ایک سفید داڑھی والے بوڑھے شخص نے ہم سے خیرات مانگی ۔ میرے دوست جوزف ڈاورینچ نے اسے پانچ فرانکس دیے ۔ مجھے حیران ہوتے دیکھ کر کہنے لگا
”اس بوڑھے غریب کو دیکھ کر مجھے ایک کہانی یاد آ گئی ، جسے میں کبھی نہیں بھول سکتا.. تمہیں میں وہ کہانی سناتا ہوں..“
“میرے والدین کا تعلق لے ہاروو سے تھا. ہم کوئی خاص خوش حال نہ تھے، بڑی مشکلوں سے گزارا ہوتا تھا بس.. میرا باپ زندہ رہنے کے لیےکام کرتا، دفتر سے بہت دیر سے گھر لَوٹتا، پھر بھی آمدن بہت تھوڑی ہوتی.. میری دو بہنیں تھیں. حالات کی تلخیوں کا سب سے زیادہ اثر امی پر ہوتا.. جس کی وجہ سے وہ اکثر خاوند سے بد کلامی کر جاتیں.. غریب خاوند کا رد عمل ایسا ہوتا کہ اسے دیکھ میرا دل ٹوٹ جاتا.. وہ کھلی ہتھیلی سے ماتھے سے وہ پسینہ پونچھنے کی کوشش کرتا، جو ہوتا ہی نہیں تھا.. لیکن منہ سے ایک لفظ بھی نہ کہتا.. میں اسے بے بسی سے یہ اذیت برداشت کرتے دیکھتا.. ہم کفایت شعاری سے خرچ کرتے، کسی کے گھر کھانے پر بھی نہ جاتے، تاکہ ہمیں کسی کو اپنے گھر کھانے پر نہ بلانا پڑے.. ہم خریداری کے وقت بچی کھچی اشیاء سستے داموں خریدتے۔میری بہنیں اپنے لباس خود سیتیں. سستے ترین جوڑے کی قیمت پر بھی لمبی لمبی بحثیں کرتیں.. ہمارا کھانا عموماً بیف ہر قسم کی چٹنی کے ساتھ اور گوشت کے شوربے پر مشتمل ہوتا.. اسے وہ اچھا کھانا کہتے ، لیکن میری خواہش ہوتی کہ اس میں کم از کم کچھ تبدیلی آتی رہے. جب کبھی کسی کے لباس کوئی بٹن ٹوٹ جاتا یا پاجامہ پھٹ جاتا تو امی خوب باتیں سناتیں..
لیکن ہم ہر اتوار اپنے بہترین لباس پہن کر گودی تک ٹہلنے ضرور جاتے.. میرے والد فراک کوٹ، اونچی ٹوپی اور دستانے پہنتے، میری سجی سنوری والدہ کے بازو میں بازو ڈالتے، میری بہنیں جو پہلے ہی تیار کھڑی ہوتیں اور روانگی کے اشارے کی منتظر ہوتیں، لیکن آخری لمحے میں کوئی نہ کوئی والد کے کوٹ پر موجود دھبہ دیکھ لیتا، اسے اسی وقت بینزین میں ڈوبے کپڑے سے صاف کیا جاتا.. والد قمیض اور ٹوپی پہنے صفائی کے اس عمل کے ختم ہونے کا انتظار کرتے.. میری امی عینک لگاتیں، دستانے اتارتی تاکہ وہ خراب نہ ہو جائیں، جلدی جلدی صفائی کا کام سرانجام دیتیں۔ پھر ہم سب پُرتکلف انداز میں نکل پڑتے.. میری بہنیں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر سب سے آگے ہوتیں.. وہ شادی کی عمر کو پہنچ چکی تھیں، اس لیے انہیں گاؤں کے لوگوں کو دکھانا بھی مقصود ہوتا. میں امی کے بائیں طرف اور والد دائیں طرف چلتے.. مجھے اپنے والدین کا شاہانہ رویہ ابھی تک یاد ہے، جو وہ اتوار کی ان چہل قدمیوں میں اپناتے. چہرے پر سخت تاثرات سجا لیتے، بدن بالکل سیدھے رکھتے، ٹانگیں اکڑی ہوتیں، چال میں متانت ہوتی، شاید کوئی اہم معاملہ ان کی ظاہری چال ڈھال پر منحصر ہو…
ہر اتوار بڑے بڑے جہازوں کو دیکھ کر جو دور دراز اجنبی ممالک سے آتے میرے ابا ایک ہی فقرہ دہراتے ”کتنی حیرانی کی بات ہوگی، اگر جولز اسی جہاز پر ہو..“
ہمارے خاندان کی تباہ حالی کے بعد، میرے باپ کا بھائی، انکل جولز ہماری آخری امید تھا. میں نے بچپن ہی سے ان کے بارے میں سُن رکھا تھا.. ان کے بارے میں سوچ سوچ کر مجھے ایسے لگتا تھا، کہ میں انہیں دیکھتے ہی پہچان لوں گا. میں ان کے امریکا جانے تک کی زندگی کی تمام تفصیلات سے واقف تھا.. اگرچہ وہ تفاصیل سرگوشیوں میں بیان کی جاتی تھیں..
