کورونا کی وبا کے دوران کراچی جانے کا اتفاق ہوا تو اس بار دل کیا کہ حیدر آباد کا بھی ایک چکر لگا لیا جائے کیونکہ میں نے اب تک اس شہر کو پوری طرح سے نہیں دیکھا تھا۔
میرا حیدر آباد جانا صرف اس حد تک تھا کہ یا تو سندھ کے کسی اور شہر سے آتے ہوئے یا کہیں جاتے ہوئے کچھ وقت یہاں گزار لیا۔
چنانچہ رواں برس فروری میں، میں نے سوچا کہ اتنے تاریخی شہر کو اس بار مکمل وقت دینا چاہیے اور اسی غرض سے ایک صبح میں اپنی ایک دوست کے ہمراہ کراچی سے حیدر آباد کے لیے نکل پڑی۔
کراچی سے حیدر آباد پہنچنے میں عموماً کم و بیش ڈیڑھ سے دو گھنٹے لگ جاتے ہیں اور اگر رش زیادہ ہو تو اس سے زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔
اسی سفر کے دوران میری دوست نے بتایا کہ حیدر آباد میں باقی جگہیں تو دیکھ لیں گے لیکن ایک خاص گھر ہے جہاں وہ مجھے لے جانا چاہتی ہے۔
اس جگہ کا نام اس نے ’مُکھی ہاؤس‘ بتایا۔
سُن کر لگا کہ شاید یہ کوئی پرانی سرکاری عمارت ہوگی جس کی تزین و آرائش کر کے عوام کے لیے اسے کھولا جا رہا ہے لیکن مُکھی ہاؤس کی کہانی اس سے کہیں زیادہ منفرد اور دلچسپ نکلی۔
حیدر آباد کی تنگ گلیوں سے ہوتی ہوئی ہماری گاڑی پکا قلعہ روڈ پر مُکھی ہاؤس کے سامنے آ کر رُکی۔ یہ گھر یہاں موجود باقی گھروں سے یکسر مختلف تھا۔
اس گھر کے داخلی دروازے سے داخل ہوتے ہی سیدھے ہاتھ پر ایک چھوٹا سا کاؤنٹر آتا ہے، جہاں سے ٹکٹ خریدنے کے بعد آپ کو اندر جانے کا راستہ بتایا جاتا ہے۔
اسی راستے میں اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں آتی ہیں اور ان سیڑھیوں پر چڑھتے ہی مُکھی ہاؤس کی بلند و بالا عمارت پر نظر پڑتی ہے۔
میں نے اس گھر اور اس کی کہانی کے لیے ’منفرد‘ کا لفظ اس لیے استعمال کیا کیونکہ دروازے سے اندر قدم رکھتے ہی باہر سے ٹریفک کا شور، گاڑیوں کے ہارن، لوگوں کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں اور اس شور شرابے کے بیچ و بیچ ہونے کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کسی پُرسکون مقام پر پہنچ چکے ہیں۔
اُس وقت اس محل نما گھر کا صرف گراؤنڈ فلور کھلا ہوا تھا۔
عمارت کے اندر داخل ہوتے ہی اُلٹے ہاتھ پر بالائی منزل کے لیے سیڑھیوں کا راستہ جاتا ہے، جس پر سرخ رنگ کا کارپٹ ہے لیکن یہاں اس وقت جانے کی اجازت نہیں تھی تو صرف سیڑھیوں کو دیکھتے ہوئے ہی ہم لوگ آگے بڑھ گئے۔
سامنے ایک اور دروازے سے اندر داخل ہونے کا راستہ آیا۔ اب اس گھر کو میوزیم کا درجہ مل چکا ہے اس لیے اندر داخل ہوتے ہی کمرے کے بیچ اور دیواروں کے ساتھ میزیں لگی ہوئی ہیں۔
