واشنگٹن – یوکرین پر حملہ کرنے کی صورت میں امریکا نے روس کو بالواسطہ طور پر بھرپور جوابی حملے کی دھمکی دی ہے
واضح رہے کہ یوکرین کی سرحد پر روس نے اپنی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے، جہاں اس وقت روس کے لاکھوں فوجی جمع ہیں
واشنگٹن اور یورپی یونین نے ماسکو پر یوکرائن پر حملہ کرنے کی دھمکی دینے کا الزام عائد کیا ہے۔ روسی افواج نے سن 2014 میں کرائمیا پر قبضہ کر لیا تھا اور تبھی سے وہ ملک کے مشرقی علاقے میں علیحدگی پسندوں کی حمایت کرتا رہا ہے
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق جو بائیڈن اور یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ اس وقت ہوا ہے جب امریکہ اور مغربی اتحادی اس بحران کو ختم کرنے کی کوشش کے لیے متعدد سفارتی ملاقاتوں کے لیے تیار ہیں جس کے بارے میں روس کا کہنا ہے کہ اس سے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات ٹوٹ سکتے ہیں
اسی صورتحال کے پیش نظر امریکا کے صدر جو بائیڈن نے اتوار کو یوکرینی ہم نصب کو یقین دلایا ہے کہ اگر روس یوکرین پر چڑھائی کرتا ہے تو امریکا اور اس کے اتحادی ’فیصلہ کن‘ جواب دیں گے
امریکی صدر جو بائیڈن نے دو دسمبر اتوار کے روز اپنے یوکرینی ہم منصب وولودومیر زیلنسکی سے فون پر پھر بات چیت کی اور اس گفتگو کے دوران انہوں نے روسی جارحیت کے خلاف یوکرین کی آزادی کے لیے اپنی انتظامیہ کی حمایت کا اعادہ کیا
وائٹ ہاؤس کے پریس سکریٹری جین ساکی نے اس فون کال کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا، ”صدر جو بائیڈن نے واضح کر دیا ہے کہ اگر روس نے یوکرین کے خلاف مزید حملے کیے تو امریکا اور اس کے اتحادی اور شراکت دار اس کا فیصلہ کن جواب دیں گے۔“
قبل ازیں امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ بھی فون پر بات کی تھی۔ انہوں نے اس فون کال کے دوران روس کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ماسکو یوکرائین پر فوجی حملہ کرتا ہے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ امریکا اور روس کے حکام اسی سلسلے میں آئندہ نو اور دس جنوری کو جنیوا میں مذاکرات کے لیے ملاقات کرنے والے ہیں
صدر جو بائیڈن نے یوکرین کے صدر وولودومیر زیلنسکی کے ساتھ فون پر بات چیت کے دوران انہیں روس کے خلاف اپنے مکمل ساتھ کا یقین دلایا، یوکرین کے صدر نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں صدر جو بائیڈن کے ساتھ فون کال کا حوالہ دیتے ہوئے ”یوکرین کے لیے ان کی غیر متزلزل حمایت“ کی تعریف کی
دوسری جانب ماسکو کا موقف ہے کہ اس نے نیٹو کے تجاوزات کے خلاف بطور تحفظ یوکرین کی سرحد پر اپنے فوجیوں کو تعینات کیا ہے۔ صدر پوٹین نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ یوکرین کو نیٹو کی رکنیت نہ فراہم کی جائے
کریملن نے مطالبہ کیا ہے کہ نیٹو کی مزید توسیع میں یوکرین اور دیگر سابق سوویت ممالک کو شامل نہ کیا جائے اور فوجی اتحاد خطے میں موجود ممالک سے جارحانہ ہتھیار ہٹائے
وائٹ ہاؤس نے نیٹو کے متعلق روس کے مطالبات کو ناممکنات قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ نیٹو اتحاد کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ رکنیت ایسے کسی بھی ملک کے لیے کھلی ہے جو شرائط پر پورا اترتا ہو اور کسی بھی بیرونی ملک کے پاس رکنیت کو ویٹو کرنے کا اختیار نہیں ہے
اگرچہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ یوکرین کو جلد ہی اس اتحاد میں مدعو کیا جائے گا لیکن امریکہ اور اس کے اتحادی اسے مسترد نہیں کریں گے
جب کہ نیٹو ذرائع کا کہنا ہے کہ فی الوقت یوکرین مغربی اتحاد نیٹو میں شامل ہونے کے لیے کسی عمل سے نہیں گزر رہا ہے اور نہ ہی اسے اس میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے
