
سورج ابھرنے کے لیے ابھی راستے میں ہوتا ہے لیکن اس کے روشن قدموں کی آہٹ پا کر فضا میں ایک سرگوشی گونجنے لگتی ہے، پرندوں کا اجتماعی نغمہ۔ یہ وہ لمحہ ہے جب زمین، ہوا اور روشنی ایک ساتھ جاگتے ہیں۔
کیا کبھی آپ نے سوچا کہ آخر پرندے طلوعِ آفتاب سے پہلے اتنی شدت سے کیوں گاتے ہیں؟ کیا یہ محض خوشی کا اظہار ہے یا اس کے پیچھے کوئی گہری حیاتیاتی داستان پوشیدہ ہے؟
سائنس دانوں نے آخرکار اس راز سے پردہ اٹھایا ہے۔ زیبرا فِنچ (Zebra Finch) نامی پرندے پر کیے گئے ایک مطالعے سے پتہ چلا کہ صبح کا گیت کسی بے ساختہ جذبے کا نتیجہ نہیں، بلکہ خاموشی سے جنم لینے والا ردِعمل ہے۔
رات کے سیاہ پردے میں جب سب آوازیں سو جاتی ہیں، تب یہ اندھیرا پرندوں کے گانے کی خواہش کو دبا دیتا ہے۔ جیسے کوئی گلوکار اپنی سانس روکے کھڑا ہو۔ پھر، جیسے ہی روشنی کی پہلی لہر آتی ہے، وہ دباؤ پھٹ کر نغمے میں بدل جاتا ہے، ایک ایسا نغمہ جو خاموشی کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔
یہ عمل عادت پر نہیں بلکہ پرندے کی حیاتیاتی ساخت یا جبلت پر مبنی ہے۔ پرندوں کے وجود میں گانے کی خواہش ہمیشہ موجود رہتی ہے، چاہے اندھیرا اسے وقتی طور پر روک دے۔ جیسے ہی رکاوٹ ہٹتی ہے، گیت پوری توانائی اور درستگی سے لوٹ آتا ہے اور یوں فضا میں صبح کا سہانا سماں اس گیت پر تیرنے لگتا ہے، جسے ہم ہر دن محسوس کرتے ہیں۔
تحقیق میں سائنس دانوں نے ایک تجربہ کیا: انہوں نے صبح کی روشنی کو چند گھنٹوں کے لیے مؤخر کر دیا۔ حیرت انگیز طور پر جب روشنی آخرکار نمودار ہوئی، پرندوں نے معمول سے کہیں زیادہ شدت سے گایا۔ جبکہ مختصر راتوں کے بعد ان کے گیت کمزور محسوس ہوئے۔
یوں یہ راز کھلا کہ جتنی لمبی خاموشی ہوگی، اتنا ہی طاقتور ہوگا صبح کا گیت۔ فطرت میں ”دباؤ اور رہائی“ کا یہی اصول کارفرما ہے۔ یہ کوئی طے شدہ کنسرٹ نہیں، بلکہ ایک جبری ضبط کے بعد توانائی کا اچانک بہاؤ ہے۔
ایسا ردِ عمل زندگی کے کئی نظاموں میں پایا جاتا ہے۔ جیسے عضلات آرام کے بعد زیادہ مضبوط ہوتے ہیں یا روزہ رکھنے کے بعد بھوک زیادہ تیز لگتی ہے۔
یہی فطرت کا اصول ہے، جتنا دباؤ بڑھتا ہے، آزادی کے لمحے میں ردِ عمل اتنا ہی طاقتور ہوتا ہے۔ پرندے اسی فطری چکر کو اپنی آواز کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں: خاموشی← دباؤ ← رہائی ← نغمہ۔
اور اسی چکر سے جنم لیتا ہے وہ اجتماعی گیت جو سورج کے ساتھ ہواؤں میں گھلنے لگتا ہے۔
پرندے اندھیرے میں جاگ چکے ہوتے ہیں
زیبرا فِنچ پرندے سورج کے طلوع ہونے کا انتظار نہیں کرتے۔ وہ اندھیرے میں ہی جاگ جاتے ہیں، اپنے پروں کو پھیلانے لگتے ہیں، لیکن آواز بند رکھتے ہیں۔ ان کے بدن بیدار ہوتے ہیں، لیکن اندھیرا ان کے گلے پر تالہ ڈال دیتا ہے۔
پھر، جیسے ہی روشنی لوٹتی ہے، وہ خاموشی ٹوٹ جاتی ہے۔ ایک لمحے میں سب کچھ آزاد ہو جاتا ہے اور یہی لمحہ انسانوں کے کانوں میں صبح کے گیت کے طور پر گونجتا ہے۔