اس میں حیدرآباد کی تاریخ اور اس شہر کی سیاسی و سماجی شخصیات کے بارے میں معلومات مل جاتی ہیں لیکن ہمیں بتایا گیا کہ یہ جگہ اب بھی ابتدائی مراحل میں ہے۔
لیکن مکھی ہاؤس کی تاریخ کیا ہے؟ اور یہ کس نے اور کیوں بنوایا تھا؟ یہ جاننے کے لیے میں نے انٹرنیٹ چھاننے کے ساتھ ساتھ مُکھی خاندان کے افراد کو بھی ڈھونڈنا شروع کیا۔
اس دوران مجھے پتا چلا کہ مُکھی ہاؤس سنہ 1920 میں ایک بااثر سندھی ہندو خاندان کے سربراہ مکھی پریتم داس کے بیٹے مُکھی جیٹھ آنند نے تعمیر کروایا تھا۔
اس گھر میں بارہ کمرے، دو بڑے ہال اور صحن شامل ہیں۔ مُکھی پریتم داس کے دو بیٹے تھے۔ مُکھی جیٹھ آنند اور مُکھی گوبند رام۔ مُکھی جیٹھ آنند کے چار بچے تھے، ٹِلی، گوردھن، دھرم اور رام۔
مُکھی جیٹھ آنند ایک خوبصورت محل تعمیر کرانا چاہتے تھے جسے برسوں بعد آج بھی لوگ دور دراز علاقوں سے دیکھنے آتے ہیں۔
مُکھی خاندان اس محل نما گھر میں چھبیس سال رہا اور پھر برِصغیر کی تقسیم کے بعد مُکھی خاندان کے افراد نے ایک ایک کر کے یہاں سے ہجرت کی۔
سنہ 1956 کے بعد یہ گھر مکمل طور پر خالی ہو گیا۔
خالی ہونے کے بعد یہاں کچھ عرصے تک ریکارڈ اور سیٹلمنٹ آفس قائم ہوا، جس دوران اس گھر کے دو کمرے انتظامیہ کی طرف سے استعمال ہوتے رہے لیکن باقی عمارت زیادہ تر خالی رہی۔
1970 کی دہائی میں حیدرآباد میں لسانی فسادات کے دوران مُکھی ہاؤس کو سرکاری دفتر سمجھتے ہوئے آگ بھی لگا دی تھی۔
اس کے بعد مُکھی ہاؤس میں رینجرز کا دفتر بھی قائم رہا۔ پھر کمشنر حیدرآباد نے اسے لڑکیوں کا ہائی سکول چلانے والی غیر سرکاری تنظیم کے حوالے کر دیا لیکن اس عمارت کی کوئی ذمہ داری نہیں لے رہا تھا۔
سنہ 1989 میں حیدرآباد ڈیویلپمنٹ اتھارٹی یعنی ایچ ڈی اے نے حیدرآباد کی پرانی عمارات کی ایک فہرست تشکیل دی، جس کے بعد پوسٹ کارڈز بھی چھپوائے گئے تھے۔ ان پوسٹ کارڈز میں مُکھی ہاؤس بھی شامل تھا۔
مُکھی ہاؤس ان پوسٹ کارڈز کا حصہ تو بن گیا لیکن اس سے آگے کچھ نہیں ہو سکا کیونکہ یہ عمارت کئی عرصے تک ضلعی انتظامیہ کے ساتھ جڑی رہی اور مُکھی ہاؤس کو مختلف دفاتر کے سپرد کیا جاتا رہا۔
مُکھی خاندان کے حیدرآباد سے ہجرت کرنے والوں میں مکھی جیٹھ آنند کی بیٹی دھرم بھی شامل تھیں۔ انھوں نے اپنی زندگی میں دو بار نقل مکانی کی ہے۔ پہلے برِصغیر کی تقسیم کے بعد حیدرآباد سے بمبئی، جو اب ممبئی کہلاتا ہے اور پھر ممبئی سے امریکہ کی مغربی ریاست ہوائی۔
