ایک ایسی دنیا میں جہاں ہم میں سے اکثر لوگ ہر وقت اپنے اسمارٹ فون سے بندھے رہتے ہیں، وہیں ایک ایسی خاتون بھی ہیں، جنہوں نے اپنے اسمارٹ فون سے بندھی نادیدہ زنجیروں کو توڑ کر خود کو آزاد کرا لیا ہے
چھتیس سالہ ڈلسی کاؤلنگ نے گذشتہ برس کے آخری دنوں میں اپنی ذہنی صحت بہتر بنانے کے لئے خود کو اسمارٹ فون کی قید سے رہائی دلوانے کا فیصلہ کیا
چنانچہ ڈلسی نے کرسمس کے دن اپنے گھر والوں اور دوستوں کو بتا دیا کہ وہ واپس اپنے پرانے ’نوکیا‘ فون پر جا رہی ہیں، یعنی وہ فون جس سے آپ صرف کال اور ٹیکسٹ میسج بھیج یا وصول کر سکتے ہیں
ڈلسی، اسمارٹ فون سے جان چھڑانے کے فیصلے کے بارے میں بتاتی ہیں ”ایک دن میں اپنے دونوں (تین اور پانچ سالہ) بیٹوں کے ساتھ ایک پارک میں بیٹھی اپنے فون پر کچھ دیکھ رہی تھیں۔ میں پارک میں بچوں کے کھیل کود والے حصے میں بیٹھی تھی۔ فون استعمال کرنے کے دوران میں نے اوپر نظر اٹھا کے دیکھا تو وہاں تقریباً بیس مائیں یا بچوں کے والد موجود تھے اور سب کے سب اپنے اپنے فون میں مصروف تھے۔ ہر کوئی بس یوں ہی اپنے اسمارٹ فون کی اسکرین پر مسلسل اسکرول کر رہا تھا۔“
وہ کہتی ہیں ”یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے سوچا یہ کب سے ہونا شروع ہو گیا؟ ہر کوئی حقیقی زندگی سے دور ہو رہا ہے۔ میں نے سوچا کہ جب آپ بستر مرگ پر ہوں گے، تو یہ نہیں سوچ رہے ہوں گے کہ کاش میں ٹوئٹر پر مزید وقت گزار لیتا یا انٹرنیٹ پر کوئی اور مضمون پڑھ لیتا۔“
ڈلسی کاؤلنگ لندن کی ایک اشتہاری کمپنی کے تخلیقی شعبے کی سربراہ ہیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران اُن کے ذہن میں یہ خیال تقویت پکڑتا رہا کہ اسمارٹ فون سے جان چھڑانا بہت ضروری ہے
ڈلسی کا کہنا ہے ”میں نے سوچا کہ میں اپنے دن کا بیشتر حصہ اسمارٹ فون پر ہی گزار رہی ہوں اور یہ کہ اس کے بجائے میں اور کیا کر سکتی ہوں؟ اسمارٹ فون پر دستیاب بہت سی سہولیات سے ہر وقت جڑے رہنے سے آپ کی توجہ بٹی رہتی ہے، مگر اس کام میں خاصی ذہنی توانائی صرف ہو جاتی ہے.“
اسمارٹ فون کو ترک کرنے کے بعد اب ڈلسی کا منصوبہ یہ ہے کہ وہ زیادہ مطالعہ کریں گی اور پوری نیند سوئیں گی
دوسری جانب اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں ہر دس میں سے نو افراد کے پاس اسمارٹ فون موجود ہے، اور زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں اسمارٹ فون استعمال کرنے والوں کا تناسب بھی لگ بھگ یہی ہے۔ ایک حالیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہم روزانہ اوسطاً 8.4 گھنٹے فون پر گزارتے ہیں
لیکن لوگ اب اپنی زندگی کے خوبصورت لمحات کو اسمارٹ فون کے بلیک ہول میں جھونکنے سے بچانے کے لیے سوچنے لگے ہیں، کیونکہ اس لت کی وجہ سے وہ کئی جسمانی، ذہنی، نفسیاتی اور معاشرتی مسائل اور الجھنوں کا شکار ہو رہے ہیں. اس لیے اب ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جو یہ سوچنے لگے ہیں کہ بس، اب بہت ہو چکا…
انہی میں سے ایک تعلیمی امور اور ٹیکنالوجی کے ماہر، ایلکس ڈنیڈن بھی ہیں، جن کو بھی اپنا اسمارٹ فون پھینکے ہوئے دو برس ہو چکے ہیں
وہ کہتے ہیں ”اسمارٹ فون کا رواج اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ ہمیں اس کی لت پڑ گئی ہے۔ اسمارٹ فون ’ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو کمزور کر رہے ہیں اور ہمارے کام کاج کی صلاحیت کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔“
