”فالس فلیگ“ حملے کیا ہوتے ہیں، ماضی میں انہیں کب کب استعمال کیا گیا ہے؟

ویب ڈیسک

کراچی – وقت کے ساتھ مشرقی یوکرین میں تنازع مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے اور برطانیہ اور امریکا کو خدشہ ہے کہ روس ’فالس فلیگ‘ حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، جنہیں یوکرین پر حملے کے جواز کے طور پر استعمال کیا جائے گا

گزشتہ روز امریکی حکام نے کہا تھا کہ ”روس یوکرین پر حملے کا بہانہ تلاش کر رہا ہے“

روسی حمایت یافتہ باغیوں نے پہلے ہی یوکرین کی فوج پر متعدد حملوں کا الزام عائد کیا ہے اور اب وہ مقبوضہ علاقوں سے عام شہریوں کے انخلا کی بات کر رہے ہیں

فالس فلیگ کیا ہے؟

فالس فلیگ ایک سیاسی یا فوجی اقدام ہوتا ہے، جسے مخالف پر الزام عائد کرنے کی نیت سے کیا جاتا ہے

اس سے قبل بھی کئی ممالک اپنے ہی ملک میں ایسی حقیقی یا نقلی کارروائیاں کر چکے ہیں، جن کا الزام بعد میں دشمن پر عائد کیا گیا ہے تاکہ اسے جنگ شروع کرنے جواز کے طور پر استعمال کیا جا سکے

یہ اصطلاح پہلی مرتبہ سولہویں صدی میں استعمال کی گئی تھی۔ اسے بحری قزاقوں کی جانب سے بحری جہاز پر دوست ملک کا جھنڈا (فیک فلیگ) لہرا کر تاجروں کی کشتیوں کو دھوکا دیا جاتا تھا، تاکہ وہ انہیں اپنے قریب آنے کی اجازت دے دیں

فالس فلیگ حملوں کی ایک طویل اور افسوسناک تاریخ ہے۔

جرمنی کا پولینڈ پر حملہ، 1939ع

پولینڈ پر حملہ کرنے سے ایک رات قبل، سات جرمن فوجی، جنہوں نے پولش فوجیوں کے لباس پہن رکھے تھے، نے جرمنی میں گلیوٹز ریڈیو ٹاور پر حملہ کیا۔ انہوں نے ایک چھوٹا سا پیغام پڑھا اور کہا کہ اب سے یہ اسٹیشن پولش ہاتھوں میں ہے

ان فوجیوں نے پولینڈ کی فوجی یونیفارم میں ایک عام شہری کی لاش بھی وہاں چھوڑ دی، تاکہ ایسا لگے کہ وہ اس حملے کے نتیجے میں مارے گئے تھے

ایڈولف ہٹلر نے اس روز ایک تقریر میں گلیوٹز حملے اور ایسے ہی دیگر واقعات کو پولینڈ پر حملے کے جواز کے طور پر پیش کیا

روس اور فن لینڈ کے درمیان جنگ، 1939ع

اسی سال، روس کے گاؤں مینیلا پر بھاری شیلنگ کا واقعہ پیش آیا۔ یہ فن لینڈ کی سرحد کے نزدیک تھا اور سوویت یونین نے اس مبینہ حملے کو جواز بناتے ہوئے فن لینڈ کے ساتھ فائربندی کا معاہدہ توڑ دیا، جس سے نام نہاد ’ونٹر وار‘ کا آغاز ہوا

محققین کا ماننا ہے کہ اس گاؤں پر شیلنگ فن لینڈ کی فوج کی جانب سے نہیں کی گئی تھی، بلکہ یہ سوویت این کے وی ڈی ریاستی سکیورٹی ایجنسی نے کرنے کا ڈھونگ رچایا تھا

بعد ازاں روسی فیڈریشن کے پہلے صدر بورس ییلٹسین نے سنہ 1994ع میں اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ 1939ع کی ’ونٹر وار‘ دراصل سوویت یونین کی جارحیت کا نتیجہ تھی

خلیج ٹونکن کا واقعہ، 1964ع

دو اگست 1964 کو ایک امریکی بحری جہاز اور شمالی ویتنام کی تورپیڈو کشتیوں کے درمیان ویتنام کے ساحل کے قریب واقع خلیجِ ٹونکن میں ایک سمندری لڑائی پیش آئی