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ صبح کا گیت روشنی سے نہیں بلکہ روشنی کی پیش بینی سے شروع ہوتا ہے۔ یہ گیت دراصل انتظار کا نغمہ ہے۔۔ بیداری، ضبط، اور پھر آزادی کا۔
یہ نغمہ ایک جذباتی اور جسمانی ردِ عمل ہے، جو بیداری کے بڑھتے ہوئے احساس کے بعد پھوٹتا ہے۔ یہی ترتیب صبح کے گیت کو فطرت میں دن کے آغاز کی سب سے ابتدائی اور قابلِ اعتماد علامت بنا دیتی ہے۔
ہارمون اور فطرت کی گفتگو
اس پورے عمل کی باگیں ایک ہارمون کے ہاتھ میں ہیں، میلاٹونِن (Melatonin)۔ یہ ہارمون رات کے وقت بڑھتا ہے اور طلوعِ آفتاب سے قبل کم ہونے لگتا ہے، جس سے بدن کو بیداری کا پیغام ملتا ہے۔
سائنس دانوں نے جب اس ہارمون کے اثر کو روکا، تو فِنچ پرندے معمول سے پہلے گانے لگے۔ یوں معلوم ہوا کہ میلاٹونِن کا کم ہونا اس عمل کا آغاز ہے، اور روشنی اسے تکمیل تک پہنچاتی ہے۔
یہ حیاتیات اور ماحول کی مشترکہ شراکت داری ہے، ایک نازک ”ہینڈ اوور“ جس میں فطرت خود اپنے نظام کو ترتیب دیتی ہے۔ ہارمون بیداری پیدا کرتا ہے، روشنی اجازت دیتی ہے، اور نتیجہ ایک بےمثال نغمے کی صورت میں نکلتا ہے۔
صبح کی چہچہاہٹ: فطری ورزش
پرندوں کے صبح کے گیت صرف خوبصورتی نہیں، بلکہ مشق بھی ہیں۔ رات کی طویل خاموشی ان کی آواز کی نزاکت کو متاثر کرتی ہے۔ لہٰذا صبح کے ابتدائی گیت ان کی ”ووکَل پریکٹس“ بن جاتے ہیں، جیسے کوئی گلوکار دن کے آغاز سے پہلے ریاض کرے۔
لمبی رات کے بعد فِنچ پرندے اپنے نغموں کی ترتیب کو زیادہ تیزی سے درست کرتے ہیں۔ اس لیے صبح کا گانا صرف خوشی نہیں بلکہ تربیت ہے۔ جسمانی اور جذباتی دونوں۔
یہ مشق نہ صرف ہم آہنگی اور اعتماد بڑھاتی ہے، بلکہ فطری مقابلے کا ہتھیار بھی ہے۔ ایک مضبوط، درست اور مسلسل گانے والا پرندہ نہ صرف اپنی طاقت دکھاتا ہے بلکہ ممکنہ ساتھیوں کو متاثر اور حریفوں کو خوف زدہ بھی کرتا ہے۔
یہ سب فطرت میں یکساں ہے
قدرتی ماحول میں بھی زیبرا فِنچ پرندوں کا یہی رویہ دیکھا گیا۔ جب بادلوں نے سورج کی روشنی کو روک دیا، تو پرندے پہلے سے گانے لگے اور زیادہ دیر تک گاتے رہے۔ گویا روشنی کی تاخیر نے ان کے اندر کے دباؤ کو اور بڑھا دیا۔
لیبارٹری اور قدرتی ماحول کے درمیان یہ یکسانیت ثابت کرتی ہے کہ یہ عمل آفاقی ہے، گانے کی خواہش اندھیرے میں بڑھتی ہے، اور روشنی اسے آزاد کر دیتی ہے۔ یوں تجربہ گاہ اور قدرت کے درمیان یہ ہم آہنگی بتاتی ہے کہ صبح کا گیت کوئی سیکھا ہوا عمل نہیں بلکہ ایک اندرونی جذبہ ہے۔ پرندہ اکیلا ہو یا جھنڈ میں، وہ ایک ہی اشارے پر گاتا ہے: روشنی کی خوشبو محسوس کرتے ہی۔
دوبارہ گانے کا مفروضہ (Rebound Singing Hypothesis)
یہی وہ نظریہ ہے جو ساری کہانی کو سمجھاتا ہے۔ پرندے اندھیرے میں خاموش رہ کر ایک اندرونی تناؤ جمع کرتے ہیں۔ پھر جیسے ہی روشنی ظاہر ہوتی ہے، وہ جذبہ گیت کی صورت میں پھٹ پڑتا ہے۔
یہی ”دوبارہ گانے کا مفروضہ“ ہے کہ دباؤ اور آزادی کا امتزاج فطرت کی بنیادی دُھن ہے۔ دونوں خیالات ایک ہی فطری ردھم کی وضاحت کرتے ہیں: پہلے دباؤ، پھر آزادی۔