یوں لگتا تھا ، جیسے انہوں نے بری زندگی گزاری یا یوں کہیں کہ انہوں نے رقم برباد کی، جو ایک غریب خاندان میں بدترین جرم تصور کیا جاتا ہے. امیروں میں جو مست زندگی گزارے اسے لوگ لاڈ سے مسکرا کر خوشحال کتا پکارتے ہیں.. جیسی کرنی ویسی بھرنی، لیکن غریبوں میں اس نوجوان کو جو والدین کو بلاوجہ اپنا سرمایہ برباد کرنے پر مجبور کرتا ہے، بدمعاش ، نکما اور لفنگا کہا جاتا ہے. یہ تفریق بالکل درست ہے، اگرچہ انسانی رویہ دونوں حالتوں میں ایک جیسا ہے، لیکن اچھے برے کا تعین نتائج سے کیا جاتا ہے.. الغرض جولز نے وہ وراثتی دولت، جس پر میرے والد انحصار کر رہے تھے اپنے حصے کی آخری دمڑی تک خرچ کر کے بہت کم کر دی تھی.
اس وقت کے رواج کے مطابق انہیں لے ہاروو سے امریکا بھیج دیا گیا.. وہاں پہنچ کر انہوں نے کوئی کاروبار شروع کر دیا اور ہمیں لکھا کہ وہ کچھ پیسے کمانے لگے ہیں اور بہت جلد جو نقصان میرے والد کو پہنچا ہے، اس کا ازالہ کر دیں گے. اس خط سے سارا گھر خوش ہو گیا.. اور انکل جولز، جنہیں کوئی پوچھتا نہ تھا، اچانک ہی معزز ہوگئے.. ایک ایسا شخص جسے معلوم ہے کہ اسے کیا کرنا ہے.. ایک اصلی ڈاورینچ.. قابل اعتماد اور امانت دار!
ایک جہاز کے کپتان نے ہمیں بتایا کہ انکل جولز نے کافی بڑی دوکان کرائے پر لے لی ہے اور ان کا کاروبار اچھا کاروبار چل رہا ہے. دو سال بعد انکل کی طرف سے دوسرا خط موصول ہوا، جس میں لکھا تھا ،”میرے پیارے فلپ! میں یہ بتانے کے لئے یہ خط لکھ رہا ہوں، کہ میری صحت اچھی ہے اور کاروبار بھی بہت اچھا چل رہا ہے. میں کل ایک لمبے عرصے کے لیے جنوبی امریکا جا رہا ہوں. ہو سکتا ہے کئی سالوں تک آپ کو اپنے بارے میں کوئی اطلاع نہ دے سکوں، اگر ایسا ہو تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں. ایک دفعہ میں قسمت آزمائی میں کامیاب ہو جاؤں تو میں لی ہاروو واپس آ جاؤں گا. مجھے امید ہے زیادہ دیر نہیں لگے گی ، اور ہم سب مل کر خوش رہیں گے.“
یہ خط خاندان کے لیے ناقابل تردید سچائی بن گیا. چھوٹے سے چھوٹے اشتعال پر اس کا حوالہ دیا جاتا اور ہر خاص و عام کو دکھایا جاتا..
