کوپ 26 : گلاسگو میں اعتراضات اور تحفظات کے درمیان نیا ماحولیاتی معاہدہ طے پا گيا

ویب ڈیسک

گلاسگو : اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ہونے والے کوپ-26 کے سربراہی اجلاس میں خطرناک ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے ایک معاہدہ طے پا گیا ہے

’گلاسگو کلائمٹ پیکٹ‘ آب و ہوا پر ہونے والا ایسا پہلا معاہدہ ہے، جس میں واضح طور پر کوئلے کے استعمال کو کم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، جو گرین ہاؤس گیسوں کے لیے بدترین فوسل ایندھن ہے

معاہدے میں کاربن اخراج میں فوری طور پر مزید کٹوتیوں پر بھی زور دیا گیا ہے اور ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی اثرات سے بچانے میں مدد کے لیے مزید مالی امداد کا وعدہ بھی کیا گیا ہے، لیکن یہ وعدے درجہ حرارت میں اضافے کو ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کے لیے کافی نہیں

پہلے مذاکراتی مسودوں میں شامل کوئلے کو مرحلہ وار ختم کرنے کے عزم کو ڈرامائی طور پر اس وقت نقصان پہنچا جب بھارت نے اس کی مخالفت کی

بھارت میں ماحولیات کے وزیر بھوپیندر یادو نے پوچھا کہ ترقی پذیر ممالک کوئلے اور فوسل ایندھن کی سبسڈی کو مرحلہ وار ختم کرنے کا وعدہ کیسے کر سکتے ہیں جب کہ انہیں اپنے ترقیاتی ایجنڈوں اور غربت کے خاتمے سے نمٹنا ابھی باقی ہے

بالآخر بہت سے ممالک کی جانب سے مایوسی کے اظہار کے درمیان تمام ممالک نے کوئلے کے استعمال کو ’فیز آؤٹ‘ یعنی مرحلہ وار طور پر ختم کرنے کے بجائے ’فیز ڈاون‘ یعنی مرحلہ وار طور پر کم کرنے پر اتفاق کیا

کوپ-26 کے صدر آلوک شرما نے کہا کہ جس طرح واقعات رونما ہوئے اس پر انہیں بہت زیادہ افسوس ہے. انہوں نے آنسوؤں کو ضبط کرتے ہوئے مندوبین کو بتایا کہ مجموعی طور پر معاہدے کی حفاظت کرنا بہت ضروری تھا

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ دنیا جب گلاسگو میں ہونے والے کوپ-26 معاہدے پر نظر ڈالے گی تو اسے ’موسمیاتی تبدیلی کے خاتمے کے آغاز کے طور پر‘ اور ’اس مقصد کے حصول کے لیے انتھک محنت جاری رکھنے‘ کے وعدے کے طور پر دیکھے گی

انہوں نے کہا کہ آنے والے برسوں میں بھی ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، لیکن آج کا معاہدہ آگے کی سمت مین ایک بہت بڑا قدم ہے اور اہم بات یہ ہے کہ ہم نے کوئلے کو مرحلہ وار کم کرنے کے لیے پہلے بین الاقوامی معاہدے پر اتفاق کیا ہے تاکہ گلوبل وارمنگ کو 1.5 سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کا روڈ میپ تیار کیا جا سکے

اس موقع پر امور موسمیات کے امریکی ایلچی جان کیری کا کہنا تھا کہ ہم حقیقت میں موسمیاتی افراتفری سے بچنے کے قریب تر ہیں اور صاف ہوا، محفوظ پانی اور ایک صحت مند سیارے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہیں

تاہم ان سارے دعووں کے برعکس اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتریز کم پرجوش نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا نازک سیارہ ایک دھاگے سے لٹک رہا ہے۔ ہم اب بھی موسمیاتی تباہی کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں

معاہدے کے ایک حصے کے طور پر ممالک نے یہ طے کیا ہے کہ کاربن میں مزید بڑی کٹوتیوں کا وعدہ پورا کرنے کے لیے وہ ملاقات کریں گے تاکہ 1.5 سینٹی گریڈ کے ہدف کو حاصل کیا جا سکے۔ موجودہ وعدے اگر پورے ہوتے ہیں تو گلوبل وارمنگ صرف دو اعشاریہ چار سینٹی گریڈ تک محدود ہو سکے گی

ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عالمی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ اضافہ ہوتا ہے تو زمین پر اس کے شدید اثرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جیسے لاکھوں مزید لوگوں کو شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے

سوئٹزرلینڈ کی وزیر ماحولیات سیمونیٹا سوماروگا نے کہا کہ ہم اس بات پر گہری مایوسی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں کہ کوئلے اور فوسل ایندھن کی سبسڈی پر ہم نے جس زبان میں اتفاق کیا تھا، وہ ایک غیر شفاف عمل کے نتیجے میں مزید گہرائی میں چلی گئی ہے

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے ہمیں 5۔1 سینٹی گریڈ کے قریب پہنچنے میں مدد نہیں ملے گی، بلکہ اس تک پہنچنا مزید مشکل ہو جائے گا

واضح رہے کہ کوئلہ ہر سال تقریباً 40 فیصد کاربن کے اخراج کا مؤجب بنتا ہے اور اس لیے یہ درجۂ حرارت کو 5۔1 ڈگری سینٹی گریڈ تک رکھنے کے لیے مرکزی اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے

اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے پیرس میں سنہ 2015ع میں جس بات پر اتفاق کیا گیا تھا، اس کے تحت عالمی اخراج کو 2030ع تک 45 فیصد تک کم کرنا تھا اور صدی کے وسط تک اسے تقریباً صفر تک لانے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا

ماحولیات کے ادارے گرین پیس کی بین الاقوامی ایگزیکٹو ڈائریکٹر جینیفر مورگن نے کہا کہ انہوں نے ایک لفظ بدل دیا ہے لیکن وہ سی او پی سے نکلنے والے سگنل کو تبدیل نہیں کر سکتے کہ کوئلے کا دور ختم ہو رہا ہے. یہ تمام ممالک کے مفاد میں ہے، بشمول وہ لوگ جو اب بھی کوئلہ جلاتے ہیں کہ وہ صاف قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل ہوں

تاہم ایکشن ایڈ کے پالیسی ڈائریکٹر لارس کوچ نے کہا کہ یہ مایوس کن ہے کہ صرف کوئلے کا ذکر کیا گیا. یہ ان امیر ممالک کو کھلی چھوٹ فراہم کرتا ہے جو ایک صدی سے زیادہ عرصے سے تیل اور گیس کی پیداوار جاری رکھے ہوئے ہیں اور آلودگی پھیلا رہے ہیں

فرینڈز آف دی ارتھ انٹرنیشنل کی سارہ شا نے کہا کہ یہ نتیجہ کسی اسکینڈل سے کم نہیں. صرف 1.5 ڈگری کہنا بے معنی ہے، اگر معاہدے میں اس کی فراہمی کے لیے کچھ نہیں۔ کوپ 26 کو ترقی پذیر ممالک کے ساتھ دھوکہ دہی کے طور پر یاد رکھا جائے گا

کانفرنس کے دوران فنانس ایک متنازع مسئلہ تھا۔ ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے ترقی پزیر معیشتوں کو سالانہ ایک سو بلین ڈالر فراہم کرنے کا جو وعدہ سنہ 2009ع میں کیا گیا تھا، اسے سنہ 2020ع تک پورا ہو جانا تھا، لیکن یہ اس مدت میں پورا نہیں ہو سکا

اسے ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی اثرات کے مطابق ڈھالنے اور صاف توانائی کی طرف منتقلی میں مدد دینے کے لیے تیار کیا گیا تھا

مندوبین کو مطمئن کرنے کی کوشش میں کوپ 26 کے صدر آلوک شرما نے دعویٰ کیا کہ سنہ 2025ع تک تقریباً پانچ سو بلین ڈالر خرچ کیے جائیں گے

لیکن دوسری جانب غریب ممالک کے مندوبین پورے اجلاس میں نقصان اور تلافی کے اصول کے ذریعے فنڈز فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے رہے۔ یعنی یہ کہ امیر ممالک کو غریب ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے لیے معاوضہ دینا چاہیے

یہ بہت سے وفود کے لیے کانفرنس کی بڑی مایوسیوں میں سے ایک تھی۔ تاہم عدم اطمینان کے باوجود فائدے کے لیے کئی ممالک نے اس بنیاد پر معاہدے کی حمایت کی کہ نقصان اور تلافی پر بات چیت جاری رہے گی

اس مسئلے پر زیادہ پیش رفت پر زور دینے والے وفود میں افریقی ممالک جیسے گنی اور کینیا کے ساتھ ساتھ لاطینی امریکی ریاستوں، چھوٹے جزائر والے علاقے اور ایشیا میں بھوٹان جیسے ممالک کے وفود شامل تھے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close