خیبر: لہسن کی وہ قسم جو کاشت کاروں کی ’تقدیر بدل سکتی ہے‘

رپورٹ: عبدالقیوم آفریدی

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں عام طور پر صرف گندم اور مکئی کی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں، لیکن ایک پی ایچ ڈی اسکالر نے نارک جی ون لہسن کی قسم کو پہلی بار ضلع میں کاشت کر کے ثابت کر دیا ہے کہ کاشت کار اس فصل سے بھی لاکھوں روپے کی آمدنی حاصل کر سکتے ہیں

نسیم خان کا تعلق ضلع خیبر کی تحصیل جمرود سے ہے، وہ زرعی یونیورسٹی پشاور کے گریجوئیٹ اور پی ایچ ڈی اسکالر ہیں، جو کہ روایتی طریقہ زراعت کی بجائے جدید طرز پر کاشت کاری کرنے پر یقین رکھتے ہیں

معروف میڈیا گروپ دا انڈپینڈنٹ اردو میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق نسیم خان کا کہنا ہے کہ نارک جی ایچ ون لہسن کی قسم، جسے عام طور پر نارک جی ون بھی کہا جاتا ہے، کو نیشنل ایگریکلچر سینٹر اسلام آباد نے 2014ع میں متعارف کروایا تھا اور 2018ع میں باقاعدہ رجسٹرڈ کیا

نسیم خان نے بتایا کہ تقریباً 8 ماہ میں اس کی فصل تیار ہوتی ہے۔ ایک بلب کے سائز کا لہسن تین سے سات سو گرام تک ہوتا ہے، جبکہ اس کی پیداور بھی بہت زیادہ ہوتی ہے

نسیم خان کا کہنا ہے کہ ’گلابی لہسن‘ کے بعد یہ پہلی پاکستانی قسم ہے، جسے ضلع خیبر میں انہوں نے ہی پہلی مرتبہ متعارف کیا ہے

ان کا کہنا تھا ’2019ع میں سوشل میڈیا پر اس بارے میں کافی بحث چل رہی تھی تو میں نے اپنے علاقے میں پانچ جریب اراضی پر اس کی کاشت شروع کر دی‘

لہسن کی اس قسم کی خصوصیات کے بارے میں نسیم خان نے بتاتے ہیں کہ اس کی اوسط پیداوار بہت ہے اور اس کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے جبکہ شیلف لائف عام لہسن کے مقابلے میں دو گنا ہوتی ہے

انہوں نے کہا ’میں چاہتا ہوں کہ دیگر زمیندار بھی اس قسم کے لہسن کو کاشت کریں تاکہ انہیں مالی فائدہ ہو‘

ان کا کہنا تھا کہ عام لہسن یا گلابی لہسن یا این اے 756 جو بھارتی قسم ہے، اس کی شیلف لائف زیادہ سے زیادہ چھ سے ساتھ ماہ ہے، جس کے بعد وہ خراب ہو جاتا ہے مگر نارک جی ون کی شیلف لائف ایک سال سے بھی زیادہ ہے

نسیم خان کے مطابق ’عام لہسن کے مقابلے میں یہ قسم تقریباً تین سو من فی ایکڑ سے زیادہ پیداوار کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ اس وقت مارکیٹ میں سترہ سے اٹھارہ سو روپے فی کلو کے اعتبار سے اس کی ایڈوانس بکنگ ہو رہی ہے‘

وہ بتاتے ہیں کہ جڑوں اور پتوں سمیت، اگر زمیندار اس کو اپنے علاقے میں کاشت کریں تو ان کی زندگی اور تقدیر بدل سکتی ہے اور یہ ملک کے لیے بھی بہت زیادہ فائدہ مند ہے، کیونکہ ہم اکتوبر اور نومبر کے بعد دوسرے ممالک سے لہسن درآمد کرتے ہیں

’ابھی ہم اس کو بیچ کے اعتبار سے استعمال کرتے ہیں مگر امید ہے کہ آئندہ چار، پانچ سال بعد مارکیٹ میں بطور کھانے کے لیے بھی لہسن کی یہ قسم دستیاب ہوگی۔‘

نسیم خان نے بتایا کہ اگر پاکستان میں اس قسم کے لہسن کو زیادہ سے زیادہ کاشت کرنا شروع کیا جائے تو ہمیں چین سے لہسن درآمد کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی اور ہم جو اس پر بہت زرمبادلہ خرچ کرتے ہیں اس کی بجائے ہم دوسرے ممالک کو بھی دینے کے قابل ہو جائیں گے

انہوں نے کہا: ’ہم جب اس کا وزن کرتے ہیں تو ہمیں جو اوسط ملتا ہے وہ تقریباً تین سو گرام ہے جبکہ ایک پودے کا وزن 9 سو گرام تک بھی جا سکتا ہے‘

نسیم خان نے مزید بتایا کہ اس کا بیج دو طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے اسلام آباد سے یا مارکیٹ میں ان کاشت کاروں سے جن کے پاس یہ موجود ہوتا ہے

’گذشتہ سال ہم نے پانچ جریب زمین پر نارک جی ون لہسن کاشت کیا جس پر 19 لاکھ روپے کا خرچ آیا جبکہ 60 لاکھ 90 ہزار روپے میں اس کو فروخت کیا۔ یعنی صرف 8 ماہ میں 39 لاکھ روپے کی آمدن ہوئی‘

انہوں نے بتایا کہ موجودہ فصل ڈھائی ایکڑ رقبے پر کاشت کی ہے۔ فصل کو 900 اور ایک ہزار روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کیا، جس میں اس مرتبہ منافع ایک کروڑ سے زیادہ ہونے کی توقع ہے۔

انہوں نے کہا: ’کسانوں کو میرا مشورہ ہے کہ تھوڑا بیچ خریدیں کیونکہ اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ پچھلے سال اکتوبر کے مہینے میں 45 سو روپے فی کلو کے حساب سے بیج مل رہا تھا۔‘

نسیم خان کہتے ہیں ”جن افراد کے پاس زرعی زمین موجود ہے، ان کو چاہیے کہ نارک جی ون لہسن کاشت کریں تاکہ ان کی زندگی بدل جائے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close