اگلے دس سال تک انکل جولز کی طرف سے کوئی خبر نہ آئی، لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا، میرے والد کی امیدیں بڑھتی گئیں۔ میری والدہ بھی یہ دہراتی سنائی دیتیں ”جب جولز گھر آئے گا، تو ہمارے حالات مختلف ہوں گے. کوئی تو ہے جسے معلوم ہے کہ زندگی میں کیسے آگے بڑھتے ہیں..“
ہر اتوار کو جب کالے دخانی جہاز ہوا میں دھواں پھیلاتے افق پر نمودار ہوتے، میرے والد اپنا پسندیدہ فقرہ دہراتے ”کتنی حیرانی کی بات ہوگی، اگر جولز اس جہاز پر ہو“
اور ہم سب اسے رومال ہلاتے ”او… ادھر فلپ“ چلاتے ہوئے دیکھنے کی توقع کرنے لگتے..
اس کی یقینی واپسی کی بنیاد پر سینکڑوں ارادے باندھے گئے. انکل کی رقم سے گاؤں میں جگہ خرید کر انگوول کے قریب گھر بنانے کا فیصلہ بھی ہو گیا. میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ میرے والد نے جائیداد کی خریداری کی بات چیت بھی شروع کر دی ہوگی..
میری بڑی بہن اس وقت اٹھائیس سال کی تھی، دوسری چھبیس سال کی.. دونوں کی ابھی تک شادی نہیں ہو سکی تھی، یہ بات سب کی پریشانی کا باعث تھی.. آخر کار چھوٹی کے لئے ایک کلرک کا رشتہ آیا۔وہ کوئی خاص خوشحال نہیں تھا، لیکن مناسب تھا. مجھے پختہ یقین ہے کہ انکل کا خط اسے دکھایا گیا ہوگا، جس سے اس نوجوان کی ہچکچاہٹ ختم ہو گئی اور اس نے ارادہ کرلیا. رشتہ طے ہوا اور فیصلہ ہوا کہ شادی کے بعد سارا خاندان سیر و تفریح کے لئے جرسی جائے گا. جرسی غرباء کے لیے سستی تفریحی جگہ تھی، زیادہ دور بھی نہیں تھی. بس چھوٹا سا بحری سفر اس غیر ملکی جگہ کے لئے ضروری تھا. یہ جزیرہ انگلینڈ کی عملداری میں تھا. کچھ گھنٹے کے سمندری سفر کے بعد ایک فرانسیسی، غیر ملکی لوگوں کو جاننے اور ان کے رسم و رواج دیکھنے کا دعویدار ہو سکتا تھا! جرسی کا یہ سفر ہم سب کی سوچوں، توقعات اور خوابوں کا محور بن گیا.
آخر کار وہ وقت آگیا ، جب ہم اس سفر پر روانہ ہوئے. مجھے وہ سب ایسے یاد ہے، جیسے کل کی بات ہو.. گرین ول گھاٹ پر بھاپ چھوڑتی کشتی… میرے والد گھبرائے ہوئے ہمارے تین بیگ لوڈ ہونے کی نگرانی کرتے ہوئے… میری والدہ میری بن بیاہی بہن کا فکر مندی سے ہاتھ پکڑے، جو اپنی بہن کی روانگی سے اس چوزے کی طرح تنہا محسوس کر رہی تھی، جو باقی چوزوں سے پیچھے رہ گیا ہو… اور دلہا دلہن، جو سب سے آخر میں ہمیشہ کی طرح، جس کے باعث میں بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتا…
سیٹی بجی، ہم سوار ہو چکے تھے. جہاز جیٹی سے سمندر میں پہنچا، جو سبز سنگ مر مر کی میز کی طرح ہموار تھا. جلد ہی ہم نے ساحل دور دھندلاتے ہوئے دیکھا. ان تمام لوگوں کی طرح، جو بہت کم سفر کرتے ہیں، ہم بھی خوشی اور فخر کے جذبات سے مغلوب تھے..
