لاہور – لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کے لیے چند روز پہلے جاری ایک سرکلر میں چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے تمام حاضر سروس جج صاحبان کو ججز کامن روم میں چائے کے وقفے کے دوران کیک کاٹ کر اپنی سالگرہ منانے کی اطلاع دی
یہ سرکلر 22 جنوری کو جاری ہوا، جس پر ہائی کورٹ ایڈیشنل رجسٹرار کے دستخط تھے۔ یہ سرکلر وائرل ہوا تو سوشل میڈیا پر مختلف آرا سامنے آنے لگیں
ایک طرف کہا گیا کہ یہ ججوں کا ذاتی معاملہ ہے، اس پر تنقید نہیں ہونی چاہیے، تو دوسری جانب بعض لوگوں کو اعتراض ہے کہ عام آدمی سمجھتا ہے کہ ملک میں انصاف کے حصول میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں وہاں سرکاری طور پر سالگرہ منانے کا اعلان، انصاف کے حصول کے لیے دربدر سائلین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے
اس حوالے سے ایڈوکیٹ اشتیاق چوہدری کا کہنا ہے ”میں نوٹفیکیشن اور آپ کے سوال پر صرف مسکرا سکتا ہوں۔ اس سے زیادہ اس پر کوئی رائے نہیں دے سکتا۔“
وہ کہتے ہیں ”ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ دنیا بھر میں کیا روایت ہے؟ جب تک ہم اس پر کوئی تحقیق نہ کر لیں، بات کرنا مناسب نہیں۔“
ماہر قانون دان اور ناول نگار ڈاکٹر اسامہ صدیق نے اس سرکلر کو اپنے فیسبک پیج پر شیئر کیا اور لکھا ”یہ سرکلر میرے نئے ناول کے پہلے باب کے لیے بہت متاثر کن ہے۔ امید ہے کہ یہ ناول 2022 میں مکمل ہو جائے گا، لیکن اس سرکلر نے کیا شاندار ابتدائیہ فراہم کیا ہے۔“
جب ڈاکٹر اسامہ صدیق سے پوچھا گیا کہ کیا واقعی وہ اپنے نئے ناول کی ابتدا اس سرکلر کے ذکر سے کریں گے؟ نیز وہ ججوں کی سالگرہ ہائی کورٹ کے احاطے میں منانے کو کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
تو ڈاکٹر اسامہ صدیق، جو امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں قانون پڑھاتے رہے ہیں، کا کہنا تھا ”میں نے اسے مزاح کے طور پر اس لیے لیا کہ جب ایک سنجیدہ ادارہ اس طرح کی حرکت کرتا ہے تو وہ مزاح کا سبب بن جاتا ہے جو اسے نہیں کرنا چاہیے۔“
ان کا کہنا تھا کہ ان کی پوسٹ میں جو طنز تھا، وہ اس لیے تھا کہ وہ عرصۂ دراز سے عدلیہ اور قانونی نظام پر کام کر رہے ہیں اور وہ اسے بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں
اسامہ صدیق کہتے ہیں ”عام حالات میں یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں، لوگ کورٹ کے اندر آپس میں ملتے ہیں لیکن ہمارے پیرائے میں یہ بات دو تین وجوہات سے مضحکہ خیز لگتی ہے۔ ایک تو اس لیے کہ جہاں عدلیہ کے نظام میں اتنے مسائل ہیں، لوگ بیتاب ہیں کہ کوئی اصلاحات لائی جائیں، ایک چیف جسٹس کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا چیف جسٹس چلا جاتا ہے اور بنیادی نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، تو ظاہر ہے کہ پھر اس طرح کی چیز کو لوگ تمسخر کا نشانہ بناتے ہیں کہ دنیا باہر رو رہی ہے اور آپ کو اپنی سالگرہ کی پڑی ہے۔“
ڈاکٹر اسامہ صدیق کا کہنا تھا کہ دوسرا مزاح کا پہلو یہ کہ آپ اس کا اعلان سرکاری سطح پر کیوں کر رہے ہیں؟ آپ نے چائے پینی ہے، پییں، بسکٹ کھانے ہیں، کھائیں۔ لیکن ایک سرکلر نکل رہا ہے، جس پر رجسٹرار کے دستخط ہیں۔ اور یہ کہ آپ سالگرہ کو اتنی سنجیدگی سے لے رہے ہیں کہ کیک کاٹنا ہے یا سالگرہ منانی ہے؟“
ان کا کہنا تھا کہ یہ بالکل غیر رسمی چیز ہونی چاہیے کہ جب کسی کی سالگرہ ہو تو سب اکٹھے ہو جائیں۔
قانون دان اور ناول نگار اسامہ صدیق نے کہا ”قانون کا دنیا بھر کے ادب میں مزاح سے بھی تعلق ہے۔ چونکہ ایک بہت سنجیدہ خیالی دنیا بنائی جاتی ہے اور وہ ایک لحاظ سے ضروری ہے کیونکہ اس طرح آپ قانون کا ایک دبدبہ پیدا کرتے ہیں۔“
”لیکن اگر آپ اس میں یہ چیزیں کرتے ہیں تو آپ اپنا مذاق بنوا رہے ہیں۔ اصل دبدبہ یہ کہنے سے نہیں ہوتا کہ ہماری عزت کرو بلکہ وہ آپ کے کام سے ہوتا ہے۔“
ان کا کہنا تھا کہ ”اگر آپ مظلوم لوگوں کے لیے کچھ کر رہے ہیں تو ٹھیک ہے۔ لیکن (انصاف کے حصول کے بارے میں) بین الاقوامی انڈیکس پر ہماری کارکردگی اتنی بری ہے“
”دوسرا اتنے برسوں میں اربوں روپے خرچ کر کے سسٹم کارکردگی نہیں دکھا رہا اور عوام میں یہ تاثر موجود ہے کہ ہمارے ادارے اپنی فلاح و بہبود کے علاوہ عام لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔“
”اس طرح کے ماحول میں جب اس طرح کی چیز آتی ہے تو آپ کو غصہ بھی آتا ہے اور اس غصے کو نکالنے کا بہترین طریقہ طنز ہے۔“
ایڈووکیٹ رانا انتظار نے اس سرکلر کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ”ایسا کوئی سرکلر ہمارے پاس نہیں پہنچا۔ اگر ایسا کوئی سرکلر جاری بھی ہوا تو ججز کمیٹی روم کے اندر اپنی سالگرہ منائیں گے۔ کمیٹی روم میں وکلا شرکت نہیں کرتے، وہاں صرف جج صاحبان ہوتے ہیں۔“
ان کا کہنا تھا کہ ”سالگرہ منانا کسی کا ذاتی معاملہ ہے اس سے ہمارا کوئی سروکار نہیں۔ اگر جج صاحبان اپنی سالگرہ مناتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے کہ جس طرح وکلا، میڈیا والے اور دیگر لوگ پنی سالگرہ مناتے ہیں جج بھی منا سکتے ہیں۔“
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ”روزانہ کئی وکلا کی سالگرہ بار روم میں منائی جاتی ہے اور ہائی کورٹ کے احاطے میں ہو رہی ہوتی ہے اس میں اعتراض کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ ہر شخص اپنی خوشی سے منا رہا ہوتا ہے اور خوشیوں میں شریک ہونا سب کا کام ہے اس پر اعتراض کرنا بنتا ہی نہیں۔“