لپٹا ہوا تھا۔ ساتھ وہ ایک بڑا سا گندا بورا لٹکائے ہوئے تھا۔ میرے خیال سے وہ اس میں اپنی مانگی ہوئی بھیک اور بچا کھچا کھانا رکھتا تھا.
میں دیکھتا رہا. وہ ڈان کے گھر کے سامنے رُک گیا اور اس نے لوہے کی سلاخوں والی باڑ کے پاس سے اندر کچھ کہا، شاید بھیک مانگی
ڈان سساریو کنجوس اور چڑچڑے مزاج کا آدمی تھا. بنا کچھ جانے سمجھے اس نے اسے چلے جانے کا اشارہ کیا۔ لیکن بھک منگا دھیمی آواز میں زور دیتا رہا اور پھر میں نے بوڑھے ڈان سساریو کو زور سے چلاتے ہوئے صاف صاف سنا:
”چلو بھاگو… بھاگو یہاں سے، تنگ مت کرو مجھے“
بہرحال بھکاری پھر بھی اپنی جگہ پر جما رہا.. اور تو اور، اب وہ پتھر کی تین سیڑھیاں چڑھ کر لوہے کا گیٹ کھولنے لگا. تب ڈان کا رہا سہا صبر بھی جاتا رہا۔ اس نے اسے دھکیل دیا. بھکاری گیلے پتھر پر سے پھسل پڑا. اس نے لوہے کی سلاخ پکڑنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا اور زمین پر دھڑام سے گر پڑا..
اسی، پلک جھپکتے لمحے میں ہی، میں نے دیکھا اس کے پیر آسمان کی طرف اُٹھے اور جب تک نیچے آئے، میں نے اس کی کھوپڑی زمین سے ٹکرانے کی تیز آواز سنی..
بوڑھا ڈان گھبرایا ہوا تیزی سے نیچے سڑک کی طرف دوڑا۔ وہ بھکاری پر جھکا، اس کی نبض اور سانس کا معائنہ کیا۔ ڈرے ہوئے بوڑھے ڈان سساریو نے فوراً اسے پیر سے پکڑا اور گھسیٹ کر موڑ تک لے گیا۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر میں گیا اور دروازہ بند کر لیا۔ اس یقین کے ساتھ، کہ اسے کسی نے نہیں دیکھا۔ اس کے اس غیر ارادی گناہ کا کوئی گواہ نہیں ہے۔ لیکن میں واحد گواہ تھا!
جلد ہی ایک آدمی وہاں سے گزرا۔ وہ مرے ہوئے بھکاری کے پاس رکا۔ پھر ایک ایک کر کے لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے۔ بعد میں پولیس بھی آ گئی۔ اسے ایمبولینس میں ڈال کر لے جایا گیا۔ بس اتنا ہی ہوا اور پھر اس معاملے کا کسی نے دوبارہ ذکر تک نہیں کیا
اپنی طرف سے اپنا منہ نہ کھولنے کے لیے میں نے بھی احتیاط کی۔ شاید میں نے غلط کیا…
جس بوڑھے نے مجھے کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا، اس پر الزام لگا کر مجھے کیا ملتا؟ دوسرا یہ کہ، اس نے بھکاری کا قتل جان بوجھ کر نہیں کیا تھا۔ مجھے یہ مناسب نہیں لگا کہ میں اس کے بڑھاپے کے آخری دنوں کو قانونی چکروں سے بگاڑوں
میں نے سوچا کہ سب سے بہتر یہی ہے کہ اسے اس کے ضمیر کے ساتھ چھوڑ دیا جائے۔
آہستہ آہستہ میں یہ ساری بات بھول گیا۔ لیکن ہر بار جب میں بوڑھے ڈان سساریو کو دیکھتا، ایک عجیب سنسنی کا احساس میرے اندر دوڑ جاتا تھا، کہ اسے معلوم نہیں ہے کہ پوری دنیا میں صرف میں ہی واحد شخص تھا، جو اس کے خوفناک راز سے آگاہ تھا.. پتہ نہیں کیوں، اس کے بعد سے ہی میں اس سے کنی کاٹنے لگا اور میں نے کبھی اس سے بات کرنے کی ہمت بھی نہیں کی..
