شکاگو – دنیا کے نامور سائنس دانوں اور سکیورٹی ماہرین کی جانب سے تیار کیا گیا ’ڈومز ڈے کلاک‘ یا ’قیامت کی گھڑی‘ کا وقت سو سیکنڈوں پر برقرار رکھا گیا ہے، جس کی وجہ کورونا ویکسین کی غیر متوازن تقسیم اور غلط معلومات کا پھیلاؤ ہے
‘بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس‘ کی صدر ریچل برونسن نے ‘ڈومز ڈے کلاک‘ کے وقت کا دوبارہ جائزہ لے کر اسے نصف شب سے ایک سو سیکنڈ پہلے پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بتایا کہ آج کے وقت کی دنیا دو سال پہلے کی نسبت زیادہ محفوظ نہیں ہے، اس لیے ‘قیامت کی گھڑی‘ کا وقت آج بھی وہی ہے، جو دو برس پہلے تھا
اس گھڑی کی پچھترویں سالگرہ کے موقع پر میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اگر انسانیت کو اپنے وجود کو لاحق خطروں سے بچنا ہے تو قومی رہنماؤں کو غلط معلومات کے خلاف بہتر اقدامات کرنا ہوں
گروپ کے بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ گھڑی کا وقت نصف شب کے قریب نہ آنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسانیت کو لاحق خطرات اسی سطح پر برقرار ہیں، بلکہ اس کے برعکس ”گھڑی انسانی تہذیب کے خاتمے کے قریب تر ہے، کیوں کہ دنیا اب بھی انتہائی خطرناک حالت پر کھڑی ہے۔‘‘
ادارے کے مطابق 2021 میں کئی مثبت تبدیلیاں بھی دیکھی گئیں۔ روس اور امریکا کے مابین ہتھیاروں کی روک تھام کا معاہدہ طے پایا، لیکن دوسری جانب بین الاقوامی سطح پر کشیدگیوں میں بھی اضافہ ہوا۔ یوکرائن کے معاملے پر حالیہ کشیدگی بھی ان میں سے ایک ہے۔ علاوہ ازیں روس، امریکا اور چین ہائپر سونک میزائلوں کی تیاری بھی کرتے رہے جس سے دنیا کو خطرہ لاحق ہے
اسی طرح رواں برس کی ماحولیاتی کانفرنس میں طے کیے گئے فیصلوں کو بھی دنیا کے لیے خوش آئند قرار دیا گیا، تاہم مثبت بیانیے کے باوجود عملی سطح پر کم اقدامات نے ممکنہ مثبت اثرات کو زائل کر دیا
واضح رہے کہ یہ گھڑی سن 1947ع میں پہلی مرتبہ تیار کی گئی تھی۔ ڈومز ڈے کلاک کو انسانوں کو خبردار کرنے کے لیے بنایا گیا تھا تاکہ عوام کو آگاہ کیا جا سکے کہ انسانوں کی بنائی ہوئی ٹیکنالوجیز کی وجہ ہی سے ہم نے اپنی دنیا کو کیسے تباہی کے قریب لا کھڑا کیا ہے
سن 1945ع میں البرٹ آئن اسٹائن اور جے روبرٹ اوپنہائمر سمیت جوہری ہتھیار کی تیاری میں شامل ”مین ہیٹن پروجیکٹ“ پر کام کرنے والے دیگر سائنس دانوں نے ”دی بلیٹن“ کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کے دو برس بعد اس گھڑی کو بطور علامت تخلیق کیا گیا تھا
یہ وہ وقت تھا، جب دوسری عالمی جنگ کے بعد اور سرد جنگ کی صورت حال میں امریکا اور سوویت یونین کے مابین جوہری ہتھیاروں کی دوڑ جاری تھی
دو سال بعد، 1947 میں، آرٹسٹ اور بلیٹن ممبر مارٹل لینگسڈورف نے یہ اشارہ دینے کے لیے مشہور ڈومس ڈے کلاک بنایا کہ انسانیت خود کو تباہ کرنے کے کتنی قریب ہے۔ آج، ڈومس ڈے کلاک کیلر سنٹر میں بلیٹن دفاتر میں واقع ہے، جو یونیورسٹی آف شکاگو ہیرس اسکول آف پبلک پالیسی کا گھر ہے
”قیامت کی گھڑی“ اسی تناظر میں علامتی طور پر دنیا کو بتاتی ہے کہ انسانیت کی بقا کو کتنا خطرہ لاحق ہے اور اب اس کے پاس کتنا وقت باقی ہے؟
بعدازاں سن 2007ع سے اس گھڑی کا وقت تبدیل کرتے وقت ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والے خطرات کو بھی شمار کیا جانے لگا
ابتدا میں بلیٹن کے ایڈیٹر اور ہتھیاروں کے خاتمے کی تحریک کے رہنما یوجین روبینووچ گھڑی کا وقت تبدیل کرتے تھے، تاہم 1973ع میں ان کی وفات کے بعد بلیٹن کے بورڈ نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ تب سے یہ بورڈ سال میں دو مرتبہ بیٹھتا ہے اور جوہری ہتھیاروں، سکیورٹی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق ماہرین کی رائے کو سامنے رکھتے ہوئے وقت تبدیل کرتا ہے
اس گھڑی میں منٹوں والی سوئی رات بارہ بجے کے جتنے قریب ہوگی، اتنا ہی انسانیت کی بقا کو زیادہ خطرہ لاحق ہو گا
اس علامتی گھڑی کا وقت نصف شب سے زیادہ سے زیادہ سترہ منٹ دور سن 1991ع میں کیا گیا تھا۔ تب سرد جنگ کا خاتمہ اور سوویت یونین اور امریکا کے مابین ہتھیاروں کی کمی کے لیے کیے گئے معاہدے کے سبب یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ دنیا کو لاحق خطروں میں کمی واقع ہوئی ہے.