اس چمت کاری حکومت میں لاکھ خامیاں سہی، اقتصادی محاذ پر کتنی بھی پھوہڑ سہی، پر ایک بات تو ماننا ہی پڑے گی کہ وہ جب چاہتی ہے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے کوئی بھی قانون منظور کروانے کا ہنر جانتی ہے۔ عددی اکثریت کو اقلیت میں اور اقلیت کو اکثریت میں کیسے چند گھنٹے کے لیے بدلا جا سکتا ہے، سیکھنا ہے تو کوئی یک صفحی عمرانی حکومت سے سیکھے۔
میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد ( میر )
لوگ ہوڈینی کو یاد کرتے ہیں جو پانی سے بھرے ٹینک میں پابہ زنجیر بندھے ہونے کے باوجود چند منٹ میں باہر نکل کر دونوں ہاتھ فاتحانہ اٹھا کر داد و تحسین وصول کرتا تھا۔
ڈیوڈ کاپر فیلڈ، امریکہ کا مجسمہِ آزادی، اورینٹ ایکسپریس کی بوگی، رن وے پہ کھڑا طیارہ غائب کرنے والا ارب پتی امریکی جادوگر ہے۔ مگر سو رکنی پاکستانی سینیٹ میں اپوزیشن کے 57 ارکان کو بوقتِ ضرورت 42 دکھا دینا اس کی فنی اوقات سے بھی باہر ہے۔
ہر جادوگر اور نظربندی کے ماہر کے کچھ خفیہ حربے ہوتے ہیں جنھیں وہ سینے میں ہی رکھتا ہے۔ پاکستانی پارلیمنٹ کے جادوگروں کا خفیہ حربہ اپوزیشن بنچ ہے، کون سی نشست پر بیٹھا کون اصول پسند نظریاتی کس وقت بچہ جمورا بن جائے، یہی تو اصل جادو ہے۔
پچھلی پارلیمانوں کو نچانے والوں کے ہاتھ میں وہ صفائی نہیں تھی لہذا پیسے اور لالچ کا جادو بولتا تھا۔ چھانگا مانگا اور آپریشن مڈ نائٹ جیکال جیسی حرکتیں کرنا پڑتی تھیں۔
اب تو ’الم غلم ڈرمن پوتا کیتو مینی تابڑ توڑ‘ بڑبڑانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی اور معزز بندہ نشست پر بیٹھے بیٹھے اڑن چھو ہو جاتا ہے۔
جو بظاہر غائب نہ بھی ہو تو اسے ہپناٹائز کر کے دماغ سلا دیا جاتا ہے اور پھر اسے پتہ بھی نہیں چلتا کہ اپنا ہی ہاتھ قانون کے حق میں کھڑا کیا یا مخالفت میں، اس نے خفیہ بیلٹ کے درست خانے میں مہر لگا دی یا دو خانوں کے درمیان ٹھوک دی۔
28 جنوری کو سینیٹ میں اپوزیشن کی عددی اکثریت کے باوجود جس طرح چیئرمین کے ایک کاسٹنگ ووٹ سے سٹیٹ بینک کی خودمختاری کا قانون منظور ہوا، اس کی ایک وڈیو ’کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے‘ فیم رکنِ اسمبلی خواجہ محمد آصف کے ہاتھوں ڈیوڈ کاپر فیلڈ کو خجل کرنے کے لیے ضرور بھجوانی چاہیے۔
اور اسے یہ بھی بتانا چاہیے کہ ایسا جادو پہلی بار نہیں ہوا، ہمارے ہاں تو اب یہ نارمل سا چمتکار ہے۔
اب تو میرے کچھ بدتمیز دوست یوسف رضا گیلانی کو وفاقی وزیر برائے اپوزیشن امور اور شہباز شریف کو وفاقی وزیر برائے بین الادارتی ہم آہنگی بھی کہتے پھر رہے ہیں۔
مگر کیا ہوا ؟ کچھ بھی تو نہیں۔ سب کپڑے جھاڑ کر ’چیونٹی مر گئی چیونٹی مر گئی‘ کہتے ہوئے ایوان سے باہر آ گئے۔
اپنی پوشیدہ گری سے بل کو قانون بنوانے کے باوجود بھی اپوزیشن سٹیٹ بینک کی خود مختاری کو ملکی حمیت و اختیار کی فروخت سمجھ رہی ہے اور اپنی ہی ’اتحادی‘ حکومت کے خلاف ایک اور لانگ مارچ اور ٹریکٹر مارچ کی تیاری کر رہی ہے۔
اتنا خلا پیدا ہو گیا ہے کہ خود چمت کاری قائدِ ِحزب اقتدار کو قائِد حزبِ اختلاف کا جامہ پہن کر یہ پیغام دینا پڑ رہا ہے کہ ’میں اگر سڑکوں پر نکل آیا نا تو میں آپ کے لیے زیادہ خطرناک ہوں۔‘
چلیں دفع کریں۔ یہ سب تو آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ ایک قصہ سنتے جائیں۔
ایک شکاری ریچھ مارنے کے لیے گیا مگر نشانہ چوک گیا۔ ریچھ نے غیض و غضب میں اس شکاری پر ناقابلِ بیان تشدد کیا۔
کچھ ہفتے بعد وہی شکاری اسی جگہ اسی ریچھ کو پھر نشانہ بنانے آیا اور اس بار بھی نشانہ چوک گیا۔ ریچھ نے اسے خوب بھنبھوڑا مگر جانے دیا۔
چند ماہ بعد پھر وہی شکاری اسی جگہ اسی ریچھ کو نشانہ بنانے پہنچ گیا اور ایک بار پھر نشانہ چوک گیا۔ اس بار ریچھ نے اس پر کوئی تشدد نہیں کیا۔ بس قریب جا کر کان میں کہا ’لگتا ہے آپ شکار کے لیے نہیں بلکہ کسی اور نیت سے یہاں آتے ہیں۔‘
(حوالہ : بی بی سی اردو)