سمندر کے ساتھ انسانوں کا سمندر (گوادر کو حق دو تحریک کا جائزہ)

قالین بلوچ

مزاحمت اور بلوچستان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔  نواب نوروز خان، سردار اکبر بگٹی، نواب خیر بخش مری، سردار عطاء اللہ مینگل، صبا دشتیاری، ماما قدیر، بانک کریمہ.. یہ کچھ نام ہیں، اور بھی بہت سارے نام ہیں، جن کا تعلق مزاحمتی جنگ اور حقوق بلوچستان سے جڑا ہے

بلوچستان جہاں سیاست کی ڈوریاں ہمیشہ مرکز سے منسلک رہی ہیں اور نام نہاد جمہوری نمائندے 410 ووٹ لے کر راولپنڈی کی آشیرباد سے حکومت میں رہے ہیں، مگر مزاحمتی تحریکیں ہر دور میں مختلف اشکال میں بلوچستان کی سر زمین پر موجود رہی ہیں. اسی بلوچستان کے ایک اہم شہر گوادر کے سمندر کے ساتھ انسانوں کا ایک سمندر جمع ہے!

اس مرتبہ مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کی قیادت میں گذشتہ ایک مہینے سے جاری احتجاجی دھرنے پر سیاسی و سماجی تبدیلی کے ماہرین مختلف مکالمے پیش کر رہے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ معاملات پیچیدہ ہیں اور کچھ لوگوں کے لئے گوادر میں ”نعرۂ تکبیر اللہ اکبر“ کی گونج لمحہ فکریہ ہے۔ قابل احترام زلفی صاحب کہتے ہیں ریاست اور ریاست کے باپوں کی خاموشی ہضم ہونے والی بات نہیں ہے، مگر بیک وقت زلفی صاحب دھرنے کی حمایت میں بھی لکھتے ہیں اور اس بات پر مطمئن نظر آتے ہیں کہ تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے اور بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام کی اتنی بڑی تعداد گھروں سے باہر نکلی ہے۔ یہ قابل ستائش ہے۔

پچھلے سال کے برعکس اس مرتبہ کراچی میں چودھویں عالمی اردو کانفرنس میں بلوچی ادب کے سیشن کا انعقاد بھی ہوا اور پچھتر سالوں میں ڈر کے ماحول میں پنپنے والے سہمے ہوئے بلوچی ادب پر گفتگو ہوئی اور اس گفتگو کو روکنے کے لئے کہیں سے کوئی احکامات جاری نہیں ہوئے۔

پھر اسے میلے کے دوران آزاد میڈیا کے سیشن کے دوران بلوچستان اور گوادر کو حق دو تحریک پر کھل کر بات ہوئی۔ وسعت اللہ خان صاحب نے تحریک کو ایک نئی صبح کا نام دیا اور کہا کہ اس تحریک کے اثرات پورے ملک میں پھیلنے والے ہیں۔

دوسری طرف بلوچستان کے اہم ترین مسئلے مسنگ پرسنز پر کام کرنے والے لوگ اور بات کرنے والے محقق گوادر تحریک پر بحث کرنے کے لئے محتاط ہیں۔

یاد رہے کہ مولانا کے 19 مطالبات میں بلوچ لاپتہ افراد کی واپسی کا ذکر نہیں ہے۔ اگر یہ مطالبہ بھی شامل ہو جائے تو تحریک میں چار چاند لگ سکتے ہیں۔ مگر شامل کیوں نہیں ہے، یہ ایک الگ بحث ہے. لیکن مولانا نے دھرنوں میں اپنے تقاریر کے دوران اس مدے پر پرخلوص بات کی ہے اور ان کے آنسو بھی ٹپکے ہیں، جو اس کی جذبے کی سچائی کا ثبوت ہو سکتے ہیں۔

اس تحریک پر جماعت اسلامی کے غالب ہونے والے پہلو پر اعتراض کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی ریلی میں ہمیں جماعت اسلامی کے جھنڈے نظر نہیں آئے، مولانا شریعت کے نفاذ کی بات نہیں کرتے اور رہی بات نعرہ تکبیر اللہ اکبر نعرے کی، تو یہ نعرہ لوگ فٹبال میچ جیتنے کے بعد بھی عموماً لگا ہی لیتے ہیں۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ یوسف مستی خان صاحب کی پر جوش تقریر نے تحریک میں نئی روح پھونک دی اور شرکاء کی تعداد میں وسعت پیدا کی۔

مولانا سب کو دعوت دے رہے ہیں اور اسٹیج مکتب خطبات کے لئے خالی ہے۔ مولانا کی دعوت آج بھی عام ہے، سب کو آنے اور تقریر کرنے کی اجازت ہے۔ پاکستان پی پی پی کے وفد نے شرکت کی اور ان کا بھی پرتپاک استقبال ہوا۔ قادر پٹیل صاحب کی بلوچی میں تقریر کو لوگوں نے سراہا۔

قابل فکر بات مین اسٹریم بلوچ نیشلسٹ ونگ کی عدم شرکت ہے۔ اگر اسلام آباد اور کراچی سے سیاسی ورکر جا سکتے ہیں تو سردار اختر مینگل، ثناء اللہ بلوچ اور حمل کلمتی کیوں نہیں جا رہے ہیں؟ حالانکہ ہجوم موجود ہے، لوہا بھی گرم ہے اور آئینی جنگ کے جذبے عروج پر ہیں، اگر یہ لوگ چاہیں، تو اس تحریک کو ہائے جیک یا اس پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

اس سارے منظر نامے میں بلوچستان کی نئی نویلی صوبائی حکومت جو کہ جام کمال کو ملنے والی دو طلاقوں کے بعد وجود میں آئی ہے، اس کے کچھ نمائندے مولانا کے ساتھ مذاکرات میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔

پھلجھڑیوں سے بھری اس داستان میں کچھ بھی پیشن گوئی کرنا قبل از وقت ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ مولانا اپنے زورِ بازو تک مزید کتنے دن اس دھرنے کو جاری رکھیں گے اور شرکاء تحریک کے گرم حوصلے دسمبر کی سردی میں ٹھنڈے پڑ جائیں گے یا نہیں۔ اور اس دوران مولانا اپنے مطالبات میں کس حد تک لچک دکھائیں گے۔
بہرحال مولانا کی باتوں میں سو فیصد صداقت ہے اور یہ مطالبات بلوچستان کے حقیقی مطالبات ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close