1969 میں، میں چھبیس سال کا تھا اور ہسپانوی زبان و ادب کی تعلیم کی ڈگری لے چکا تھا.
ایڈریانا نے مجھ سے نہیں، کسی اور سے شادی کر لی تھی. اس وقت ایڈریانا اپنے حمل کے پورے دنوں سے تھی اور اسے اولاد کبھی بھی ہو سکتی تھی۔ وہ ابھی بھی اسی خوبصورت گھر میں رہتی تھی اور دن بہ دن اور خوبصورت ہوتی جا رہی تھی..
اس حبس بھری گرمی کی صبح میں امتحان کی تیاری کرنے والے کچھ لڑکوں کو ٹیوشن دے رہا تھا اور ہمیشہ کی عادت کے مطابق کبھی کبھی ایک اُداس نظر سڑک کے کنارے پر ڈال لیتا۔ اچانک میرے دل کی دھڑکن رک گئی، مجھے لگا کہ میں کسی ہذیان کا شکار ہو گیا ہوں..
چار سال پہلے جس راستے پر ڈان سساریو نے اس بھکاری کو مارا تھا، ٹھیک اسی راستے پر وہ بھکاری چلا آ رہا تھا…. وہی سترنگی چیتھڑوں والا لباس، بھورا اوورکوٹ، بےڈھنگا تنکوں والا ہیٹ اور وہی پھٹا پرانا بورا…
اپنے طالب علموں کو بھول کر میں کھڑکی کی جانب متوجہ ہوگیا۔ بھکاری دھیمے قدموں سے چلا آرہا تھا، مانو اپنی قسمت کے قریب آ رہا ہو…
”وہ زندہ ہو گیا ہے…؟“ میں نے سوچا، ”اور شاید ڈان سساریو سے بدلہ لینے آیا ہے۔“
خیر… اب وہ کنارے سے ہوتا ہوا ڈان سساریو کے گھر اور لوہے کی باڑ سے آگے بڑھتا رہا۔ اور تب وہ ایڈریانا کے گھر کے سامنے رکا، اس نے کنڈی سرکائی اور گھر کے اندر چلاگیا..
”میں ابھی آیا….“ میں نے طالب علموں سے کہا اور پاگلوں کی طرح لفٹ کی طرف بھاگا.. سڑک پر نکلا اور دوڑتے ہوئے ایڈریانا کے گھر میں جا گھسا۔
ایڈریانا کی ماں دروازے پر کھڑی تھی، گویا کہ کہیں جانے والی ہو۔ اس نے مجھ سے کہا: ‘‘ارے واہ! تم! یہاں؟ آج کوئی معجزہ ہوگیا ہے کیا!؟“
ایڈریانا کی ماں ہمیشہ سے مجھے پسند کرتی تھیں۔ میری اچانک آمد سے انہیں حیران ہونا چاہیے تھا، مگر انہوں نے خوشی سے مجھے گلے لگا لیا۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ تب مجھے پتہ چلا کہ ایڈریانا اسی پل ماں بنی ہے اور وہ لوگ بہت خوش اور پُر جوش تھے۔ اب میں اپنے فاتح حریف یعنی ایڈریانا کے شوہر سے ہاتھ ملانے کے سوا کیا کر سکتا تھا..