دونوں اطراف پر نقصان کی اطلاعات موصول ہوئی اور شمالی ویتنام سے تعلق رکھنے والے مسلح افراد اور دیگر چھ کی ہلاکت ہوئی

امریکا کی قومی سلامتی ایجنسی کی جانب سے دو روز بعد دعویٰ کیا گیا کہ ایسی ہی ایک اور لڑائی بھی ہوئی تھی

تاہم اب اس حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید شمالی ویتنامیوں کی جانب سے دوسرا حملہ کبھی ہوا ہی نہ ہو

امریکا کے جنگی بحری جہاز کے کپتان نے آغاز میں تو یہ اطلاع دی کے انہیں دشمن کی تورپیڈو کشتیوں نے گھیر لیا ہے اور ان پر فائرنگ کی جا رہی ہے، لیکن بعد میں انہوں نے کہا کہ خراب موسم اور حدِ نگاہ انتہائی کم ہونے کے باعث وہ یہ وثوق سے نہیں کہہ سکتے

سنہ 2005ع میں جاری کیے گئے ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات کے مطابق شمالی ویتنامیوں کی بحریہ امریکی بحری جہاز کو نشانہ بنانے کی کوشش نہیں کر رہی تھی، بلکہ دو اگست کو اپنی کشتیوں کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لے رہی تھی

تاہم صدر لنڈن بی جانسن اور ان کے اسٹاف نے اس واقعے سے متعلق ابتدائی اطلاع کو درست مانتے ہوئے، انہیں کانگریس کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ ”یہ شمالی ویتنامیوں کی جانب سے امریکی فوج پر بلا اشتعال حملے تھے“

اسی کو بنیاد بنا کر خلیجِ ٹونکن قرارداد پیش کی گئی، جس کے بعد صدر جانسن کو شمالی ویتنام پر بمباری کرنے اور ویتنام جنگ میں امریکی فوجی مداخلت بڑھانے کی اجازت دی گئی

علاوه ازیں 2001ع میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دو بادلوں کو چھوتے مینار طیاروں کے حملے میں ’اسکائی لائن‘ سے یوں غائب ہو گئے، جیسے کسی بچے نے کچی پینسل سے بنی تصویر کا ایک حصہ ربڑ لے کر مٹا دیا جائے

اس واقعے کے حوالے سے بھی دنیا بھر میں حلقہ یہی خیال رکھتا ہے کہ یہ ایک اسی نوعیت کا حملہ تھا. اس نظریے کے حامی حلقے واقعات، حقائق، تصویروں اور چارٹوں کے ذریعے یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ نائن الیون کے واقعات ایک عظیم سازش تھے اور ان کے پیچھے خود امریکا کا ہاتھ تھا

اس نظریے کے حامی افراد کا خیال ہے کہ یہ سارا واقعہ ’ان سائیڈ جاب‘ تھا اور کا مقصد امریکا کا دنیا میں نیو ورلڈ آرڈر نافذ کرنا تھا

کتابچوں اور ڈی وی ڈیز کے علاوہ درجنوں کتابیں لکھی گئیں ، یو ٹیوب پر ہزاروں ویڈیوز اور انٹرنیٹ پر لاکھوں ویب سائٹس موجود ہیں جو پچھلے اکیس برسوں سے مسلسل اس نظریے کا پرچار کر رہی ہیں کہ یہ واقعہ دراصل افغانستان پر حملے کا بہانہ تھا

اس کے علاوہ عراق پر حملے کے لیے بھی امریکا اور برطانیہ نے عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کے جھوٹے الزام کا سہارا لیا. امریکا اور اس کے اتحادیوں کے اس جھوٹ کی قیمت لاکھوں عراقیوں کو اپنی جانیں دے کر چکانی پڑی

امریکا اور برطانیہ کی جانب سے عراق پر حملے سے پہلے ہی بعض اعلیٰ عہدیداروں نے یہ کہہ دیا تھا کہ صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کے ہتھیار نہیں ہیں

اطلاعات کے مطابق دراصل عراق پر حملہ دو عراقی جاسوسوں کی جھوٹی اطلاعات کی بنیاد پر کیا گیا تھا

ان جاسوسوں کی من گھڑت معلومات اور جھوٹ ان خفیہ معلومات کی بنیاد تھے، جن کے سبب عراق پر حملہ کیا گیا

حیرت کی بات یہ ہے کہ حملے سے چھ ماہ پہلے ہی اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے صدام حسین کے مبینہ وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پیدا ہونے والے خطرات کے حوالے سے آگاہ کیا تھا

