”میری ماں کے آٹھ جھوٹ“ کے عنوان سے یوں تو یہ نظم انٹرنیٹ پر مصری مصنف و ادیب ڈاکٹر مصطفیٰ العقاد سے منسوب ہے ، لیکن اصلاً یہ افریقی ملک تیونس کے شاعر و ادیب خیر الدین جمعہ کی تحلیق ہے۔ خیر الدین جمعہ نے اَسی کی دہائی میں تیونس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کئی ناول اور شعری مجموعے لکھے۔ ان میں سے ایک آزاد نظم ”أكاذيب أمي الخمس“ یعنی ”میری ماں کے پانچ جھوٹ“ کے عنوان سے شایع ہوئی۔ انٹرنیٹ پر اس نظم کو کافی پزیرائی ملی اس کا انگریزی ترجمہ Eight Lies of A Mother اور اردو میں ”ماں کے آٹھ جھوٹ“ کے عنوان سے بھی یہ مختلف پلیٹ فارمز پر شایع ہوتی رہی ہے۔ یہ آزاد نظم مختلف اندازِ بیان، ترمیم و اضافے کے ساتھ آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ ہم اس خوبصورت نظم کا نثری ترجمہ سنگت میگ کے باذوق قارئین کے لیے یہاں پیش کر رہے ہیں.“
میری ماں سچ نہیں بولتی…
زندگی میں میری ماں نے مجھ سے آٹھ بار جھوٹ بولا،
لیجئے ماں کی دروغ گوئیوں کی گنتی پیش خدمت ہے..
پہلا جھوٹ
یہ کہانی میری پیدائش سے شروع ہوتی ہے. میں بہت ہی غریب گھرانے کا اکلوتا بیٹا ہوں. ہوش سنبھالا تو ہمارے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا ۔
ایک دن ہمارے گھر کہیں سے پکے ہوئے چاول آئے، میں بڑے شوق سے کھانے لگا اور وہ کھِلانے لگی، میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی پلیٹ کے چاول بھی میری تھالی میں ڈال دئیے،
”بیٹا! یہ چاول تم کھا لو… مجھے تو بھوک نہیں ہے“
یہ رہا میری ماں کا پہلا جھوٹ!
دوسرا جھوٹ
جب میں بڑا ہوا تو ماں گھر کا کام ختم کر کے قریبی جھیل پر مچھلیاں پکڑنے جاتی۔ ایک دن اس نے ﷲ کے فضل سے دو مچھلیاں پکڑ لیں.
اس نے گھر آکر یہ مچھلیاں جلدی جلدی پکائیں اور میرے سامنے رکھ دیں. میں کھا کر جو کانٹا پھینکتا، ماں اسے اٹھالیتی اور کانٹے پر جو بَھورے لگے ہوتے، انہیں کھانے لگتی.. یہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا..
میں نے دوسری مچھلی ماں کے سامنے رکھ دی اور عرض کیا کہ یہ مچھلی آپ کھائیں..
اس نے یہ کہہ کر مچھلی واپس کردی کہ ”بیٹا! تم تو جانتے ہی ہو کہ مجھے مچھلی کا گوشت پسند نہیں“
اور یہ تھا میری ماں دوسرا جھوٹ
تیسرا جھوٹ
جب میں اسکول جانے لگا تو ماں نے ایک گارمنٹس فیکٹری میں ملازمت کرلی اور گھر گھر جاکر کپڑے بیچنے لگی..
یہ سردی کی ایک شام تھی، بارش بھی زوروں پر تھی، میں بے قراری سے گھر پر ماں کا انتظار کر رہا تھا، کیونکہ وہ اب تک نہیں آئی تھی، میں اسے ڈھونڈنے نکلا.. آس پاس کی گلیوں میں نظر دوڑاتا رہا..
اچانک دیکھا کہ وہ ایک گھر کے دروازے پر کپڑے بیچ رہی تھی..
میں نے کہا ”ماں! اب بس بھی کرو، تھک گئی ہوگی.. دیکھو، سردی بھی بہت ہے، وقت بھی بہت ہوگیا ہے، باقی کام کل کرلینا“
یہ سن کا ماں نے مجھے پیار بھری نظروں سے دیکھا اور بولی ”نہیں بیٹا، میں بالکل بھی نہیں تھکی“
یہ رہا میری ماں کا تیسرا جھوٹ!
چوتھا جھوٹ
میرا آخری پرچہ تھا، ماں نے ضد کی کہ وہ بھی میرے ساتھ چلے گی۔
میں امتحانی ہال میں امتحان دے رہا تھا اور وہ باہر کڑی دھوپ میں کھڑی میری کامیابی کے لئے دعائیں کر رہی تھی..