ہجرت کرنے کے بعد بھی دھرم کو سندھ میں گزارا ہوا اپنا بچپن یاد رہا، چاہے وہ اپنے والد کی طرف سے سیاسی و سماجی شخصیات کے لیے منعقد کی گئی پارٹیاں ہوں، پارٹی کے بعد اُسی ُسرخ رنگ کے کارپٹ والی سیڑھیوں پر لوگوں کو آتے جاتے دیکھنا ہو اور لوگوں کا اس سیڑھی سے اترتے ہی ٹوٹے ہوئے ٹائل پر گِرنا اور اس کے نتیجے میں دھرم کا اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی ہنسی کو روکنا ہو، پھر گھر کے آنگن میں طرح طرح کے کپڑوں میں کھنچوائی گئی تصویریں ہوں، یا پھر ان کے گھر جواہر لعل نہرو کا آنا ہو۔
یہ سب باتیں انھیں مُکھی ہاؤس سے جانے کے کئی برسوں بعد بھی یاد رہیں۔ بمبئی کے بریچ کینڈی علاقے میں موجود اپنے گھر میں بیٹھ کر وہ اپنے بچوں کو یہی کہانیاں سناتی رہتی تھیں۔
ان کہانیوں کا سلسلہ امریکہ جانے کے بعد بھی چلتا رہا۔ دھرم کی طرف سے سنائی گئی اِن کہانیوں کی ایک بڑی گہری چھاپ ان کے بیٹے ڈاکٹر سریش بھوونانی کے ذہن پر رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ پاکستان میں پیدا نہ ہونے کے باوجود حیدرآباد آنے اور مُکھی ہاؤس دیکھنے کو ایسے ترستے رہے جیسے اپنے گھر کو ترس رہے ہوں۔
ان کی یہ خواہش تب پوری ہوئی جب مُکھی جیٹھ آنند کے بھائی گوبندھ رام کی بیٹی اندرو وٹومل کی ملاقات سندھ کے معروف آرکیالوجسٹ ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری سے ہوئی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کلیم لاشاری نے بتایا کہ ’سنہ 2005 میں جب میں پڑھنے کے لیے امریکہ گیا تو وہاں میری ملاقات مُکھی خاندان کی ایک رکن سے ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ پراپرٹی کسی اچھے استعمال میں آ جائے اور اس کا خیال اور مرمت کی جاتی رہے۔‘
’میں نے ان سے پوچھا کہ اس خاندان کے سبھی فرد کیا اس ایک نکتے پر راضی ہوتے ہیں کہ اس گھر کو استعمال کیا جائے؟
’تو انھوں نے کہا کہ آپ جو مناسب سمجھتے ہیں آپ وہ کیجیے۔ ہماری طرف سے آپ کو اختیار حاصل ہے۔‘
اس ملاقات کے بعد جب کلیم اللہ لاشاری سنہ 2006 میں پاکستان واپس آئے تو انھوں نے فوراً سندھ حکومت سے رابطہ کیا۔ سندھ حکومت نے انھیں کلین چِٹ دیتے ہوئے اس پراجیکٹ پر فوراً کام شروع کرنے کا کہا۔ کلیم لاشاری پھر ضلعی انتظامیہ کے پاس گئے۔
لاشاری حیدرآباد میں جدید دور کا میوزیم بنانا چاہتے تھے جس میں حیدرآباد کا جدید چہرہ نظر آئے۔
’میاں غلام شاہ کلھوڑو کے وقت میں جب حیدرآباد بنا تو اس وقت سے لے کر آج تک کے حیدرآباد کو اگر ہم کسی طرح سے پیش کر پائیں تو وہ مناسب ہو گا۔ ہم نے حیدرآباد کے ناظم کنور صاحب سے بات کر کے یہاں سے لڑکیوں کا سکول شفٹ کیا۔ پھر حکومت کی طرف سے مُکھی ہاؤس کی پاور آف اٹارنی مجھے مل گئی اور یوں اس کو میوزیم بنانے کا کام شروع ہوا۔‘