مجھے معلوم نہیں تھا کہ کس طرح پوچھوں اور دماغ میں چل رہا تھا کہ آیا چپ رہنا بہتر ہے یا نہیں.. اور تب میں نے ایک بیچ کا راستہ نکالا… بے دھیانی سے میں نے کہا: ”اصل میں مجھے لگا کہ ایک گندے بڑے بورے کے ساتھ کوئی بھکاری آپ کے گھر میں چپ چاپ گھس آیا ہے.. اسی لئے بنا گھنٹی بجائے میں آگیا.. مجھے لگا کہ وہ کچھ چرا نہ لے جائے..“
وہ لوگ مجھے حیرت سے دیکھنے لگے:
بھکاری…؟ بورا…؟ چوری…!؟
وہ سب لوگ سارے وقت سامنے کے کمرے میں تھے اور انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کہہ رہا تھا
”تب مجھ سے ضرور کوئی بھول ہوئی ہے…“ میں نے بات کو گھماتے ہوئے کہا
پھر وہ لوگ مجھے وہاں لے گئے، جہاں ایڈریانا اور اس کا بچہ تھا. ایسی صورت میں کیا کہنا چاہئیے، مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آتا ہے.. میں نے اسے مبارکباد دی، بچے کو دیکھا، اسے چوما اور پوچھا کہ وہ لوگ بچے کو کیا نام دیں گے۔ ان لوگوں نے بتایا کہ اس کے والد کی طرح اسے گستاوو نام دیں گے؛ مجھے فرنانڈو نام دینا اچھا لگتا، پر میں نے کچھ نہیں کہا
گھر لوٹ کر میں یہی سوچتا رہا ”آیا وہ بھکاری ہی تھا، جسے ڈان سساریو نے مارا تھا، یا میرا کوئی وہم..؟ کیا واقعی وہ زندہ ہوگیا ہے؟ کیا وہ بدلہ لینے ہی واپس آیا ہے..؟ لیکن وہ گیا کہاں…؟ کیا ایڈریانا کے بچے کے روپ میں دوبارہ آیا ہے…..؟“
اور پھر، دو تین دن کے بعد مجھے اپنے یہ خیالات اور مفروضات مضحکہ خیز لگنے لگے اور آہستہ آہستہ میں اس بات کو بھول گیا.
میں یہ واقعہ ہمیشہ کے لئے بھول گیا ہوتا…. اگر 1979ع کے ایک واقعہ نے اسے مجھے پھر سے یاد نہ کروا دیا ہوتا۔
میری عمر بڑھ رہی تھی اور اب میں خود کو پہلے سے کم قابل سمجھتا تھا. معمول کے مطابق کھڑکی کے بغل میں بیٹھ کر میں ایک کتاب پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا. مگر میرا دھیان ادھر ادھر بھٹک رہا تھا۔
ایڈریانا کا بیٹا گستاوو اپنے گھر کی چھت پر کھیل رہا تھا۔ یہ ایک بچکانہ سا کھیل تھا۔ میں نے سوچا بچے کو ضرور ہی اس کے باپ کا بھونڈا دماغ ملا ہوگا. اگر میرا بچہ ہوتا تو میں تفریح کے لئے اسے اتنا بیکار کھیل کھیلنے نہ دیتا..
اس نے چھت کو بانٹنے والے حصے پر خالی ڈبوں کی قطار رکھی ہوئی تھی اور تین چار فٹ دور کھڑا ہوکر پتھر سے انہیں گرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ جن میں سے بہت سے پتھر پڑوسی ڈان سساریو کے باغیچے میں گر رہے تھے. مجھے لگا کہ بوڑھا یہ دیکھ کر ضرور پگلا جائے گا، کہ اس کے تمام پھول تباہ ہو گئے ہیں..
ٹھیک اسی وقت ڈان سساریو گھر سے باہر باغیچے میں آیا۔ اب وہ سچ میں بوڑھا ہو چکا تھا۔ مشکل سے ڈگمگاتا ہوا، ایک ایک قدم رکھ کر چلتا ہوا، دھیرے دھیرے وہ باغیچے کے گیٹ تک آیا اور نیچے جانے کے لئے تین سیڑھیاں اُترنے کی تیاری کرنے لگا.
ٹھیک اسی وقت گستاوو نے، جس نے بوڑھے کو نہیں دیکھا تھا، ایک ڈبے کو مار گرایا.. ڈبہ دو تین قلابازیاں کھا کر تیر کی طرح زور سے ڈان سساریو کے باغیچے میں جا گرا..
سیڑھیوں کی جانب جاتا بوڑھا آواز سن کر اچانک گھوما اور اپنا توازن کھو بیٹھا… اور پہلی سیڑھی پر اس کی کھوپڑی ٹکرا گئی…
میں نے یہ سب دیکھا… لیکن نہ تو بچے نے بوڑھے ڈان کو دیکھا، نہ ہی بوڑھے ڈان نے بچے کو..
ایک بار پھر اس صورتحال کا واحد گواہ میں ہی تھا!
