واشنگٹن – حال ہی میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی میں تارا میکیلوی اور بوئر ڈینگ کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ گرفتار ہونے والی دولت اسلامیہ کی خواتین بٹالین کی مبینہ کمانڈر، ایلیسن فلوک ایکرین نے اُم محمد الامریکی تک کا سفر کیسے طے کیا؟
واضح رہے کہ ایلیسن فلوک ایکرین عرف اُم محمد الامریکی، امریکا کی وسط مغربی ریاست کنساس سے تعلق رکھتی ہیں. وہ کبھی بڑی اور گہری آنکھوں والی ’آل امریکی گرل‘ کے نام سے جانی جاتی تھیں، کو گرفتار کر کے ورجينيا کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں دہشتگردی کے الزامات کے مقدمے میں گذشتہ جمعرات کو ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی
ان پر الزام ہے کہ صرف چند سال قبل وہ ’ام محمد الامریکی‘ کے نام سے شام میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی خواتین بٹالین کی کمانڈ کر رہی تھیں اور امریکی زمین پر دہشتگرد حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں
اب ایلیسن امریکی ایف بی آئی کی حراست میں ہیں اور ورجینیا میں مقدمے کا سامنا کر رہی ہیں جس میں انہیں بیس سال قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
بیالیس سالہ امریکی شہری ایلیسن فلوک ایکرین کو جب اُن کے بچوں کی جانب سے موصول ہونے والے جواب ’ہمیں اپنی والدہ سے اب کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھنا۔ ہم ان سے بات بھی نہیں کرنا چاہتے‘ کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے بظاہر کافی تحمل سے جواب دیا کہ ’ٹھیک ہے۔‘
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسکول کی ایک سابقہ ٹیچر کس طرح دولت اسلامیہ کی صفوں میں اپنی تمام خواتین بٹالین کی کمان کرنے کے لیے آگے بڑھیں، یہ ایک معمہ ہے
سنہ 1990 کی دہائی میں جب ایکرین ابھی کمسن تھیں اور اسکول میں زیر تعلیم تھیں، تو ان کے سائنس کے استاد لیری ملر ہوا کرتے تھے
لیری ملر کے مطابق، وہ اس بچی کے دولت اسلامیہ کے ساتھ تعلقات کی خبروں سے بالکل دنگ رہ گئے تھے
انہوں نے ان برسوں کے دوران ایکرین کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ذہین طالبہ تھیں
وہ کہتے ہیں ’وہ ایک بہت اچھی طالبہ تھی۔ وہ ذہین تھیں اور مزاح کی حس بھی رکھتی تھیں۔ ان کے والدین بہت زیادہ سپورٹ کرنے والے تھے۔‘
لیری ملر نے بتایا کہ تقریباً پندرہ سال پہلے انہیں ایکرین کی جانب سے ایک ای میل موصول ہوئی تھی، جس میں انہوں نے بطور استاد ان کی تعریف کی تھی
’وہ واقعی بہت اچھا خط تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں سائنس اور فطرت سے کتنی محبت تھی اور اب وہ بھی پڑھانے کے لیے ڈگری حاصل کر رہی تھیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس نے کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا، جس سے یہ اشارہ ملتا کہ وہ کسی دوسرے جاندار کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔‘
ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا وہ سب کلاس کے فیلڈ ٹرپ پر تھے، جب وہ ایک چھپکلی کو احتیاط سے پکڑ کر لائی تھی، تاکہ دوسرے طالب علم اس کا مطالعہ کر سکیں
وہ کہتے ہیں کہ ’میں سمجھ نہیں سکتا کہ فطرت اور لوگوں سے اتنی محبت کرنے والی کوئی طالبہ ایسا کیسے کرے گی۔‘
’ایلیسن جیسی لڑکی، ایک آل امریکی گرل، میں ایسی تبدیلی کیسے آ سکتی ہے کہ اس کا باہر جا کر قتل کرنے کا دل چاہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اسے یقیناً برین واش کیا گیا ہوگا۔‘
یہ وہی ایلیسن فلوک ایکرین عرف اُم محمد الامریکی ہیں، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ کئی دہائیوں کے بعد وہ مبینہ طور پر دولت اسلامیہ کے انتہا پسند نظریے کی پیروکار بن گئی ہیں
ان کے متعلق ایک گواہ نے وفاقی امریکی استغاثہ کو بتایا ”ان کے خیالات انتہائی انتہا پسندانہ ہیں اور ایک سے دس کے پیمانے پر وہ ’گیارہ یا بارہ‘ پر آتی ہیں، حالانکہ دسواں درجہ اپنے آپ میں انتہائی بنیاد پرست ہونے کا اشارہ ہے
