پاکستان میں ان دنوں کسانوں کو یوریا کھاد حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے. گندم کی سیزن کی وجہ سے کسان یوریا بحران کے باعث فکرمند ہیں لیکن حالیہ بارشوں کے بعد کسانوں کے پاس ایک سے دو ہفتے کا مزید وقت ہے جس میں وہ گندم کی فصل کو یوریا کھاد دے سکتے ہیں
کسانوں کا، کہنا ہے کہ اگر انہیں اس وقت ضرورت کے مطابق سستی یوریا کھاد میسر ہو جاتی تو رواں برس پاکستان گندم میں خود کفیل ہو سکتا تھا،، لیکن بدقسمتی سے حکومت کی نااہلی کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا۔ اب گندم کی فصل پر خود کفالت کے حوالے سے سوالیہ نشان موجود ہے
ملک میں کسانوں کو یوریا کی کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے مخلتف مقامات پر کسان احتجاج بھی کر رہے ہیں اور جہاں حکومتی نرخوں پر یوریا دستیاب ہے اسے حاصل کرنے کے لیے کسانوں کو دن بھر لائنوں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے
لیکن پاکستان میں یوریا بنانے والی صنعت کا کہنا ہے کہ انہوں نے تو یوریا ملکی ضرورت کے عین مطابق تیار کی تھی، یعنی پاکستان میں اس وقت چھ عشاریہ سات ملین ٹن یوریا بنانے کی صلاحیت موجود ہے، جبکہ ملک میں اس کی مانگ چھ ملین ٹن سے کچھ زیادہ بتائی گئی تھی
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان میں صنعت ضرورت کے مطابق کھاد پیدا کر رہی ہے تو ملک میں یوریا کی سپلائی کم اور قیمت زیادہ کیسے ہو گئی؟
بحران کی یہ صورتحال شدت اختیار کر رہی ہے کیونکہ کسان کو گندم کے بعد گنے اور مکئی کی فصلوں کے لیے یوریا کی ضرورت ہوگی اور اس میں زیادہ وقت باقی نہیں رہا۔ کسانوں کو ڈر ہے کہ ربیع کے بعد خریف کی فصلیں بھی یوریا کے بحران سے متاثر ہو سکتی ہیں
یوریا کی سپلائی کے بحران کے بارے میں سندھ آبادگار بورڈ کے نائب صدر محمود نواز شاہ کا کہنا ہے کہ یوریا کے حالیہ بحران کے اثرات گندم کی فصل پر بھی ہوں گے، لیکن کس حد تک ہوں گے یہ دیکھنے والی بات ہے
وہ کہتے ہیں ’لیکن ہمیں زیادہ ڈر یہ ہے کہ جن وجوہات کے بعد یہ بحران پیدا ہوا اگر ان کا سدباب نہیں کیا گیا تو یہ ایک رجحان بن جائے گا اور آنے والے برسوں میں بھی ہماری تمام بڑی فصلوں کو خطرہ ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان کو خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘
محمود نواز شاه کے مطابق سسٹم میں سے ایک بڑی مقدار میں کھاد نکل کر اگر ذخیرہ کی گئی ہے، تو یہ ذخیرہ اندوزوں کے لیے ایک بہت بڑے منافع کا سبب بنے گی
انھیں ڈر یہ ہے کہ یہ غیر قانونی منافع خوری ایک سسٹم کی شکل اختیار کر سکتی تھی جس کی وجہ سے آنے والے برسوں میں بھی کسانوں کو اس کا نقصان ہوگا
پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد کھوکھر کا کہنا ہے کہ صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقوں میں حالات زیادہ خراب تھے، جہاں یوریا کسانوں کو نہیں مل رہی
ان کے خیال میں حالیہ بحران کی تین بڑی وجوہات ہیں جن سے حکومت کو قبل از وقت خبردار کیا گیا تھا تاہم ان پر بروقت دھیان نہیں دیا گیا