پھر کسی وجہ سے گستاوو چھت سے چلا گیا. چند لمحوں میں ڈان سساریو کے مردہ جسم کے پاس بہت سے لوگ جمع ہو گئے. ظاہر سی بات تھی، حادثاتی طور پر پھسل کر گرنا موت کی وجہ تھا۔
اگلے دن میں بہت جلد بیدار ہوگیا اور پھر خود کو کھڑکی کے قریب کیا۔ میں نے دیکھا سڑک پر بہت سے لوگ سگریٹ پی رہے تھے اور باتیں کر رہے تھے۔ شاید بوڑھے ڈان کی حادثاتی موت پر چہ مگوئیاں جاری تھیں…
اچانک دیکھا کہ وہ لوگ کچھ نفرت اور بےچینی سے کنارے ہٹ گئے، جب ایڈریانا کے گھر سے ایک بھکاری نکلا.. وہی بھکاری….
ایک بار پھر اپنے چیتھڑوں، اپنے اوورکوٹ، اپنے چٹائی والے ہیٹ اور اپنے بورے کے ساتھ.. وہ آدمی عورتوں کے بیچ سے ہوتا ہوا دھیرے دھیرے دور جاتا ہوا، غائب ہو گیا.. اسی سمت میں، جس سے وہ پہلے دو بار آچکا تھا..
دکھ ہوا، مگر حیرت نہیں.. جب اسی دوپہر کو مجھے خبر ملی کہ ایڈریانا کا بیٹا گستاوو اس صبح سے اپنے بستر پر نہیں تھا..
بیرناسکونی خاندان نے اس بچے کو بہت تلاش کیا۔ بنا کسی نتیجے کے تلاش آج بھی جاری ہے…
میری ہمت نہیں پڑتی ہے کہ انہیں تلاش بند کرنے کے لئے کہوں…
اور کہتا بھی کیا…؟
کون یقین کرتا…؟ سوائے میرے.. کیونکہ صرف میں ہی اس عجیب اور ماورائے عقل واقعہ کا اکلوتا چشم دید گواہ تھا!
ہسپانوی زبان کے ادیب، ناول نگار اور مصنف
فرنینڈو سورےٹینو
زیر نظر کہانی فرنینڈو سورےٹینو کی مختصر ہسپانوی کہانی el regreso کا ترجمہ ہے. فرنینڈو سورےٹینو Fernando Sorrentino، ارجنٹائن میں ہسپانوی ادب کا مشہور نام ہے، جس کی تحریریں اور کہانیاں اب تک انگریزی، پرتگالی، اطالوی، جرمن، فرانسیسی، فنش، ہنگیرین، پولستانی، بلغاری، چینی، ویتنامی، تامل، کناڈا، قبائلی (الجزائر) اوردیگر کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔
فرنینڈو سورےٹینو 8 نومبر 1942ع کو ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس میں پیدا ہوا. اس نے سن ساٹھ کے عشرے سے لکھنا شروع کیا، عموماً وہ بچوں کی کہانیوں اور مختصر کہانیوں کی وجہ سے مقبول ہے. اس کے علاوہ مشہور شخصیات سے اُس کے کیے گئے انٹرویوز کے مجموعے بھی شایع ہوئے۔ وہ کہانیوں کے رسالے Lucanor کا کو-ایڈیٹر ہے. اس کی مشہور کہانیوں کے چھ مجموعے شایع ہوئے، جن میں ماحولیاتی رجعت (لا ریگریشن زولوجیکا، 1969)، سلطنت اور غلام (ایمپیریس یا سرویڈمبر، 1972)، تمام ممکن دنیاؤں میں بہترین (ال میجر دی لاس منڈوس پوسیبلز، 1976)، اپنے دفاع میں (این ڈیفینس پروپیا، 1982) ، اندھے بادشاہ کا علاج (ال ریمیڈیو پارا ال رئے سیگو، 1984)، بدقسمتی کا لرزہ (ال ریگور دی لاس ڈیسی ڈیکاس، 1994) شامل ہیں.
فرنینڈو سورےٹینو کی کئی کہانیوں پر فلمیں بھی بنائی گئی ہیں، جن میں ہالی ووڈ فلم باؤنڈریز Boundaries ، ورسز Versus اور میر سجیشن Mere Suggestion ، دا مین اِن سائیڈ The Man Inside، اور آلویز آن مائی مائینڈ Always on My Mind شامل ہیں.
2006ء میں فرنینڈو کی تمام مختصر کہانیوں کا مجموعہ ‘‘Per colpa del dottor Moreau ed altri racconti fantastici’’ کے عنوان سے شایع ہوا.