کراچی کی مختصر ترین تاریخ

سید علی عمران

محققین کی رائے کے مطابق کراچی آخری برفانی دور کے خاتمے پر سمندر کے کنارے سے نمودار ہونا شروع ہوا. ویسے تو کراچی کے آثار سکندر اعظم سے بھی پہلے کے ملتے ہیں اور ملیر وادی کی تاریخ قدامت کے اعتبار سے قدیم پتھروں کے وسطی دور سے شروع ہوتی ہے، تاہم 326 قبل مسیح میں جب سکندر اعظم کا جرنل نیرکس برصغیر پر فوج کشی کے بعد کراچی کے قریب جزائر میں قیام پذیر ہوا تھا، اس وقت کراچی کا نام ’کروکالا‘ تھا، جس کا مقامی زبان میں مطلب واگھو (دیوتا) کے ہیں. جرنل نیرکس نے اپنے قیام کے دوران اس کا نام تبدیل کر کے اپنے بادشاہ کے نام پر ’سکندری جنت‘ رکھ دیا. اس کے بعد بھی کراچی کے بے شمار نام تبدیل ہوتے رہے.

پہلی صدی سے ساتویں صدی تک کراچی کی بندرگاہ پر بدھ مذہب کے پیروکاروں کا اثر و رسوخ ملتا ہے، جو بیرون ملک پنج شیل کا پیغام لے کر جاتے تھے. ساتویں صدی میں جب برہمنوں نے سندھ پر غلبہ حاصل کیا تو کراچی کی بندرگاہ کو تباہ کر دیا اور کراچی کے قریب دیبل اور بھمبھور کی بندرگاہوں کو فروغ دیا. 712ع میں جب محمد بن قاسم نے دیبل کی بندرگاہ پر حملہ کیا تو اپنا ساز و سامان کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے اتارا اور کراچی کی بندرگاہ کو ’دربو‘ کا نام دیا. یوں کراچی کا ایک نیا نام رکھ دیا گیا.

سندھ میں عرب دور تقریباً 300 سال پر محیط رہا. اس دوران بنو امیہ کے دس گورنر رہے، جب کہ بنو عباس کے 31 گورنر مقرر ہوئے۔ اس پورے عرصے میں کراچی کا کوئی خاص ذکر نہیں ملتا سوائے عباسی دور میں عبداللہ شاہ غازی کی شہادت کے، جن کا مزار آج بھی کراچی میں کلفٹن کے مقام پر مرجع خلائق ہے.

1027ع میں محمود غزنوی نے ہندوستان فتح کرنے کے بعد سندھ پر بھی حملہ کیا اور اسے فتح کر کے عربوں کو نکال باہر کیا، یوں 1194ع تک محمود غزنوی کے خاندان کی حکومت چلتی رہی.
1194ع میں سندھ دوبارہ ہندوستان کی سلطنت کے زیرِ اثر آگیا اور شہاب الدین غوری کے بعد خاندان غلامان کے زیر اثر چلتا رہا اس پورے دور میں کراچی کے مزید نام تبدیل ہوتے رہے.

1398ع میں سومرو قوم سندھ کے حکمراں بنے تو کراچی بھی ان کے زیرِ تسلط آ گیا. محققین کی ایک رائے کے مطابق سومرو عربی النسل قوم ہے جن کے مورث اعلی صحابی رسول سمرہ بن جندب ہیں. جبکہ کچھ محققین کی نظر میں یہ حضرت علی کے فرزند حضرت محمد ابن حنفیہ کی اولاد سے ہیں. جبکہ دیگر محققین کی نظر میں سومرو فرزندان زمین ہیں اور صوبے کے پہلے باشندے سندھ کی اولاد ہیں۔

1470ع میں سمہ جام قبیلے نے سومرو حکمرانی پر سومرو قبیلے کا قبضہ ختم کر کے سندھ کی حکمرانی حاصل کی اور 1521ع تک حکمران رہے. کچھ محققین کی نظر میں سمہ قبیلہ سندھ کا مقامی (سماٹ) قبیلہ ہے، جبکہ کچھ محققین کی نظر میں سمہ جام بھی ایران سے آئے ہوئے حکمران تھے.

1521ع کے شروع میں ارغون خاندان کی حکومت شروع ہوئی. ارغون چنگیز خان کی نسل سے تھے، جو خراسان سے ہوتے ہوئے سندھ کے شہر ٹھٹہ پر حملہ آور ہوئے اور پھر سندھ فتح کرنے کے بعد ٹھٹہ کو ہی دارالخلافہ بنایا.