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی حکام اور بی بی سی کی طرف سے جائزہ لیے گئے عوامی رکارڈز کے مطابق ایکرین نے 2000ع کی دہائی کے آخر میں مشرق وسطیٰ میں اپنے اس وقت کے شوہر اور بچوں کے ساتھ وقت گزارا اور ساتھ ہی وہ کنساس کا دورہ بھی کرتی رہیں
انہوں نے 2008 سے 2010 کے دوران ایک بلاگ پر اس کی تفصیلات درج کیں، جو کہ ایک عام زندگی تھی
ایک بلاگ کے مطابق سنہ 2008ع میں ایلیسن امریکی ریاست کنساس میں بطور استاد کام کر رہی تھیں
امریکی حکام کا الزام ہے کہ سنہ 2011ع میں ایلیسن لیبیا گئیں، جہاں سے سنہ 2012ع کے دوران وہ اپنے شوہر کے ہمراہ انسانی اسمگلروں کی مدد سے شام پہنچ گئیں
ایلیسن کے شوہر کے بارے میں الزام ہے کہ وہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ میں شامل ہونے کے بعد سنائپر (ماہر نشانہ باز) بن گئے تھے اور بعد میں ایک فضائی حملے میں مارے گئے
امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ اپنے شوہر کی وفات کے بعد ایلیسن نے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ایک بنگلہ دیشی رُکن سے شادی کر لی تھی، جو ڈرون حملوں کا ماہر مانا جاتا تھا۔ ان کے دوسرے شوہر بھی سنہ 2016 یا سنہ 2017 کے اوائل میں ہلاک ہو گئے تھے
بقول امریکی حکام، ایلیسن نے تیسری بار شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ایک ایسے سینیئر کمانڈر سے شادی کی جن کو شام میں اس تنظیم کے دارالحکومت رقہ کے دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی تھی
سنہ 2017ع میں ہی رقہ شہر پر داعش مخالف اتحاد نے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کو شکست دے کر قبضہ کر لیا تھا
امریکا کے جسٹس ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایلیسن کو سنہ 2017ع میں شام میں گرفتار کیا گیا، جس کے بعد انھیں ایف بی آئی کے حوالے کر دیا گیا تھا
اس بیان میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ایلیسن کئی اور ناموں سے بھی جانی جاتی تھیں، جن میں ام محمد الامریکی، ام محمد اور ام جبرائیل شامل ہیں
امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ ایلیسن نے شام میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے لیے سنہ 2014ع سے ہی کام شروع کر دیا تھا اور وہ امریکہ کے کالج کیمپس پر حملوں کی منصوبہ بندی بھی کرتی رہیں
اس بیان کے مطابق سنہ 2016 میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے رقہ شہر کے ولی نے ’خطیبہ نصیبہ‘ کے نام سے خواتین کی بٹالین قائم کرنے کا اعلان کیا تھا اور ایلیسن جلد ہی اس کی سربراہ تعینات کر دی گئی تھیں۔ اس بٹالین کو اس بات پر فخر تھا کہ ان کی سربراہ ایک امریکی خاتون ہیں
امریکی حکام کے بقول، بطور سربراہ ایلیسن نے خواتین اور بچوں کو کلاشنکوف چلانا سکھائی اور ساتھ ہی ساتھ انھیں ہینڈ گرینیڈ چلانے اور خودکش حملوں کی تربیت بھی دی۔ امریکی حکام کے مطابق ایسے عینی شاہدین موجود ہیں جو اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ انھوں نے ایلیسن کو خود یہ کلاسز لیتے ہوئے دیکھا تھا
امریکی حکام کے مطابق ایلیسن نے مبینہ طور پر ایک عینی شاہد، جو اس مقدمے کے گواہ ہیں، کو بتایا کہ وہ امریکا میں دہشت گرد حملوں کی خواہش مند ہیں
اسی گواہ کے مطابق ایلیسن کا منصوبہ تھا کہ وہ بارود سے بھری گاڑی کسی شاپنگ مال کی زیر زمین پارکنگ میں کھڑی کریں گی اور فون کی مدد سے دھماکہ کر دیں گی
حکام کے مطابق ایلیسن کے نزدیک جب تک کسی بھی ایسے حملے میں بہت زیادہ افراد کی ہلاکت نہ ہو تب تک اس کی تیاری کے لیے وسائل کا استعمال وقت کا ضیاع ہوگا
حکام کا کہنا ہے کہ ایک گواہ کے مطابق جب بھی ایلیسن کو بیرون ملک کسی دہشت گرد حملے کی اطلاع ملتی تو وہ کہتیں کہ ’کاش یہ حملہ امریکہ میں ہوا ہوتا۔‘
اب ایلیسن کو امریکا میں ایک دہشت گرد تنظیم کی مدد کرنے پر مقدمے کا سامنا ہے، جس میں انہیں بس سال تک کی سزا ہو سکتی ہے
یہ اس ایلیسن فلوک ایکرین عرف اُم محمد الامریکی کی کہانی ہے، جن کے بارے میں ان کے استاد کہتے ہیں ’میں سمجھ نہیں سکتا کہ فطرت اور لوگوں سے اتنی محبت کرنے والی کوئی طالبہ، ایسا کیسے کرے گی۔‘