میرے والد کا پیٹ ان کے فراک کورٹ کے نیچے ابھر آیا. کوٹ اسی صبح صاف کیا گیا تھا اور اپنے اطراف بینزین کی بو پھیلا رہا تھا، جس سے مجھے ہمیشہ پتہ چل جاتا کہ آج اتوار ہے.
اچانک والد کو دو عمدہ لباس زیبِ تن کیے خواتین نظر آئیں، جنہیں دو معزز مرد کستوری مچھلی کی ضیافت دے رہے تھے. ایک بوڑھا چیتھڑوں میں ملبوس چاقو سے گھونگھے کھول کر مردوں کو پکڑا رہا تھا جو آگے خواتین کو پکڑاتے جاتے تھے. وہ انہیں بہت نفاست سے کھا رہی تھیں، عمدہ رومال میں گھونگھے پکڑتیں اور سر آگے کر کے کھاتیں تا کہ کپڑوں پر داغ نہ پڑیں، پھر جلدی سے مشروب پیتیں اور پھر گھونگھے سمندر میں پھینک دیتیں۔
والد کو سمندر میں جہاز پر کستوری مچھلی کھانے کا خیال بہت اچھا لگا. انہیں لگا یہ اعلیٰ طبقے کا طریق کار ہے۔فوراً میری والدہ اور بہنوں کے پاس گئے اور انہیں کستوری مچھلی کھلانے کی دعوت دی۔والدہ اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہچکچائی، لیکن میری بہنوں نے فوراً یہ دعوت قبول کر لی۔ میری والدہ کی آواز سے پریشانی عیاں تھی، بولیں ”کہیں میرا معدہ خراب نہ ہو جائے، بس تھوڑی بہت بچوں کو لے دیں۔ لیکن زیادہ نہیں، کہیں بیمار نہ پڑ جائیں“
پھر میری طرف مڑتے ہوئے اضافہ کیا ”جوزف کے لئے رہنے دیں، لڑکوں کو بگاڑنا نہیں چاہیے..“ میں والدہ کے پاس رک تو گیا، لیکن مجھے یہ امتیازی سلوک نا انصافی لگا۔
میں نے والد کو بڑی شان سے اپنی دونوں بیٹیوں اور داماد کے ساتھ اس چیتھڑوں میں ملبوس بوڑھے کی طرف جاتے دیکھا۔ پہلی دونوں خواتین وہاں سے جا چکی تھیں۔ میرے والد نے میری بہنوں کو سمجھایا کہ کس طرح مشروب کپڑوں پر گرائے بغیر مچھلی کھانی ہے۔ انہوں نے بہتر سمجھا کہ ان کو خود کھا کر دکھایا جائے۔ لیکن ان معزز خواتین کی نقل کی کوشش میں مشروب فراک کوٹ پر گرا لیا۔ ساتھ ہی والدہ کی بڑبڑاہٹ سنائی دی، ”اس نمائش سے باز رہتے تو اچھا تھا..“
یکدم میرے والد پریشان دکھائی دینے لگے، وہ چند قدم پیچھے ہٹے. اپنی فیملی، جو گھونگھے کھولنے والے کے گرد جمع تھی، کو گُھورا اور اچانک ہماری طرف آگئے. چہرہ زرد ہو ریا تھا. آنکھوں میں عجیب و غریب تاثرات تھے. بہت آہستہ آواز میں والدہ سے کہنے لگے ”حیران کن حد تک وہ شخص جولز سے ملتا ہے..“
”کون جولز؟“ میری والدہ نے حیرانی سے پوچھا
”کیوں…..؟ میرا بھائی اور کون؟“ والد نے بات جاری رکھی ”اگر مجھے معلوم نہ ہوتا کہ وہ امریکا میں خوشحال رہ رہا ہے تو میں یقیناً اسے جولز ہی سمجھتا“
ششدر ہوتے ہوئے میری والدہ ہکلائی، ”تم پاگل ہو… جانتے ہوئے بھی کہ وہ نہیں ہو سکتا، پھر بھی بیوقوفی کی باتیں کر رہے ہو..“
لیکن میرے والد مصر رہے۔ ”کلیر س! جاؤ اور اسے ایک نظر دیکھو اور خود فیصلہ کرو..“
وہ اٹھی، بیٹیوں کے پاس پہنچی، میں نے بھی اس شخص کو دیکھا. وہ میلا تھا جھریوں بھرا چہرا تھا، اس نے اپنے کام سے نظریں نہ اٹھائیں.