”آپ سمارٹ فون پر اتنی زیادہ چیزیں کر سکتے ہیں کہ آپ کو بعد میں خیال آتا ہے کہ فون تو کال کرنے کے لیے ہوتا ہے“
تاہم اسکاٹ لینڈ کے رہائشی، ایلکس ڈنیڈن کہتے ہیں کہ ان کے اسمارٹ فون ترک کرنے کی وجہ یہ تھی کہ قدرتی ماحول پر اس کے بُرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں
ان کا کہنا ہے ”ہم اسمارٹ فون ٹیکنالوجی پر بے تحاشا توانائی خرچ کر رہے ہیں اور اس سے بے شمار کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہو رہی ہے۔“
جب ایلیکس سے پوچھا گیا کہ کیا اسمارٹ فون ترک کر دینے کے بعد وہ زیادہ خوش ہیں اور زیادہ کام کر رہے ہیں؟ تو اُن کا کہنا تھا کہ اب ان کے پاس پرانے زمانے کا موبائل فون بھی نہیں ہے اور انہوں نے گھر پر بھی فون نہیں لگوایا ہے۔ اس کے بجائے اب وہ دوسرے لوگوں سے رابطے کے لیے اپنے گھر پر رکھے ہوئے کمپیوٹر پر صرف ای میل استعمال کرتے ہیں
ایلیکس کہتے ہیں ”اس سے میری زندگی بہتر ہو گئی ہے۔ اب میرا دماغ ہر وقت کسی مشین سے نہیں بندھا رہتا اور مجھے اس مشین پر نہ توانائی خرچ کرنا پڑتی ہے اور نہ کوئی پیسہ۔ میرا خیال ہے کہ ٹیکنالوجی کا نقصان یہ ہے کہ اس کے استعمال سے ہماری زندگیاں خالی ہوتی جا رہی ہیں۔“
لیکن شعبۂ تدریس سے منسلک برمنگھم سے تعلق رکھنے والی تریپن سالہ لِن وائس نے چھ ماہ کے وقفے کے بعد اب دوبارہ اسمارٹ فون استعمال کرنا شروع کر دیا ہے
وہ کہتی ہیں کہ دوبارہ اسمارٹ فون خریدنے کا فیصلہ کرتے ہوئے انہیں ہچکچاہٹ ہو رہی تھی، لیکن انہوں نے اس کا استعمال اس لیے شروع کر دیا کیونکہ اب ریستورانوں وغیرہ میں آپ کو فون پر محکمۂ صحت کی جانب سے بھیجا گیا پیغام دکھانا پڑتا ہے کہ آپ کو کووِڈ نہیں
اس کے علاوہ اسمارٹ فون کے ذریعے اُن کے لیے پیرس میں مقیم اپنی بیٹی سے رابطہ رکھنے میں بھی آسانی ہوتی ہے
لیکن لِن وائس کہتی ہیں کہ اگر ممکن ہوا تو وہ اسمارٹ فون کو دوبارہ ترک کر دیں گی۔ ’جب یہ وبا ختم ہو جائے گی اور میری سب سے بڑی بیٹی ایلا واپس آ جائے گی، تو ہو سکتا کہ میں اسمارٹ فون استعمال کرنا پھر چھوڑ دوں۔ لگتا ہے کہ اسمارٹ فون نشے کی لت جیسا ہے، ہے ناں؟‘
سنہ 2016 میں جب لِن وائس نے اسمارٹ فون استعمال کرنا چھوڑا تھا تو اس کا مقصد اپنی بیٹیوں کو ترغیب دینا تھا کہ وہ بھی ہر وقت اپنے موبائل فونز سے نہ چمٹی رہا کریں
’وہ بتاتی ہیں ”میری بیٹیاں ہر وقت اپنے اسمارٹ فونز سے چمٹی رہتی تھیں۔ میں نے سوچا کہ ان کی یہ عادت چھڑانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ میں اپنے فون سے جان چھڑا لوں۔ اس سے بہت فرق پڑا تھا۔ مثلاً جب بھی ہم ریستوران جاتے تھے تو میری بیٹیاں دیکھتی تھیں کہ میں نے اپنا فون نہیں اٹھایا ہوا۔“
لِن وائس کے بقول اسمارٹ فون پاس نہ ہونے سے مجھے لگتا تھا جیسے میرے دماغ سے دباؤ اتر گیا ہو۔ مجھے لگتا تھا کہ اب فوراً کسی کے پیغام کا جواب نہیں دینا اور گھر سے باہر ہوتے ہوئے بھی لوگوں کو دستیاب نہیں ہونا
اگرچہ کچھ لوگوں کو فکر ہے کہ وہ اپنے اسمارٹ فون پر بہت زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں، لیکن کروڑوں لوگ اسمارٹ فون کو ایک نعمت سمجھتے ہیں
برطانیہ کی موبائل کمپنی ’ووڈا فون‘ کے ترجمان کے مطابق لاکھوں لوگوں کی زندگی اب اسمارٹ فون کی ڈور سے بندھی ہوئی ہے، کیونکہ ماضی کی نسبت اب صحت کی سہولیات، تعلیم، حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی دیگر سہولیات، آپ کے دوست اور خاندان والے سب اسمارٹ فونز کے ذریعے آپ سے جُڑے ہوئے ہیں