ایک تو ملک میں کارخانوں کو گزشتہ چند ماہ کے دوران گیس کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ کھاد کی پیداوار میں دو لاکھ ٹن کے فقدان کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسرا عالمی منڈی میں یوریا کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئیں جس کی وجہ سے یوریا اسمگل ہوئی
جبکہ یوریا کی کمی کی سب سے بڑی وجہ ذخیرہ اندوزی ہے، جس کو روکنا حکومت کی ذمہ داری تھی۔ ان کے تخمینے کے مطابق اس کی وجہ سے ملک میں چار لاکھ ٹن یوریا کی کمی کا سامنا ہے
کھوکھر کے مطابق ’اب جو تھوڑی بہت یوریا کسانوں کو مل رہی ہے یہ وہی ہے جو روزانہ کی بنیاد پر بن رہی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر استعمال ہو رہی ہے۔‘
دوسری جانب صوبہ بلوچستان میں بالائی علاقے کے کسانوں کو خاص طور پر مشکلات کا سامنا ہے، جہاں صوبے میں زیادہ گندم کاشت ہوتی ہے۔ ملک کی مجموعی پیداوار میں اس کا حصہ شاید اتنا زیادہ نہیں ہوتا، لیکن بلوچستان اس لیے اہم مقام ہے کہ اس کے راستے گندم ملک سے باہر اسمگل ہوتی ہے
حال ہی میں صوبائی حکومت نے بلوچستان میں ایران اور افغانستان کے ساتھ واقع سرحدی علاقوں کے دس کلومیٹر کے اندر کھاد کی ترسیل پر پابندی عائد کر دی ہے
اس کے ساتھ بلوچستان کی صوبائی حکومت نے دیگر تین صوبوں کی جانب سے بلوچستان کے داخلی راستوں پر چیک پوسٹیں قائم کرنے کی تجویز دی ہے، تاکہ وہاں سے داخل ہونے والی مال بردار گاڑیوں کی چیکنگ کی جا سکے۔ یہ اقدامات کھاد کی مبینہ اسمگلنگ کو روکنے کے لیے کیے گئے ہیں
بلوچستان زمیندار ایکشن کمیٹی کے سیکرٹری جنرل حاجی عبدالرحمان بازی کا کہنا ہےکہ زیادہ تر اسمگلنگ افغانستان کی طرف ہوتی ہے اور اس کو روکنے کی سنجیدہ حکومتی کوششیں سامنے نہیں آئیں
انہوں نے کہا کہ ’اس مرتبہ بارشیں اچھی ہونے کی وجہ سے ہمیں امید تھی کہ گندم کی فصل بہت اچھی ہوگی مگر اس بحران کی وجہ سے ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آ رہا۔‘
سندھ آبادگار بورڈ کے نائب صدر محمود نواز شاہ کے مطابق ملک میں ضرورت سے زیادہ یوریا بنائی گئی، لیکن اس کی سپلائی میں حالیہ کمی کی وجہ صوبائی اور وفاقی دونوں سطح پر حکومتی نگرانی کا فقدان ہے
ان کا کہنا تھا کہ کھاد تیار کرنے والی کپمنیوں نے تو کھاد ڈیلرز کو فراہم کر دی، جنہوں نے اسے آگے کسان تک پہنچانا تھا، لیکن اگر وہ کسان تک نہیں پہنچی تو اس کا مطلب ہے وہ ڈیلرز کی سطح پر غائب ہوئی اور ڈیلرز کو کنٹرول کرنا صنعت کی ذمہ داری نہیں تھی
انہوں نے کہا ’یہ بھی ایک بہانہ ہی ہے کہ یوریا افغانستان اسمگل ہو گئی۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنی بڑی مقدار میں کھاد اسمگل ہو اور حکومت کو اس کا پتہ نہ چلے اور وہ اسے روک نہ سکے۔‘
محمود نواز شاہ کے مطابق یہ حکومت کا کام تھا کہ وہ اس بات کی نگرانی کرے کہ اگر صنعت کی طرف سے کھاد ڈیلر کو پہنچائی گئی تو وہاں سے وہ کدھر گئی