والدہ واپس آ گئیں.. میں نے محسوس کیا کہ وہ کانپ رہی تھیں، ”میرا خیال ہے یہ وہی ہے، جاؤ اور کپتان سے اس کے بارے میں معلوم کرو.. لیکن خیال رکھنا! ہمیں اس بدمعاش کو دوبارہ اپنے درمیان نہیں دیکھنا.“
میرے والد چل پڑے لیکن اس دفعہ میں ان کے پیچھے گیا۔کپتان خوبصورت گل مچھروں والا لمبا دبلا آدمی تھا۔ خود پسندی کے احساس سے بھرا پل پر ٹہل رہا تھا. ایسے جیسے وہ انڈیا جانے والی ڈاک کشتی کا انچارج ہو۔
میرا والد رسمی انداز سے اسے ملا، اس سے اس کے پیشے کے بارے میں پوچھا، ساتھ ہی اس کے جوابات کو سراہتا رہا… ”جرسی کتنا بڑا ہے؟ اس کی پیداوار کیا ہے؟ آبادی کتنی ہے؟ مقامی رواج کیا ہیں؟ وہاں زمیں کی خاصیت کیا ہے ؟” اسی طرح کے مزید سوالات، جس سے سننے والا یہی سمجھتا کہ وہ امریکا کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔ پھر گفتگو کا رخ، جس کشتی ’ایکسپریس’ میں ہم سفر کر رہے تھے، اس کی طرف مڑ گیا۔ اس کے بعد اس کے عملے کی طرف اور پھر آخر میں تھوڑی نروس آواز میں میرے والد نے پوچھا ”یہاں ایک بوڑھا آدمی ہے، جو گھونگھے کھولتا ہے.. کچھ عجیب سا انسان لگتا ہے.. کیا تم اس کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہو؟“
کپتان نے، جو اس گفتگو سے اکتانے لگا تھا، روکھے پن سے جواب دیا ”وہ بوڑھا فرانسیسی آوارہ گرد ہے، مجھے پچھلے سال امریکا میں ملا، میں اسے یہاں لے آیا.. میرا خیال ہے لی ہاروو میں اس کے کچھ رشتہ دار ہیں۔ لیکن وہ ان کے پاس جانا نہیں چاہتا، شاید اس نے ان کی کوئی رقم دینی ہے، اس کا نام جولز ہے.. جولز ڈارمینچ یا ڈاروینچ یا اسی طرح کا کچھ….. لگتا ہے کچھ عرصہ اس نے کافی خوشحال گزارا، لیکن اب تم خود ہی دیکھ لو، اس کی کیا حالت ہے“
میرا والد پیلا پڑ چکا تھا، نڈھال دکھائی دے رہا تھا.. گلو گیر آواز میں بڑبڑایا، ”آہ…. یقیناً…. دیکھ رہا ہوں…. مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوئی….. بہت شکریہ کپتان…“
یہ کہتے ہوئے وہ وہاں سے چل دیا ۔جب کہ حیران و پریشان جہاز راں کی آنکھیں اس کا تعاقب کرتی رہیں
ہاتھ
میرا والد واپس والدہ کے پاس آیا ، وہ اتنا پریشان حال دکھائی دے رہا تھا، کہ والدہ نے دیکھتے ہی کہا ”بیٹھ جاؤ ورنہ لوگ محسوس کریں گے کہ کچھ غلط ہو رہا ہے“ وہ بنچ پر گر سا گیا، بڑبڑایا۔ ”یہ وہی ہے…. یہ وہی ہے..!“ پھر اس نے پوچھا، ”اب ہم کیا کریں گے؟“
والدہ نے تیزی سے جواب دیا ،”سب سے پہلے ہمیں بچوں کو یہاں سے ہٹانا ہے۔“ پھر محسوس کرتے ہوئے کہ جوزف سب کچھ جانتا ہے، بولی ”وہ جا کر انہیں بلا لائے، جو بھی ہو… ہمارے داماد کو بالکل شک نہیں ہونا چاہئے“ میرا والد گھبراہٹ سے بالکل خاموش ہو چکا تھا، بڑبڑایا ۔”کیسی تباہی و بربادی ہے…“