1554ع میں ترخان سندھ کی حکومت پر قابض ہو گئے. امیر تیمور نے اس قبیلے کو اس کی بہادری پر ترخان کا لقب دیا تھا. ترخان دور میں کراچی کا نام ’کراشی‘ ہو گیا تھا. اس دور میں کراچی کی بندرگاہ ایک محفوظ بندرگاہ تصور کی جاتی تھی۔

اکبر اعظم نے 1590ع میں سندھ پر مکمل تصرف حاصل کر لیا، جو محمد شاہ رنگیلا کے دور تک جاری رہا. مغلوں کے دور میں کراچی کی بندرگاہ کو مکمل نظر انداز کیا گیا اور یہاں کوئی ترقی نہیں ہوئی. اس دور میں کراچی کو ’مون ہارا‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا

1699ع میں مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے سندھ کی حکومت کلہوڑوں کو دی، یوں کلہوڑوں نے مغل حکومت کے گورنر کے طور پر سندھ کا نظامِ حکومت سنبھالا اور 1738ع تک گورنر کے طور پر کام کیا مگر جب محمد شاہ رنگیلا کے دور میں مغل حکومت کا شیرازہ بکھرنے لگا تو کلہوڑوں نے سندھ کو مغلوں کی ماتحتی سے نکال لیا اور یوں سندھ نادر شاہ درانی کا باج گزار بن گیا. کلہوڑا خاندان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے تھے، اسی نسبت سے یہ عباسی کہلاتے تھے مگر اپنے جدِ امجد کے لقب کی مناسبت سے کلہوڑا کہلانے لگے.

1697ع میں اورنگزیب عالمگیر نے خون بہا کے طور پر کراچی کو خان آف قلات کے حوالے کر دیا تھا اور یہ 1757ع تک بلوچستان کا حصہ رہا.

کھارک بندر کی قدیم بندرگاہ پر جہازوں کے لنگر انداز ہونے کے مسائل کی وجہ سے جہاز کراچی آنے لگے اور تجارت کا رخ بھی کراچی کی طرف مڑ گیا، جس کی وجہ سے لوگوں کا رخ کراچی کی طرف ہونے لگا. کلہوڑوں نے اپنی رعایا کی حفاظت کے لیے 1757ع میں کراچی پر قبضہ کر لیا اور اپنی حکومت قائم کر لی. کلہوڑوں کے دور میں کراچی کو ’کلاچو جو گوٹھ‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا. کلہوڑوں کے دور میں کراچی میں کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی اور اس وقت کراچی کی آبادی کوئی آٹھ ہزار نفوس کے لگ بھگ تھی.

1774ع میں اتفاقیہ طور پر کلہوڑا خاندان کے ایک فرد نے خان آف قلات کے بھائی کو قتل کر دیا، جس کی وجہ سے کلہوڑوں نے کراچی کو خون بہا کے طور پر ایک بار پھر والیِ قلات کو دے دیا. یوں کراچی 17 سال بعد پھر خان آف قلات کے عملداری میں چلا گیا. خان آف قلات نے کراچی پر کوئی خاص توجہ نہ دی اور حاکم تک مقرر نہیں کیا. بس جہازوں سے محصولات وصول کرنے کے لئے ایک کسٹم کا ٹھیکیدار مقرر کر دیا تھا.

موجودہ کراچی کی بنیاد 1729ع میں ایک ہندو تاجر بھوجومل نے رکھی، جو پہلے کھارک بندر کے علاقے میں رہتے تھے مگر کراچی کی بندرگاہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے کراچی آکر آباد ہو گئے. اس زمانے میں کراچی کو قلاچی جو گوٹھ کہا جاتا تھا اس کے مکین کیماڑی منوڑا اور سمندر کے ساحلی علاقوں کی حد تک محدود تھے اور ونگورا، بندری اور کراچو کہلاتے تھے. جبکہ باتھ آئی لینڈ، کلفٹن، گزری، محموداباد، منظورکالونی، اعظم بستی اور کورنگی کے بعض علاقے جزائر کی صورت میں سمندر کا حصہ تھے جو آہستہ آہستہ سمندر کے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے خشک میدانوں میں تبدیل ہوتے گئے اور کراچی شہر کا حصہ بنتے گئے.

سیٹھ بھوجومل نے اپنے قیام کے ساتھ ہی ڈاکوؤں سے بچنے کے لیے شہر کے گرد دیوار بنوائی اور اس کے دو دروازے رکھے ایک سمندر کی طرف کھلنے والا دروازہ ’کھارو در‘ جو بعد میں کھارادر کے نام سے مشہور ہوا اور میٹھے پانی یعنی لیاری ندی کی طرف کھلنے والے دروازے کو ’مٹھو دروازو‘ کا نام دیا گیا، جو بعد میں میٹھادر کے نام سے مشہور ہوا. سیٹھ بھوجومل نے ہی کراچی کو آباد کر کے باقاعدہ شہر کی بنیاد رکھی اور تاجروں کو اس شہر کی طرف راغب کیا.

