ایک دور تھا، جب فلسفۂ عملیت، عمل کی اہمیت کو لے کر اس حد تک اندھا یا تنگ نظر ہو گیا، کہ الفاظ کی اہمیت سے یکسر اور قطعی انکار کر کے محض تجربیت کی مالا جھپنے لگا، حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ عملیت کا فلسفہ خود اپنی تشریح کے لیے ہمیشہ الفاظ کا محتاج رہا!
کشکول ہاتھ میں تھامے رئیس ہونے کا پوز دینے کی، یہ ایک بہت دلچسپ مثال تھی، لیکن کوئی دور بھی ایسی دلچسپیوں سے خالی نہیں گزرا.
آج کل عقل اور عقلیت پسندی کا بڑا شور و غل برپا ہے… خدا، روح، حِسّی تجربات سے ماورا یا مافوق الحسّیات حقائق سے انکار، آج کے دور کا مقبول ٹرینڈ ہے. اس ٹرینڈ کا ”آیا کمپنی کی مشہوری کے لیے“ والا انداز اس قدر بھونڈا اور مضحکہ خیز ہے کہ ”شیطان آپ کو روکے گا، سبحان اللہ پڑھ کر شیئر کریں“ قبیل کے ذہنی مفلسوں اور مسخروں کی طرح اس ٹرینڈ والوں کی اپنے تئیں بلیغ موشگافیوں پر بھی اب اپنی ہنسی روک پانا ناقابلِ شکست ضبط کا متقاضی ہے…
لہٰذا عقلیت پسندی کے اس فیشن شو میں، لباس کے نام پر اپنے ننگے جسم پر بے عقلی کی دھجیاں باندھے، عقلی دلائل کا کیٹ واک سستی شہرت کا سستا سا نسخہ بن گیا ہے!
کتاب ”ایک مہینے میں ڈاکٹر بنیے“ قیمت صرف ڈیڑھ سو روپے…………. جی ہاں! جس طرح مبلغ ڈیڑھ سو کی کتاب پڑھ کر ڈاکٹر بنا جا سکتا ہے، اب اسی قدر آسان ہے عقلیت پسندی کے فیشن شو میں بھونڈے عقلی دلائل کا کیٹ واک کر کے فیشن ایبل روشن خیال دانشور بننا…..!
ہے نا سستا اور آسان سا نسخہ!؟
ناطقہ سر بَگَریباں ہے کہ اسے کیا کہیے……
یہاں عقل کی بے عقلی کا تماشا سا تماشا ہے…. جس عقل نے آج کے انسان کو انگلی پکڑ کر…. یا خدا جانے انگلی کر کے…. حسّی تجربات سے ماورا غیر مادی حقائق سے انکار کی راہ دکھائی، کیا ستم ہے کہ سائنس کی ڈائریکٹری میں خود اس عقل کے مادی وجود کا کہیں کوئی نام پتہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا….!
جی ہاں جنابِ من! آج کی ادھ پڑھی کھوپڑیوں کے ڈبوں میں، کالے رنگ کا تھیلا بغل میں دابے حسّی تجربات کی روشن خیال مارکہ مجرّب چُورن بیچنے والا باوا عقل، خود حسّی تجربات کی اپنی یہ چورن استعمال کرنے کے قابل بھی نہیں…
بات بہت سادہ سی ہے اور بہت سیدھی سی ہے.. مادہ کے اس نئے مذہب کی ساری عمارت عقل کی ریت سے بنے عقلی دلائل کے ستونوں پر کھڑی ہے اور مادہ مرشد کی مریدنی عقل بے چاری خود کوئی مادی وجود نہیں رکھتی…
میں صدقے واری عقل کی اس بے عقلی پر!
خدا جھوٹ نہ بلوائے، ہم بھی باغِ دہریت کی سیاحی کر چکے ہیں، وہاں ہوا خوری کرتے کرتے ہماری کھوپڑی میں بھی اُن دنوں کافی ہوا بھر گئی تھی.. سو اب مکافاتِ عمل بگھت رہے ہیں… اب ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے… لیجیے سنیے… تجربے کی بات بتاتا ہوں.. کوئی دن جاتا ہے کہ راہ چلتے کوئی ہمارا بازو پکڑ کر کھڑا کہہ رہا ہے کہ میں خدا کو نہیں مانتا…
بھائی میرے! نہیں مانتا تو نا مان…. میرا بازو چھوڑ، میں نے اپنے کام سے جانا ہے…
یہی رنگ اب سوشل میڈیا پر بھی نظر آتا ہے، جہاں مذہبِ دہریت کے جنونی پیروکاروں کا وہی روایتی مذہبی اندازِ تبلیغ دیکھ کر اب یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ جس دھریت نے مذاہب کا انکار کیا تھا، وہ خود اب ایک نیا مذہب بن بیٹھی ہے… جس دہریت نے خدا کے وجود سے انکار کیا تھا، اس نے خود ھٹ دھرمی اور انا کا نیا بُت تخلیق کر لیا ہے… افیون کا طعنہ دیتے دیتے، انہیں بھی اس نئے ماڈرن مذہب کے افیون کی ایسی لت لگی ہے کہ منہ سے جھاگ اڑانے کی بیماری نے ان کے منہ کا راستہ بھی دیکھ لیا… ایتھے رکھ ملنگی!
رانجھا رانجھا کردے میں آپے رانجھا ہوئی..
مذہبِ دھریت کی مخصوص سوچ ہی اب خود اس کے جنونی پیروؤں کے لیے عقیدے کی صورت اختیار کر چکی ہے.. دوسرے تمام مذاہب کی طرح سب پر رد کی لکیر کھینچ کر اپنے عقیدے کو درست ثابت کرنا اگر انتہا پسندی تھی، تو اس انتہاپسندی کی دوڑ میں مذہبِ دہریت سین بولٹ کی طرح سب سے آگے آگے ہے…
اس حمام میں ان نئے افیمیوں کو اھلاً و سھلاً، باروک ھابا، ویلکم، سواگتم!
Very impressive message,nice write up
Thank you, dear sir.