صوبہ پنجاب کے محکمہ زراعت کے ایکسٹینشن کے شعبے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیر محمد شیراوت نے بتایا کہ ڈیلرز کی سطح پر جو کھاد غائب ہوتی ہے اس میں کھاد بنانے والی کمپنیوں کا بھی عمل دخل ہوتا ہے
وہ کہتے ہیں ’ہم نے ایک صورتحال ایسی بھی دیکھی جس میں کمپنی کی طرف سے مقرر کردہ ڈیلر سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔‘
شیراوت کے مطابق یوریا کی سپلائی میں کمی کی ایک بڑی وجہ ذخیرہ اندوزی ہے۔ محکمے نے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا، تاہم اس کے باوجود تمام ذخیرہ اندوزوں تک پہنچنا مشکل کام ہوتا ہے
ڈاکٹر شیر محمد شیراوت کے مطابق بحران کی وجہ حکومت کا بڑے پیمانے پر ایکشن بھی تھا۔ جب بحران کا آغاز ہوا تو حکومت نے ڈیلرز اور افراد کے خلاف مقدمات درج کرنے شروع کیے، جو مہنگے داموں یوریا فروخت کر رہے تھے اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ یوریا منظر سے بالکل غائب ہو گئی۔ ڈیلرز اور ٹریڈرز نے اسے چھپا لیا
ادہر حکومت کا مسئلہ یہ تھا کہ یوریا کے بحران کو حل کرنے کے لیے وہ کھاد بڑی مقدار میں باہر سے درآمد بھی نہیں کر سکتی تھی، کیونکہ عالمی منڈی میں اس کی قیمت پاکستان میں ملنے والی یوریا کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھی
ڈاکٹر شیر محمد شیراوت کے مطابق باہر سے ملنے والے یوریا کے بیگ کی قیمت دس ہزار پاکستانی روپے سے زیادہ تھی
وفاقی حکومت نے حال ہی میں چین سے سستے داموں پر یوریا منگوانے کی کوشش کی ہے تاہم ڈاکڑ شیر محمد کے مطابق حکومت ایک حد تک ہی سبسڈی دے سکتی ہے
اگر وہ بہت زیادہ قیمت پر یوریا درآمد کرے گی تو سبسڈی دینے کے بعد وہ بھی کسان کو اس قیمت سے بہت زیادہ قیمت پر دستیاب ہوگی، جس میں وہ مقامی طور پر تیار ہونے والی یوریا خریدتا ہے
ڈاکٹر شیر محمد سمجھتے ہیں کہ ان کا محکمہ کسانوں کو یوریا کے علاوہ دیگر متبادل کھادوں کے استعمال کے حوالے سے بھی آگاہی دیتا رہتا ہے، لیکن اس میں مشکل یہ ہوتی ہے کہ روایتی کسان جو کھاد ایک مرتبہ استعمال کر لیتا ہے وہ باآسانی اس کو چھوڑتا نہیں
ان کے خیال میں یوریا کی حالیہ کمی کی وجہ سے بھی گندم کی فصل کو زیادہ نقصان نہیں ہوگا، کیونکہ زیادہ تر کسانوں نے یوریا مہنگے داموں پر خرید کر ایک مرتبہ گندم کو دے دی تھی۔ اس کے علاوہ بارشیں بھی وقتی اور کافی ہو چکی تھیں
اس کے برعکس سندھ آبادگار بورڈ کے نائب صدر محمود نواز شاہ سمجھتے ہیں کہ اس بحران سے نہ صرف گندم کی فصل میں پاکستان کو کئی ملین ٹن کی گندم کی کمی کا سامنا ہوگا، بلکہ خریف کی فصلوں میں بھی نقصان کا خدشہ ہے
وہ کہتے ہیں ’اس طرح پاکستان میں خوراک کی کمی کا بحران بھی پیدا ہو سکتا تھا جس کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو زیادہ خوراک درآمد کرنا پڑے گی۔‘
اس کے ساتھ ہی پاکستان میں اگر خریف کی فصلوں کو بھی ایسے ہی بحران کا سامنا کرنا پڑا تو ماہرین کے مطابق پاکستان کی زرعی اجناس کی برآمدات میں بھی کمی آئے گی اور حکومت کو زیادہ زرِمبادلہ خوراک کی کمی کو پورا کرنے پر خرچ کرنا پڑے گا.