میں پرچہ دے کر باہر آیا، اس نے لپک کر مجھے اپنی آغوش میں لے لیا.. مجھے پینے کو گنے کا ٹھنڈا رس دیا، جو اس نے میرے لئے خریدا تھا..
میں نے رس کا ایک گھونٹ بھرا اور ماں کے پسینے سے شرابور چہرے کی طرف دیکھا.. میں نے رس کا گلاس اس کی طرف بڑھایا، تو وہ بولی
”نہیں بیٹا! تم پیو، مجھے پیاس نہیں ہے..“
یہ رہا میری ماں کا چوتھا جھوٹ!
پانچواں جھوٹ
میرے ابا جان، جوانی میں ہی ہمیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئے.. میری ماں اس دنیا میں تنہا رہ گئی.. اسے اکیلے ہی زندگی کا بوجھ ڈھونا پڑا..
مشکلات بڑھ گئیں، گزر بسر نہایت مشکل ہوگئی.. بے سہارا ماں، تن تنہا گھر کا خرچ کس طرح چلاتی؟ نوبت فاقوں تک آگئی..
میرا چچا ایک رحمدل انسان تھا، وہ ہمارے لئے کبھی کبھار کچھ نہ کچھ بھیج دیتا تھا. جب ہمارے پڑوسیوں نے ہماری یہ حالت دیکھی. تو میری ماں کو دوسری شادی کا مشورہ دیا کہ تم ابھی جوان ہو، دوبارہ گھر بسا لو، تاکہ تمہیں سہارا مل جائے..
مگر میری ماں نے فوراً میری طرف دیکھا اور کہا ”نہیں نہیں، میں کسی سہارے کی محتاج نہیں“
یہ رہا میری ماں کا پانچواں جھوٹ!
چھٹا جھوٹ
الحمدللہ! جب میں نے گریجویشن مکمل کرلی، تو مجھے ﷲ کے فضل سے ایک معقول ملازمت مل گئی، میں نے سوچا اب ماں کو آرام کرنا چاہیے اور گھر کی پوری ذمہ داریاں مجھے پوری کرنی چاہئیں۔ میری ماں بہت کمزور اور بوڑھی ہوگئی ہے..
میں نے ماں کو کام کرنے سے منع کیا اور ماہانہ اخراجات کے لئے اپنی تنخواہ میں سے ایک رقم ماں کے لئے مختص کردی۔
ماں نے یہ کہہ کر رقم لینے سے انکار کردیا کہ ”ﷲ کے فضل سے میرے پاس سب کچھ ہے، مجھے پیسوں کی کوئی ضرورت نہیں.. یہ تمہارے کام آئیں گے“
یہ رہا میری ماں کا چھٹا جھوٹ!
ساتواں جھوٹ
میں نے نوکری کے ساتھ ساتھ اپنی مزید پڑھائی مکمل کرلی تو میری تنخواہ بھی بڑھ گئی اور پھر جلدی ہی مجھے جرمنی میں کام کرنے کی پیش کش ہوئی، جو میں نے قبول کرلی اور جرمنی چلا گیا۔
جرمنی میں مکمل طور پر سَیٹ ہونے کے بعد میں نے ماں کو اپنے پاس بلانے کا ارادہ کیا اور فون کرکے ماں کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا، تو اس نے میری تنگی کے خیال سے مجھے یہ کہہ کر منع کردیا کہ
”بیٹا! تم تو جانتے ہو مجھے اپنے وطن ہی میں رہنا پسند ہے، میں اپنے ملک سے کہیں دور نہیں رہ پاؤں گی۔ ویسے بھی یہاں مجھے ہر قسم کی سہولت میسر ہے“
یہ رہا میری ماں کا ساتواں جھوٹ!
آٹھواں جھوٹ
میری ماں بہت بوڑھی ہوگئی.. دن رات کی انتھک محنت اور میری جدائی کے غم نے اسے بہت کمزور کردیا۔ پھر اسے موذی مرض کینسر لاحق ہوگیا۔ جب مجھے پتا چلا تو میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کے پاس پہنچ گیا..
وہ بسترمرگ پر پڑی ہوئی تھی.. وہ مجھے دیکھ کر بے اختیار مسکرائی، مگر نقاہت کی وجہ سے اس کی آنکھیں بند ہوگئیں..
اس کی یہ حالت دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو رو رہا تھا، وہ بہت لاغر ہوچکی تھی.. میری آنکھوں سے آنسوؤں کا آبشار بہہ نکلا..
ایک قطرہ ماں کے رخسار پر گرا، ماں نے آنکھیں کھول دیں.. میری طرف دیکھا اور کہا
”مت رو بیٹا! میں بالکل ٹھیک ہوں.. مجھے کوئی تکلیف نہیں…“
یہ میری ماں کا آٹھواں اور آخری جھوٹ تھا، پھر میری ماں نے آنکھیں میچ لیں اور ہمیشہ کی نیند سو گئی…