1783ع میں کلہوڑوں کو تالپوروں نے شکست دی اور سندھ پر قبضہ کر لیا. 1792ع میں تالپوروں نے کراچی پر قبضے کی نیت سے دو حملہ کیے مگر کامیاب نہ ہو سکے. تیسری دفعہ پھر تالپور کراچی فتح کرنے پہنچے اور بڑے بڑے ہندو تاجروں کو خطوط بھی لکھے، جن میں صلح کرنے کے بدلے مختلف مراعات دینے کا وعدہ کیا. پہلے کراچی والے خان آف قلات کے پاس پہنچے اور لشکر بھیجنے کی درخواست کی مگر خان آف قلات نے اہل کراچی کی درخواست یہ کہہ کر رد کر دی کہ وہ فی الحال تالپوروں سے جنگ نہیں کرنا چاہتے. اس طرح اہل کراچی مجبور ہو گئے کہ تالپوروں سے کچھ شرائط پر صلح کر لیں. ان شرائط میں سے اہم یہ دو شرائط تھیں کوئی سپاہی شہر کے اندر داخل نہیں ہوگا دوسری یہ کہ جو حاکم مقرر ہوگا, وہ اہل شہر کے مشورے سے انتظام چلائے گا. یعں 1795ء سے 1839ء تک کراچی تالپوروں کے قبضے میں رہا.

اس زمانے میں کراچی کو کئی ناموں سے پکارا جاتا تھا جن میں "قلاچو” ، ’قلاچی جو کُن‘ اور ’خورعلی‘ تھے. اس زمانے میں کراچی کی آبادی آٹھ ہزار سے 14 ہزار ہوگئی. اس آبادی میں زیادہ تر ماہی گیر اور ملاحوں کی تعداد تھی جو کہ شہر کے باہر رہتی تھی۔ شہر میں اکثریت ہندو تاجروں کی تھی جو بہت دولت مند تھے. تالپور دراصل بلوچوں کی ایک شاخ ہے، جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی اولاد ہونے کا دعوی کرتے ہیں.

1839ع میں انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کرتے ہی اس شہر کی بندرگاہ کی اہمیت کو محسوس کر لیا تھا اور اسے تجارتی اور فوجی نقطہ نظر سے بہت اہمیت دینے لگے. یہی وجہ ہے کہ سندھ پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے فوری طور پر ہی سندھ کا دارالحکومت حیدرآباد سے کراچی منتقل کردیا. پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں اس بندرگاہ نے کلیدی کردار ادا کیا جب کہ انگریزوں کے دور میں تجارتی لحاظ سے بھی اس کا اہم کردار رہا. اس کی ترقی کی صورتحال کا اندازہ لگاتے ہوئے پورے برصغیر سے بابصیرت تاجروں نے کراچی کا رخ کرنا شروع کر دیا.
کراچی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1847ء میں جنرل چارلس نیپیئر جنہوں نے سندھ فتح کیا تھا اپنی الوداعی پارٹی میں کہا کہ ”عنقریب کراچی تُو مشرق کی ملکہ ہوگی، جب تُو اس بلند مرتبے پر پہنچے تو میری تمنا ہے کہ میں تجھے ایک بار دیکھ سکوں“

1860ع تک کراچی کا کوئی مخصوص نام نہیں تھا اس کو مختلف نام دیئے جاتے تھے مختلف ادارے خط و کتابت کرتے وقت اسے مختلف نام دیتے تھے کچھ اسے "کریچی” کچھ "کرانچی” اور کچھ "کراچے ٹاؤن” لکھا کرتے. جبکہ ریلوے والے کوراچی لکھتے. 1860ء میں جب کراچی چیمبر آف کامرس کا قیام ہوا تو پہلی مرتبہ "کراچی” کا نام استعمال کیا گیا کیونکہ تمام تجارتی اور صنعتی ادارے اس کے ممبر تھے اس لیے بہت تیزی سے خط و کتابت میں یہی نام رائج ہوگیا. انگریز حکومت نے بھی بلاجھجک اس ہی نام کو منظور کر لیا اور سرکاری گزٹ میں اس نام کی وضاحت کر دی اور یوں سب کراچی لکھنے کے پابند ہو گئے.

حوالاجات:
1. ملکہ مشرق (محمودہ رضویہ)
2. کراچی تاریخ کے آئینے میں (محمد عثمان دموہی)
3. اس دشت میں ایک شہر تھا (اقبال اے رحمان مانڈویا)
4. لب تاریخ سندھ (خان بہادر خداداد خان)
5. پاکستان کے سیاسی وڈیرے (عقیل عباس جعفری)
6. سندھ، غیر سندھی باشندے اور حکمران (اشفاق احمد)
7. شہر بے مثال کراچی (رئیس فاطمہ)
8. کراچی گزیٹر 1919 (جے ڈبلیو اسمتھ)
9. مجلہ گورنمنٹ سٹی کالج 1987 (پاکستان نمبر حصہ دوئم)
10. کراچی اور اس کی بندرگاہ (سید ادیب حسین)
11. وادی لیاری (حمید ناضر)
12. وادی ملیر (حمید ناضر)
13. شہروں میں شہر کراچی (نسرین اسلم شاہ)
14. وکیپیڈیا

نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close