پشاور – سابق فاٹا میں عسکریت پسندی نے ڈجیٹل آزادی کو سیکیورٹی رسک میں تبدیل کردیا ہے۔ نتیجتاً اس خطے میں ڈجیٹل تفریقی نظام نے جنم لے لیا ہے اور لوگوں کو آج کی ٹیکنالوجی پر منحصر دنیا میں ڈجیٹل ذرائع تک رسائی اور ان پر اظہار کی آزادی کے بنیادی حق سے محروم کیا جا رہا ہے
ایک طرف تو غیر اعلانیہ ڈجیٹل پالیسی نافذ ہے، دوسری جانب حکمراں اشرافیہ کی مبہم باتوں نے صورتحال کو مزید غیر واضح کردیا ہے، لیکن یہی غیر واضح صورتحال معاملے کی وضاحت بھی کرتی ہے
رواں برس جنوبی وزیرستان کے دورے کے موقعے پر وزیرِاعظم عمران خان نے کہا تھا کہ، ‘میں آپ کو یہ خوشخبری دے رہا ہوں کہ آج سے 3جی اور 4 جی انٹرنیٹ کی سہولت کا آغاز کیا جا رہا ہے‘
اس اعلان کے بعد وانا شہر کے مورچہ بند حصے میں منعقدہ تقریب میں شریک نوجوانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ انہوں نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانا شروع کردیے۔ مگر خوشی کی لہر اس تھم گئی، جب ڈجیٹل آزادی کو سیکیورٹی خدشات سے جوڑتے ہوئے وزیرِاعظم نے خبردار کیا کہ ‘وہ (بھارتی) ہمارے نوجوانوں کو پاکستان کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہے ہیں‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘اسی وجہ سے 3جی اور 4 جی سروسز کے حوالے سے مسئلہ درپیش تھا، کیونکہ دہشتگرد بھی ان سروسز کو استعمال کرسکتے تھے‘
وزیراعظم نے یہی وعدہ دو برس قبل دورہ خیبر کے موقعے پر بھی کیا تھا، مگر کوئی پیشرفت نہ ہوسکی
واضح رہے کہ سابق فاٹا میں 2014ء سے ضرب عضب آپریشن کا آغاز ہوا تھا، تب سے لے کر آج تک یہ خطہ انٹرنیٹ کی بحالی کا منتظر ہے
فوجی آپریشن کے دوران نقل مکانی کرنے والے زیادہ تر قبائلی نوجوان ملک کے مختلف حصوں میں قیام پذیر ہیں، جہاں وہ خود کو تعلیمی اداروں میں داخل کروانے میں کامیاب بھی رہے۔ جب وہ اپنے گھر آئے تو انہیں اپنی پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ مثلاً، کورونا لاک ڈاؤن کے دوران وہ نہ تو اپنے ہاسٹلوں میں ٹھہر سکتے تھے اور نہ ہی گھر پر آن لائن کلاسیں لے پا رہے تھے۔ علاقے کے ایک لاکھ بارہ ہزار طلبہ و طالبات کو مسائل درپیش رہے۔ ایک طرف چند طلبہ داخلوں سے محروم رہ گئے تو دوسری طرف کئی امتحان نہیں دے پائے اور ان کا سال ضائع ہوگیا
2017ء میں تقریباً پچیس قبائلی طلبہ نے خطے میں روزمرہ کے معاملات دیکھنے والے افسران سے وفد کی صورت میں ملاقات کی، اور اسکولوں اور ہسپتالوں سے متعلق اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئے انہوں نے حقیقی مسئلے یعنی انٹرنیٹ کی بات چھیڑی
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ اس پر افسر نے انہیں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ‘انٹرنیٹ کی بات مت کریں’۔ جب طلبہ اپنی بات پر ڈٹے رہے تو کرنل نے تنگ آکر ان سے کہا کہ ‘جی ایچ کیو جاؤ اور وہاں سے اجازت لے کر آؤ’
اب دیگر قبائلی طلبہ کے ساتھ مل کر یہ نوجوان اپنی جدوجہد کو باہر بھی وسعت دے رہے ہیں
