وزيراعظم آزاد کشمیر نے ”صحافیوں کو جوتے مارنے“ کی بات کس کے لیے کہی؟

نیوز ڈیسک

مظفر آباد – آزاد جموں کشمیر کے وزیراعظم سردار عبدالقیوم نیازی کی جانب سے ایک جلسے سے خطاب کے دوران ”صحافیوں کو جوتے مارنے“ کی بات کرنے کے بعد ایک بحث چھڑ گئی ہے

اپنی تقریر میں بعض صحافیوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم آزاد کشمیر کا کہنا تھا کہ ”میں لفافے دینے والا آدمی نہیں ہوں۔ میں جوتیاں ماروں گا۔“

یہ بات سردار عبدالقیوم نیازی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے پونچھ ڈویژن میں واقع اپنے آبائی علاقے عباس پور میں گزشتہ دنوں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہی

انہوں نے کہا کہ ”میرے سے ایک دو اخبار والے خفا ہیں۔ میں ان کو یہ بتانا چاہتا ہوں پریس کے توسط سے کہ میرے پاس لفافہ کوئی نہیں ہے، میں لفافے دینے والا آدمی نہیں ہوں۔ اس بنیاد پر مجھے بلیک میل کرو کہ نیازی کو بلیک میل کریں گے، جھوٹی خبریں لگائیں گے تو لفافے گھر آئیں گے۔ میں جوتیاں ماروں گا ایسے لوگوں کو۔“

انہوں نے کہا کہ ”ہم کام کرنے والے لوگ ہیں۔ ہمارے کام لوگوں کو بتاؤ۔ ایسی خبریں مت پھیلاؤ، جو تم اپنی ذات کے لیے کرتے ہو۔ جو اپنی ذات کے لیے کام کرنے والے لوگ تھے، ان کا انجام دیکھ لو۔ اگر اسی طرح کرو گے، تو پھر اپنا انجام بھی دیکھ لینا۔“

عبدالقیوم نیازی کی تقریر کی وائرل ہونے والی وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جب وہ صحافیوں ’جوتیاں مارنے‘ کی بات کرتے ہیں تو اس پر ان کے پارٹی کارکن تالیاں بجاتے ہیں

کشمیر کے صحافتی حلقوں میں عبدالقیوم نیازی کے اس بیان کے بعد بحث ہو رہی ہے. دارالحکومت مظفرآباد میں مقیم سینیئر صحافی طارق نقاش تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری صفوں میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں

انہوں نے کہا کہ صحافیوں میں ایسے لوگ ہوتے ہیں، جو اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ ہر حکومت ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے

تاہم طارق نقاش کا کہنا تھا کہ اگر کسی صحافی نے کوئی ایسی خبر لگائی ہے تو وزیراعظم کو اس کا نام لینا چاہیے تھا۔ جوتیاں مارنے والی بات وزیراعظم کے شایان شان نہیں ہے

انہوں نے کہا کہ صحافت میں شفافیت لانے کے لیے کسی حکومت نے بھی کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا۔ حکومت اس معاملے میں خود سنجیدہ نہیں ہے، اسے ایسے ہی صحافی چاہئیں

سینیئر صحافی نے کہا ”میرا کافی عرصے سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ ایک ایسا ادارہ بنایا جائے، جہاں عدالتی پیچیدگیوں سے بچتے ہوئے غلط خبر دینے والے رپورٹر اور شائع کرنے والے اخبار کو ذمہ دار ٹھہرا کر ان پر جرمانہ عائد کیا جائے۔“

دوسری جانب اسلام آباد راولپنڈی میں کام کرنے والے کشمیری صحافیوں کی تنظیم ”کشمیر جرنلسٹ فورم“ کے صدر زاہد عباسی نے کا کہنا ہے کہ وزیراعظم آزاد کشمیر کی جانب سے صحافیوں کو جوتے مارے جانے کا بیان افسوس ناک اور ان کے منصب کے شایان شان نہیں ہے۔ اس شرانگیز بیان سے پوری صحافتی کمیونٹی میں تشویش پائی جاتی ہے

ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ اگر وزیراعظم کو کوئی صحافی بلیک میل کرتا ہے تو اس حوالے سے قوانین موجود ہیں، وہ انہیں قانون کے کٹہرے میں لاسکتے ہیں۔ لیکن اس طرح کی شر انگیزی کسی طور پر صحافتی کمیونٹی کے لئے قابل قبول نہیں ہے

زاہد عباسی نے کہا کہ وزیراعظم اس طرح بھرے مجمعے میں ہرزہ سرائی سے محض سَستی شہرت حاصل کر سکتے ہیں، لیکن اس عمل سے وہ اپنے منصب کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں

اس حوالے سے سنٹرل پریس کلب مظفرآباد کے صدر اور معروف کالم نگار سجاد میر کا کہنا ہے کہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اس وقت میڈیا ہی ایک ایسا شعبہ ہے، جس پر لوگوں کا اعتماد ہے۔ تاہم سجاد میر بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ ہمارے کچھ لوگ بھی بلنڈر کرتے ہیں

انہوں نے کہا کہ اگر آپ کسی خبر کے لیے درکار تمام عناصر کو ملحوظ رکھیں گے، تو کوئی بھی آپ کو کچھ نہیں کہے گا، لیکن میں وزیراعظم کی جانب سے جوتیاں مارنے والے الفاظ کو مناسب نہیں سمجھتا

سجاد میر نے مزید کہا کہ اگر آپ کو کسی صحافی یا اخبار سے شکایت ہے تو آپ مناسب فورم یعنی عدالت سے رجوع کریں

اس حوالے سے جب وزیراعظم آزاد کشمیر کے پریس سکریٹری حبیب احمد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ ”وزیراعظم کا یہ بیان سیاق و سباق سے بالکل ہٹا کر اور توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔“ وزیراعظم آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کے علم بردار ہیں۔ وہ صحافیوں کے لیے اہم پیکجز لا رہے ہیں

وزیراعظم آزاد کشمیر عبدالقیوم نیازی کے اس جملے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ مقامی سطح پر کچھ لوگ یہ خبریں پھیلا رہے ہیں کہ وزیراعظم عباس پور کے نادرا سنٹر کو یہاں سے منتقل کرنا چاہتے ہیں، وزیراعظم کا اشارہ ان کی جانب تھا

حبیب احمد نے مزید کہا کہ وزیراعظم نے کسی بھی صحافی کا نام نہیں لیا۔ انہوں نے جھوٹی خبریں پھیلانے والوں سے متعلق یہ بات کی ہے، جو لوگ صحافت کی آڑ میں سیاسی ایجنڈے پر کام کرتے ہیں، وہ صحافی نہیں ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close