حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج اتحادی جماعتیں یا ناراض اراکین؟

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – پاکستان میں سیاسی صورت حال ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن، یر دو طرف کے سیاسی رہنماؤں کی جانب سے تند و تیز بیانات کا سلسلہ جاری ہے، جس سے سیاسی ماحول کا پارہ چڑھتا جا رہا ہے

ایک طرف حکومت کے اتحادی اپوزیشن سے رابطوں میں ہیں تو دوسری طرف خود حکومت کی اپنی صفوں سے ایسی آوازیں بلند ہو چکی ہیں، جنہیں ان سُنا نہیں کیا سکتا

اس صورت حال میں یہ سوال جنم لے رہا ہے کہ کیا وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو سب سے بڑا خطرہ ان جماعتوں سے ہے، جن کی بدولت ان کی یہ حکومت قائم ہے۔ اتحادیوں میں سر فہرست ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق، جی ڈی اے اور بے اے پی کی جماعتیں ہی

اس خدشہ کی بنیاد یہ ہے کہ حکومت جن اتحادیوں کے سہارے کھڑی ہے، انہوں نے ابھی تک اس سیاسی بحران میں کھل کر حکومت کی حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے

اس کے برعکس وہ نہ صرف اپوزیشن کے ساتھ مکمل رابطوں میں ہیں، بلکہ وہ وزیراعظم کو بھی جلد از جلد کوئی فیصلہ کرنے کا کہہ رہی ہیں، جو اتحادیوں کو اس ’اتحاد‘ میں مزید رہنے کے قابل بنائے

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار فہد حسین سمجھتے ہیں کہ ’اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اپوزیشن اس وقت حکومت کی اتحادی جماعتوں سے گہرے رابطوں میں ہے بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ جو کچھ کیمروں کے سامنے نظر آرہا ہے، اس سے کہیں زیادہ کام کیمروں کے پیچھے ہو رہا ہے‘

انہوں نے کہا کہ جتنی آفرز اپوزیشن کے پاس ہیں، یہ حیران کن بات ہوگی کہ حکومتی اتحادی کھل کر حکومت کا ساتھ دے سکیں۔ حکومت بھی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہےلیکن وہ مطمئن دکھائی نہیں دے رہے۔‘

فہد حسین کہتے ہیں کہ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ کس حکومتی اتحادی سیاسی جماعت نے ابھی غیر مشروط طور پر وزیراعظم عمران خان کی حمایت کا اعلان کیا ہے؟

’آپ کو ایک بھی سیاسی جماعت نظر نہیں آئے گی۔ مجھے یہی لگ رہا ہے کہ حکومت کا بڑا چیلنج اپنے اتحادیوں کو ساتھ رکھنا ہی ہے۔‘

ایک طرف تو حکمراں جماعت تحریک انصاف اپنے اتحادیوں کو ساتھ ملا کر آنے والی تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتی ہے، جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کو پارٹی کے اندر سے شدید دھڑے بندیوں کا سامنا ہے

اس وقت دو متحرک رہنما جہانگیر ترین اورعلیم خان جو کسی دور میں پارٹی کا اثاثہ سمجھے جاتے تھے، اپنی ہی پارٹی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنتے دکھائی دے رہے ہیں

دونوں رہنما اس وقت لندن میں ہیں جبکہ ان سے رابطے میں رہنے والے اراکین اسمبلی ان کے اشارے کے منتظر ہیں۔
ویسے تو یہ دھڑے پارٹی کے اندر موجود ہی تھے لیکن اب عدم اعتماد کی تحریک جمع ہونے کے بعد ان کو نظرانداز کرنا خود تحریک انصاف کے لیے ممکن نہیں

خود وزیراعظم بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ’ترین اور علیم کبھی بھی اپوزیشن کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے‘ لیکن دلچسپ بات یہ کہ جب وزیراعظم لاہور میں یہ بات کر رہے تھے، عین اسی وقت لندن میں علیم خان نواز شریف سے ملاقات کر رہے تھے

ان دونوں دھڑوں سے پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے وزیر اعظم خود لاہور آئے اور اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں کی اور وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی ذمہ داری لگائی کہ وہ ’ڈیمج کنٹرول‘ کریں

سینئیر تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ’علیم خان اور ترین گروپ کو آسانی سے رام نہیں کیا جا سکتا۔ وزیراعظم کی لاہور آمد کے وقت ان دھڑوں کے جو لوگ اجلاسوں میں شریک ہوئے، وہ سب پنجاب اسمبلی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابھی تک پنجاب میں وزیر اعلی بوزدار کے خلاف کوئی سیاسی ہلچل نہیں‘

انہوں نے کہا کہ ’ترین گروپ تو کہہ چکا ہے کہ وزیراعظم سے بات ہی بزدار کے ہٹائے جانے کے بعد ہو گی۔ تو وہ کلیئر ہیں البتہ علیم گروپ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے وہ ان کی واپسی کے بعد پتہ چلے گا۔ البتہ میں سمجھتا ہوں کہ اتحادیوں سے زیادہ حکومت کو اپنے ہی اراکین سے زیادہ خطرہ ہے‘

خیال رہے کہ علیم خان گروپ کے دس کے قریب اراکین اسمبلی نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی، جبکہ ترین گروپ کے تین ارکین اسمبلی سے جمعے کے روز ملاقات ہوئی، جس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ حکومت ہر ممکن طور پر ان دھڑوں کو عدم اعتماد سے پہلے ختم کرنے کی خواہاں ہے

تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق جہانگری ترین اور علیم خان کے اپنے واضح اور حتمی بیانات تک سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا

یہی وہ صورت حال ہے، جس کی بنا پر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گھر کو آگ، گھر کے چراغ سے ہی لگے گی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close