والدہ کے غصے کا پارہ یکدم چڑھ گیا ”مجھے ہمیشہ سے معلوم تھا کہ وہ چور ہے.. ہمارے کسی کام کا نہیں… مجھے معلوم ہے وہ دوبارہ ہمارے سر پڑ جائے گا، ایک ڈاورینچ سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے“ والد نے پیشانی پر اسی طرح ہاتھ پھیرا، جیسے وہ ہمیشہ والدہ کے طعنے سن کر پھیرتے تھے.. ”جوزف کو پیسے دو، تاکہ وہ گھونگھوں کی ادائیگی کرے، اب ایک بھکاری ہماری پہچان بنے گا!! واہ کیا زبردست تاثر بنے گا…!!“
”چلو کشتی کے دوسرے کنارے پر چلیں اور دھیان رہے وہ بوڑھا ہمارے قریب نہ آنے پائے۔“
مجھے پانچ فرانک دے کر وہ وہاں سے چل دئے. میری بہنیں والد کی توقع کر رہی تھیں. ان کی جگہ مجھے دیکھ کر حیران ہوئیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ سمندر کی وجہ سے والدہ کا جی متلا رہا ہے. پھر گھونگھے والے سے پوچھا ”جناب آپ کو کتنی ادائیگی کرنی ہے۔“ مجھے لگا میں انکل کہنے لگا تھا..
”دو فرانک اور پچاس ساؤس..“
میں نے اسے پانچ فرانک دئیے، اس نے مجھے بقایا رقم واپس کردی. میں نے دس ساؤس اسے بخشش دے دی.. اس نے ایسے بوڑھے کی طرح، جسے خیرات دی گئی ہو، مجھے دعا دی ”خدا آپ کا بھلا کرے۔“ میں یہ سوچے بنا نہ رہ سکا کہ وہ بھیک مانگتا رہا ہے
میری بہنوں نے مجھے گھورا۔وہ میری سخاوت پر حیران تھیں۔ جب میں نے والد کو دو فرانک واپس کیے تو والدہ نے حیرانی سے پوچھا ”کیا ان کی قیمت تین فرانک تھی…!؟ ناممکن…!“
میں نے مضبوط لہجے میں جواب دیا ”میں نے دس ساؤس بخشش دے دی“
والدہ پھر شروع ہو گئی، میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی ”پاگل ہو تم! دس ساؤس اس آدمی… اس آوارہ گرد کو دے دیے”
والد نے آنکھوں سے داماد کی موجودگی کا اشارہ کیا، تو والدہ خاموش ہو گئی۔ اس کے بعد ہر شخص خاموش ہو گیا۔
ہمارے سامنے افق پر جامنی سایہ سا سمندر سے ابھرتا نظر آیا.. یہ جرسی تھا۔ جونہی ہم گودی پہنچے، میرے اندر ایک دفعہ پھر انکل جولز کو دیکھنے، اس کے پاس جانے اور اس سے ہمدردی بھرے کلمات کہنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی۔ لیکن چوں کہ اب کوئی بھی کستوری مچھلی نہیں کھا رہا تھا، اس لیے انکل جولز غائب ہو چکا تھا۔
واپسی ہم نے ”سینٹ مالو“ نامی کشتی سے کی، تاکہ دوبارہ انکل جولز سے ملاقات نہ ہو۔ والدہ پریشانی سے ادھ موئی ہوئی جا رہی تھی..
میں نے اس کے بعد دوبارہ کبھی اپنے والد کے بھائی کو نہیں دیکھا… اس وجہ سے تم کبھی کبھار مجھے پانچ فرانک کسی آوارہ گرد کو دیتے ہوئے دیکھ لیتے ہو..