انہوں نے اس طرح کے ہتھیاروں کے بارے میں خفیہ معلومات کے حوالے سے کہا تھا ’پروگرام بند نہیں ہوا ہے۔ یہ اب بھی چل رہا ہے۔‘

اسی دن 24 ستمبر 2002 کو برطانوی حکومت نے سابق عراقی لیڈر صدام حسین کے وسیع تباہی کے ہتھیاروں پر متنازعہ ڈوزیئر بھی شائع کیا تھا

عام لوگوں کے لیے جاری اس ڈوزیئر کا پیش لفظ خود وزیر اعظم بلیئر نے لکھا تھا تاکہ قارئین کو یہ یقین دلایا جا سکے کہ صدام حسین ’بلا شبہ‘ مسلسل وسیع تباہی کے ہتھیار بنارہے ہیں۔ لیکن اس ڈوزیئر میں اس بات کا ذکر کہیں بھی نہیں کیا گيا تھا کہ ہتھیاروں کے بارے میں کوئی شک بھی ہے

اس وقت برطانوی وزیر اعظم کے دفتر اور امریکا کے وائٹ ہاؤس نے جنگ کے لیے جن خفیہ معلومات کا استعمال کیا وہ منگھڑت، من چاہی اور جھوٹ پر مبنی تھی۔ جیسا کہ اس وقت کے برطانوی فوج کے سربراہ جنرل سر مائیک جیکسن نے کہا ’خفیہ معلومات کے لحاظ سے جو چیز اس وقت سونا دِکھ رہی تھی وہ مٹی نکلی۔ یہ سونا دِکھ رہی تھی لیکن تھی نہیں۔‘

کرائمیا میں ”لٹل گرین مین“ 2014ع

روس کی جانب سے کرائمیا پر قبضے کے آغاز کے دنوں میں کرائمیا کے گلیوں میں کچھ افراد روسی فوجیوں کی طرح سبز یونیفارم اور اسلحہ اٹھائے نمودار ہوتے تھے، لیکن ان کے یونیفارم پر روسی جھنڈے کا نشانہ نہیں ہوتا تھا

کریملن نے اس وقت کہا تھا کہ یہ دراصل مقامی طور پر قائم ’نیم فوجی دستے‘ ہیں، جو اس اراضی کو یوکرین کے قبضے سے لے کر روس کو دینا چاہتے تھے

کریملن نے کہا تھا کہ انہوں نے اپنے کپڑے اور سازوسامان ایک دکان سے خریدے تھے

روسی صحافیوں نے ان افراد کو ’شائشتہ افراد‘ کہا جب کرائمیا کے مقامی افراد نے انہیں ’لٹل گرین مین‘ یعنی ’چھوٹے سبز آدمی‘ کہا، ان کا اشارہ ان کے یونیفارم کے رنگ اور ان کے غیر تصدیق شدہ شناخت کی طرف تھا

پاکستان اور بھارت

انڈیا اور پاکستان کی جانب سے ایک دوسرے پر متنازع کشمیر سرحد پر فالس فلیگ آپریشن کرنے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں تاکہ ایک فوجی تنازع کا آغاز کیا جا سکے

2019ع میں ”پلوامہ حملے“ کے حوالے سے بھی یہ بازگشت سنی گئی، خود بھارت کی ہندو قوم پرست جماعت مہاراشٹرنو نرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے نے دعویٰ کیا کہ اگر پلوامہ کے حملے کے بارے میں قومی سلامتی کے مشیراجیت ڈووال سے پوچھ گچھ کی جائے تو اس حملے کی پوری حقیقت عیاں ہو جائے گی

راج ٹھاکرے نے ہلاک ہونے والے انڈین سیکورٹی اہلکاروں کو ‘سیاسی مظلوم’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہر حکومت اس طرح کی صورتحال تخلیق کرتی ہے لیکن مودی کی حکومت میں یہ کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔‘

جب کہ بھارتی جماعت کانگریس نے بھی وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے یہ سوال کیا تھا کہ پلوامہ کے حملے میں استعمال ہونے والا ڈھائی سو کلوگرام دھماکہ خیز آر ڈی ایکس جیش محمد کے فدائی کے پاس کہاں سے آیا؟

دوسری جانب بھارت بھی متعدد مواقع پر پاکستان پر فیک فلیگ آپریشنز کے الزامات عائد کرتا رہا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close