انہوں نے پشاور پریس کلب کے باہر دھرنے دینا شروع کردیے۔ پلے کارڈز اٹھائے طلبہ نے وہاں اپنے مطالبات کو محض ڈجیٹل حقوق کے مطالبے تک محدود کردیا۔ مگر صوبائی ہیڈکوارٹرز میں بیٹھے طاقتور افراد شاید اتنے بااثر نہیں تھے کہ ان کا مطالبہ یعنی رابطوں کے ذرائع کی بحالی اور 3جی اور 4 جی سروسز کی بحالی میں ان کی کسی قسم کی مدد کر پاتے
پریس کلب کی حدود میں جاری گمشدہ افراد کے رشتہ داروں کے مسلسل جاری احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے جگہ کی تنگی تھی۔ چنانچہ طلبہ نے اپنی درخواست طاقت کے حقیقی مرکز یعنی جی ایچ کیو راولپنڈی تک پہنچانے کا فیصلہ کیا
پھر ان کے ذہن میں ‘یوتھ جرگہ’ کا خیال آیا۔ ہر دیہات اور قبیلے میں جرگہ تنازع کے حل کا ایک مؤثر طریقہ تصور کیا جاتا ہے، مگر صدیوں پرانی اس روایت کو دیگر صورتوں میں بھی استعمال کیا جانے لگا ہے، جس کی وجہ سے یہ اپنے مجموعی سیاسی اور معاشرتی کردار سے محروم ہوچکی ہے اور سابق فاٹا میں سماجی و سیاسی انجینئرنگ کے نتیجے میں کمرشلائزیشن بھی ہوئی ہے۔ حتیٰ کہ ٹی وی اینکر بھی اپنے ٹاک شوز میں جرگے کا لیبل لگا دیتے ہیں، حالانکہ میڈیا کی مخصوص پسند نہ پسند کے سبب مساوات پسندی کے جذبے سے سرشار جرگے کی نفی ہوتی ہے
یوتھ جرگے کا خیال بھی اقتداری راہداریوں کے قریب یعنی اسلام آباد میں مقیم قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک معروف ٹی وی میزبان نے دیا تھا
معروف صحافی کی سرپرستی میں بالآخر جرگے کی ملاقات آرمی چیف سے ہوئی اور بعدازاں انہیں بااثر سیاستدانوں نے بھی مدعو کیا
جرگے کے ایک ممبر نے بتایا کہ ‘ہم نے فاٹا کے انضمام، فاٹا کی صوبائی نشستوں میں اضافے، فاٹا تک عدلیہ کی توسیع اور این ایف سی ایوارڈ میں (فاٹا کے لیے) 3 فیصد حصے پر تبادلہ خیال کیا‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا ایجنڈا میں انٹرنیٹ شامل تھا یا نہیں، تو جواب ‘نہیں’ میں آیا۔ بہت ساری تبدیلیوں کے وعدے کیے گئے مگر زیادہ تر معاملات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی
اگرچہ طلبہ کے دعوؤں کو چیلنج کیا جاسکتا ہے اور ان ملاقاتوں کی تفصیلات مختلف بھی ہوسکتی ہیں مگر یہ بات اپنی جگہ موجود ہے کہ سابق فاٹا میں انٹرنیٹ سروس کو ‘سیکیورٹی رسک’ تصور کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے سروس استعمال نہیں کرنے دی جاتی
اس طرح بیوروکریسی کی باڑوں میں الجھے قبائلی طلبہ کو حقیقی طاقتوروں تک پہنچنے میں چار برس کا عرصہ لگ گیا اور یوں انہوں نے اپنا وہ وقت گنوادیا جو کمرہ جماعت میں حصولِ علم یا تنازع کے باعث متاثر ہونے والی معمولاتِ زندگی کی بحالی پر صَرف کرنا چاہیے تھا
ایک طالب علم کے بقول، ‘حکمراں اشرافیہ واضح طور پر یہ نہیں بتاتی کہ وہ (فاٹا سے) چاہتی کیا ہے؟’ ان باتوں سے سرکاری دوہرا معیار ظاہر ہوتا ہے، یعنی فریب و مکر کا ایک ناختم ہونے والا ایسا کھیل کھیلا جارہا ہے جس میں حکمراں اشرافیہ وہ کام کرنے کے لیے کہتی ہے جو قبائلی افراد نہیں کرتے اور جو کام وہ کرتے ہیں وہ ان کو کرنے نہیں دیتی
علاقے کے حالات سے واقف تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں نسل در نسل جاری بے چینی انہی دوغلی باتوں کا نتیجہ ہے.