روس کے یوکرین کی حدود میں آگے بڑھنے کی صورت میں امریکی صدر جو بائیڈن نے ماسکو پر اس کی معیشت کو جھنجھوڑ دینے والی پابندیاں لگانے کی بات کی ہے، لیکن انہوں نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ امریکی فوجی کارروائی زیر غور نہیں ہے
جبکہ روس صدر ولادی میر پوتن کو کشیدگی کم کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے امریکی کوششوں میں بہت کم پیش رفت ہوئی ہے
اعلیٰ امریکی اور روسی حکام 9 سے 10 جنوری کو جنیوا میں ملاقات کریں گے، جس کے دوران صورت حال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ ان مذاکرات کے بعد نیٹو-روس کونسل اور یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم میں ملاقاتیں ہوں گی
امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو ولادی میرپوتن کے ساتھ تقریباً ایک گھنٹہ گفتگو کی تھی۔ امریکی صدر نے اگلے روز صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے اپنے ہم منصب کو خبردار کیا کہ روس، جس نے سرحد کے قریب تقریباً ایک لاکھ فوجی جمع کیے ہیں، نے اگر یوکرین کے خلاف مزید اقدامات کیے تو ان کی معیشت کو ’بھاری قیمت‘ ادا کرنی پڑے گی
بائیڈن نے جمعے کو کہا کہ میں یہاں عوام کے سامنے بات چیت نہیں کروں گا لیکن ہم نے واضح کیا کہ وہ یوکرین پر آگے نہیں بڑھ سکتے
بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے پوتن کو بتایا کہ ماسکو کے لیے ضروری ہے کہ وہ بحران کو کم کرنے کے لیے ہونے والی ان ملاقاتوں سے پہلے اقدامات کرے
روسی صدر کے خارجہ امور کے مشیر نے گذشتہ ہفتے دونوں صدور کی گفتگو کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ جوبائیڈن کی جانب سے پابندیوں کے نفاذ سے ’ممالک کے درمیان تعلقات مکمل طور پر ٹوٹ سکتے ہیں اور روس اور مغرب کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچے گا۔‘
امریکی انٹیلیجنس کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ روس نے 2022 کے اوائل میں ممکنہ حملے کی تیاریاں کی ہیں، لیکن وائٹ ہاؤس کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ولادی میر پوتن نے پہلے سے فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا تھا
اس کے باوجود بائیڈن نے کہا کہ وہ آئندہ مذاکرات کے لیے پرامید ہیں۔ وائٹ ہاؤس حکام کا کہنا ہے کہ وہ مغربی اتحادیوں سے قریبی مشاورت کریں گے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انہوں نے جمعے کو کہا کہ ’میں ہمیشہ توقع کرتا ہوں کہ اگر آپ بات چیت کریں گے تو آپ آگے بڑھیں گے لیکن ہم دیکھیں گے۔‘
2014 میں روسی فوجیوں نے بحیرہ اسود کے جزیرہ نما کریمیا میں دخل اندازی کی اور یوکرین کے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ روس کا کریمیا پر قبضہ بین الاقوامی سطح پر صدر باراک اوباما کے لیے تاریک لمحات میں سے ایک تھا۔
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیوبش کے دور حکومت کے آخر میں 2008 میں امریکہ اور روس کے تعلقات کو اس وقت شدید نقصان پہنچا تھا جب ماسکو نے پڑوسی ملک جارجیا پر حملہ کیا تھا۔
ہاؤس انٹیلیجنس کمیٹی کے چیئرمین ڈی کیلیف کے نمائندہ ایڈم شیف نے اتوار کو کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ پوتن یوکرین پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ’روس کو ایسی پابندیوں کے علاوہ کوئی نہیں روک سکتا جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھی ہوں۔‘
ایڈم شیف نے سی بی ایس پر ’فیس دی نیشن‘ کو بتایا کہ روس کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اس معاملے میں متحد ہیں۔ ’میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ سوچ بھی ایک مضبوط رکاوٹ ہے کہ اگر وہ حملہ کرتے ہیں تو یہ (نیٹو) کو روس سے دور دھکیلنے کی بجائے اس کے مزید قریب لے آئے گا۔‘