یہ نظریہ یہ بھی سمجھاتا ہے کہ افزائشِ نسل کے موسم میں پرندے زیادہ شدت سے کیوں گاتے ہیں، کیونکہ ان دنوں ہارمونی سطح بلند ہوتی ہے، جذبہ زیادہ طاقتور ہو جاتا ہے، اور صبح کے گیت، محبت کے اعلان میں بدل جاتے ہیں۔
پرندوں کا صبح کے وقت گانا کئی واضح فائدے رکھتا ہے۔ یہ ان کی صحت اور تیاری کا اعلان ہے۔ جو نر پرندے سب سے پہلے گاتے ہیں، وہ اپنی برداشت، درستگی اور توانائی دکھاتے ہیں، ایسی خصوصیات جو ممکنہ ساتھیوں کو متوجہ کرتی ہیں۔ یہ گانا حریف پرندوں سے پہلے علاقے کے دفاع میں بھی مدد دیتا ہے۔
یہ اجتماعی نغمہ ہوشیاری اور طاقت کا پیغام بن جاتا ہے۔ ارتقاء نے اسے اسی لیے برقرار رکھا، کیونکہ یہ مؤثر ہے۔ صبح کے گیت صرف آواز نہیں، بلکہ جسمانی فٹنس کا ثبوت ہیں۔
جن اقسام میں نر پرندے ساتھی حاصل کرنے کے لیے مقابلہ کرتے ہیں، ان میں وقت کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ جو نر سب سے پہلے گاتا ہے، وہ اپنی توانائی اور اعتماد دونوں کا اعلان کرتا ہے۔ مادہ پرندے کے لیے یہ گیت دراصل ایک قابلِ اعتماد ساتھی کی علامت ہے۔ یوں طلوعِ آفتاب کا گیت بقا، نسل، اور ابلاغ- تینوں کی ایک جامع زبان ہے۔
وقت، دباؤ اور فطری تال
یہ تحقیق برسوں پرانی بحث کو سلجھاتی ہے۔ کچھ ماہرین کہتے تھے کہ روشنی گانے کا سبب ہے، جبکہ دوسروں کا خیال تھا کہ ہارمون اس پر قابو رکھتے ہیں۔ درحقیقت دونوں درست ہیں۔ ہارمون جسم کو جگانے کا وقت طے کرتے ہیں، اور روشنی یہ طے کرتی ہے کہ کب عمل شروع ہو۔
ان دونوں لمحات کے درمیان جو وقفہ پیدا ہوتا ہے، وہ اندرونی دباؤ بڑھاتا ہے۔ پہلی روشنی آتے ہی یہ دباؤ ٹوٹ جاتا ہے اور توانائی ایک گیت کی صورت میں بہہ نکلتی ہے۔
یہی تناؤ اور آزادی کا تال میل
صبح کے گانے کے وقت اور شدت دونوں کو جنم دیتا ہے۔
یہ طرزِ عمل صرف پرندوں تک محدود نہیں۔ تمام جانداروں میں یہی اصول دکھائی دیتا ہے: دباؤ جذبہ بڑھاتا ہے، اور رہائی عمل کو طاقت دیتی ہے۔ خاموشی کے بعد توانائی اور زیادہ شدت سے لوٹتی ہے۔
انسان بھی یہی اثر محسوس کرتے ہیں۔ سکوت کے بعد خیالات تیزی سے بہتے ہیں، آرام کے بعد جسم زیادہ روانی سے حرکت کرتا ہے۔ اصول وہی ہے: پابندی جذبہ پیدا کرتی ہے، اور آزادی اُسے عمل میں بدل دیتی ہے۔
نغمۂ تجدید، زندگی کی پہلی آواز
اب صبح کا گیت کوئی معما نہیں رہا۔ یہ فطرت کا روزانہ “ری سیٹ” ہے- ہارمون، صبر، اور مشق کا سنگم۔
زیبرا فِنچ نے ہمیں یہ سکھایا کہ صبح کا گانا دراصل زندگی کا پہلا سانس ہے۔ ایک طویل رات کے بعد زندگی کا اپنی آواز دوبارہ تلاش کرنا۔ اور یہ کہ صبح کا گانا محض جوش نہیں، بلکہ انتہائی درست لمحے کا انتخاب ہے۔
ہر سر، ہر دُھن، ہر نغمہ جمع شدہ توانائی کا اخراج ہے، دن کی تیاری کا اشارہ اور کائنات کے ساتھ ہم آہنگی کا اعلان۔
ہم جو صبح سنتے ہیں، وہ صرف پرندوں کا گیت نہیں، یہ حیاتیات کی نبض ہے، فطرت کی بیداری، اور زندگی کی وہ پہلی سانس جو سورج کے ساتھ مل کر دنیا کو ایک اور بار زندہ کر دیتی ہے۔
اس فیچر کی تیاری میں جرنل bioRxiv اور ارتھ ڈاٹ کام میں شائع تحقیق سے مدد لی گئی ہے۔ امر گل)