سنہ 2013 میں ڈاکٹر سریش بھونانی نے ان گیارہ لوگوں سمیت مُکھی ہاؤس میں پہلی بار قدم رکھا جس کے بارے میں ان کی والدہ دھرم نے انھیں کئی کہانیاں سنائی تھیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سریش بھونانی نے جہاں اپنے خاندان کی پوری روداد انگریزی میں سنائی وہیں انھوں نے کہا کہ ان کی امی مُکھی ہاؤس کو مُکھی محل کہتی تھیں۔
’میں نے گھر کی ایک ایک دیوار کو ہاتھ لگا کر وہاں کچھ دیر بیٹھ کر ان سارے قصے کہانیوں کو یاد کیا جو مجھے میری امی نے سنائی تھیں۔ سو سال بعد امی کا خواب آخرکار پورا ہو ہی گیا کیونکہ وہ چاہتی تھیں کہ یہ گھر کسی اچھے کام کے لیے استعمال ہو اور اب ایسا ہونے جا رہا ہے۔‘
دھرم اپنے مُکھی محل کو دوبارہ تو نہیں دیکھ پائیں لیکن ان کی کہانیوں اور اس گھر سے پیار نے اس کو دوبارہ لوگوں میں مقبول کر دیا ہے۔
مُکھی خاندان کے حیدرآباد کے دورے کے بعد اب گھر کے بارے میں لوگوں کا تجسس بھی بڑھنے لگا۔ اس دوران لکڑی کا سامان، زمین کے لیے ٹائلز اور کمروں کی رنگ و روغن کا کام بھی شروع کر دیا گیا لیکن ساتھ میں یہ خوف بھی بڑھنے لگا کہ کہیں چوری نہ ہو جائے۔
مُکھی ہاؤس کی حفاظت کے لیے اب باقاعدہ طور پر چوکیدار رکھے گئے ہیں، اتنے سال اس عمارت کے خالی رہنے کے بعد مُکھی ہاؤس کے بارے میں اب کہا جاتا تھا کہ یہ ’بھوت بنگلہ‘ ہے۔
دونوں چوکیداروں نے یہ بات کلیم اللہ لاشاری کو بتائی۔ کسی بھی قسم کی بحث میں پڑنے کے بجائے کلیم لاشاری نے مُکھی ہاؤس میں سونا شروع کر دیا۔
ایسا کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کہیں ان کی غیر موجودگی میں چوکیدار گھر چھوڑ کر بھاگ نہ جائیں اور ایک بار پھر قیمتی سامان چوروں کے ہتھے نہ چڑھ جائے۔
ایک بہت بڑی ذمہ داری یہ تھی کہ اس گھر میں اسی طرز کا سامان لگایا جائے جو پہلے سے یہاں لگایا گیا تھا۔ مشکلات کے باوجود پہلے کے ٹائل جیسی زمین، کھڑکیوں میں سٹین لیس گلاس، کھڑکیوں میں وہ ہی لکڑی کا سامان جو پہلے موجود تھا، وہ ہی لگایا گیا۔
اب مُکھی ہاؤس کو دیکھنے کے لیے لوگ پورے پاکستان سے حیدرآباد آتے رہتے ہیں اور اس کے باقاعدہ طور پر کھلنے کے بعد یہاں لوگوں کا رش اور بھی بڑھ جائے گا۔
اسی طرح کی تاریخ رکھنے والا حیدرآباد اب تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں کی ہر گلی میں تاریخ چھپی ہوئی ہے۔ یہاں کے قدیم علاقے ’ہیر آباد‘ میں بھی ایسے گھر موجود ہیں جو دھرم جیسی بیٹی کے بے پناہ پیار اور ان گھروں کی ازسرِ نو تعمیر کے منتظر ہیں.