ان کا کہنا ہے کہ ”اس کے علاوہ ہم لوگوں کے لیے ایسے ذرائع پیدا کر رہے ہیں، جن کے ذریعے وہ ٹیکنالوجی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور ہم یہ کوشش بھی کر رہے ہیں کہ جب لوگ انٹرنیٹ پر آئیں تو وہ محفوظ رہیں۔ یہ چیز بہت زیادہ اہم ہے۔“
دوسری جانب ماہر نفسیات اور موبائل فون کی عادت کے مضر اثرات پر ایک کتاب (فون ایڈکشن ورک بُک) کی مصنفہ، ہلڈا برک کا کہنا ہے کہ موبائل فون کے بے دریغ استعمال اور آپ کے نجی تعلقات، آپ کی نیند، فون بند کر کے سکون حاصل کرنے اور کسی چیز پر توجہ مرکوز رکھنے جیسی چیزوں کے درمیان بہت گہرا تعلق پایا جاتا ہے
ان کے مطابق ”بہت سے لوگوں کو اپنے فون پر مسلسل پیغامات وصول کرنے اور ان کے جواب دینے کی عادت پڑ جاتی ہے، اور انہیں لگتا ہے کہ ہر پیغام کو دیکھنا اور جواب دینا ضروری ہوتا ہے، حالانکہ ان میں سے بہت سے پیغامات فوری نوعیت کے نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کے لیے حدود کا تعین کرنا مشکل ہو جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر رات سونے سے پہلے اور صبح جاگتے ہی ای میل دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔“
اگر آپ کو لگتا ہے کہ اسمارٹ فون سے جان چھڑانا بہت مشکل ہے، لیکن آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ فون پر بہت زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں، تو آپ کچھ ایسی چیزیں کر سکتے ہیں، جن سے اسمارٹ فون کا استعمال کم ہو جائے
ہو سکتا ہے کہ شروع میں آپ کو لگے کہ آپ نے ایک نئی مصیبت پال لی ہے، لیکن اب ایسی کئی ایپس آ گئی ہیں جن کی بدولت آپ بغیر سوچے سمجھے فون پر ”ایویں ہی“ اسکرول کرنے کی عادت کو کم کر سکتے ہیں
مثلاً ’فریڈم‘ نامی ایپلیکیشن سے آپ عارضی طور پر اپنے اسمارٹ فون کی ایپس اور ویب سائٹس کو روک سکتے ہیں اور اپنی توجہ کسی دوسری چیز پر لگا سکتے ہیں۔ اسی طرح ’آف دا گرِڈ‘ نامی ایپ سے آپ مخصوص وقت کے لیے اپنے فون کو آف کیے بغیر بند بھی کر سکتے ہیں
ہلڈا برک کہتی ہیں کہ اگر زیادہ سے زیادہ لوگ یہ دیکھنا شروع کر دیں کہ وہ موبائل فون پر کتنا وقت گزار رہے ہیں، تو یہ ترکیب بھی خاصی مفید ہو سکتی ہے۔ اگر ہمیں یہ احساس ہو جائے کہ ہم ہر روز کتنا وقت بلاوجہ فون پر انگلیاں گھماتے ضائع کر دیتے ہیں، تو یہی احساس ہمیں جگانے کے لیے کافی ہوگا اور ہمیں اپنی روش بدلنے میں مدد مل سکتی ہے
اس کے علاوہ وہ یہ مشورہ بھی دیتی ہیں کہ آپ شروع شروع میں کچھ وقت کے لیے اپنا فون بند کریں یا اسے گھر چھوڑ جائیں، اور پھر آہستہ آہستہ اس وقفے میں اضافہ کرتے جائیں
اور آخر میں مِس برک کہتی ہیں کہ اسمارٹ فون پر وقت ضائع کرنے سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے فون کی اسکرین پر کوئی ایسا لفظ لکھیں یا تصویر لگائیں جو یہ ظاہر کرے کہ اگر آپ فون پر نہ ہوتے تو کیا کر رہے ہوتے
وہ کہتی ہیں ”ہم میں سے اکثر لوگ روزانہ کم از کم پچپن مرتبہ، اور کچھ لوگ ایک سو مرتبہ اپنا فون دیکھتے ہیں، تو ایسے میں یہ لفظ یا تصویر ہمیں یہ یاد دلانے کا بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے کہ ہمیں اپنا قیمتی وقت اس چیز پر صرف کرنا چاہیے، جو ہمارے لیے زیادہ قیمتی ہے۔“