افغانستان میں آخر ایسا کیا ہے، جو اسے حملہ آوروں کا قبرستان بناتا ہے؟

ویب ڈیسک

کراچی – یہ 15 فروری 1989ع کی بات ہے، جب سوویت افواج کا افغانستان سے انخلا مکمل ہوا تھا، آج اس واقعے کو تینتیس برس مکمل ہو چکے ہیں

افغانستان میں آخر ایسی کیا بات ہے کہ اسے پوری دنیا ”حملہ آوروں کا قبرستان“ کیوں کہتی ہے؟ کچھ تو ہوگا، کہ برطانیہ، سوویت یونین، امریکا سمیت دنیا کی تمام بڑی طاقتور کو اسے فتح کرنے کی کوششوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا

ماہرین کا خیال ہے کہ اس سوال کا جواب دراصل افغانستان کی تاریخ اور اس کے جغرافیائی محل و وقوع میں پنہاں ہے

انیسویں صدی میں برطانوی سلطنت، جو اس وقت دنیا کی سب سے طاقتور سلطنت تھی، نے اپنی پوری طاقت سے اسے فتح کرنے کی کوشش کی۔ لیکن سنہ 1919ع میں برطانیہ کو بالآخر افغانستان چھوڑ کر جانا پڑا اور افغانوں کو آزادی دینی پڑی

اس کے بعد سوویت یونین نے سنہ 1979ع میں افغانستان پر حملہ کیا۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ سنہ 1978ع میں بغاوت کے ذریعے قائم کی گئی کمیونسٹ حکومت کو گرنے سے بچایا جائے، لیکن انہیں یہ سمجھنے میں دس سال لگے کہ وہ یہ جنگ نہیں جیت پائیں گے

صرف یہی نہیں کہ برطانوی سلطنت اور سوویت یونین کو شکست کھا کر افغانستان سے نکلنا پڑا بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک قدر یہ بھی مشترک ہے کہ جب دونوں سلطنتوں نے افغانستان پر حملہ کیا تو وہ اپنی طاقت کے عروج پر تھیں، لیکن اس حملے کے ساتھ آہستہ آہستہ دونوں سلطنتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگیں

سنہ 2001ع میں امریکی قیادت میں افغانستان پر حملہ ہوا اور کئی سالوں تک جاری رہنے والی جنگ میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے بیس سال بعد امریکا کو بالآخر افغانستان سے نکلتے ہی بنی

افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء بارے امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے فیصلے پر افغانستان کی ‘سلطنتوں کے قبرستان’ کے طور شہرت کو یاد کرتے ہوئے کہا ”چاہے کتنی ہی فوجی قوت کیوں نہ لگا لیں، ایک مستحکم، متحد اور محفوظ افغانستان کا حصول ممکن نہیں ہے۔“

حالیہ صدیوں میں افغانستان کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے والی دنیا کی طاقتور فوجوں کے لیے افغانستان ایک قبرستان ہی ثابت ہوا ہے

ابتدا میں ان حملہ آور لشکروں کو کچھ کامیابی ملی ہو، لیکن آخر میں انہیں افغانستان چھوڑ کر بھاگنا پڑا ہے

افغانستان کی تاریخ پر ”افغانستان: سلطنتوں کا قبرستان“ نامی کتاب لکھنے والے اور دفاع اور خارجہ پالیسی کے تجزیہ کار ڈیوڈ اسبی کہتے ہیں”ایسا نہیں ہے کہ افغان کافی طاقتور ہیں۔ لیکن افغانستان میں جو کچھ ہوا ہے، اس کی وجہ حملہ آور قوتوں کی غلطیاں ہیں۔“

ڈیود اسبی کا کہنا ہے کہ اگر غیرجانبداری کے ساتھ دیکھا جائے تو افغانستان ایک مشکل جگہ ہے۔ یہ ایک پیچیدہ ملک ہے، جہاں انفراسٹرکچر کی صورتحال ناقابل بیان ہے، بہت محدود ترقی ہے اور یہ خطہ ہر طرف زمین سے گھرا ہوا ہے

بہرحال اسبی کا کہنا ہے کہ ”سوویت یونین، برطانیہ یا امریکا کسی بھی سلطنت نے افغانستان کے ساتھ لچیلے پن کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ وہ اپنی راہ جانا چاہتے تھے اور وہ گئے بھی، لیکن انہوں نے کبھی افغانستان میں موجود پیچیدگیوں کو نہیں سمجھا“

اگرچہ اس تاثر کے برعکس کہ افغانستان کو فتح کرنا ناممکن ہے، ایرانیوں، منگولوں اور سکندر نے افغانستان کو فتح کیا تھا، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ یہ ایسی دلیری ہے جس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ اور یہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس سے قبل کابل پر حملہ کرنے والی آخری تین بڑی سلطنتیں اپنی کوشش میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں

تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پتا چلتا ہے کہ انیسویں صدی کے بیشتر حصے میں افغانستان وسطی ایشیا کو کنٹرول کرنے کے لیے برطانوی اور روسی سلطنتوں کے درمیان جنگ کا ایک اہم اسٹیج تھا

اس کے تعلق سے روس اور برطانیہ کے درمیان کئی عشروں تک سفارتی اور سیاسی کشمکش جاری رہی، جس میں بالآخر برطانیہ کی جیت ہوئی۔ لیکن برطانیہ کو اس کی بڑی قیمت چکانی پڑی

برطانیہ نے افغانستان پر سنہ 1839ع اور 1919ع کے درمیان تین مرتبہ حملہ کیا اور کہا جا سکتا ہے کہ برطانیہ تینوں بار ناکام رہا

سنہ 1839ع کی پہلی اینگلو افغان جنگ میں برطانیہ نے کابل پر قبضہ کر لیا۔ کیونکہ برطانیہ کا خیال تھا کہ اگر اس نے یہ قدم نہیں اٹھایا تو روس کابل پر قبضہ کر لے گا

اس کی وجہ سے برطانیہ کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ قبائل نے دنیا کے طاقتور ترین ملک کی فوج کو انتہائی معمولی ہتھیاروں سے تباہ کر دیا اور تین سال کے حملے کے بعد بالآخر افغانستان نے حملہ آور فوج کو بھاگنے پر مجبور کر دیا

6 جنوری سنہ 1842ع کو جو سولہ ہزار فوجی برٹش کیمپ سے جلال آباد روانہ ہوئے تھے، ان میں سے صرف ایک برطانوی شہری زندہ واپس لوٹا

اسبی بتاتے ہیں ”اس جنگ نے برصغیر میں برطانوی توسیع پسندانہ پالیسی کو کمزور کیا اور اس تصور کو بھی نقصان پہنچایا کہ انگریز ناقابل تسخیر ہیں۔“

چار دہائیوں کے بعد برطانیہ نے ایک بار پھر کوشش کی، تاہم اس بار اسے کچھ کامیابی ملی

اور سنہ 1878ع سے 1880ع کے درمیان دوسری اینگلو افغان جنگ کے نتیجے میں افغانستان برطانیہ کی حفاظت والی ریاست بن گیا۔ لیکن برطانیہ کو کابل میں ریزیڈنٹ وزیر رکھنے کی اپنی پالیسی ترک کرنی پڑی. اس کے بجائے سلطنت برطانیہ نے ایک نیا افغان امیر منتخب کر کے اپنی فوجیں ملک سے واپس بلا لیں

لیکن سنہ 1919ع میں جب اس نئے امیر نے خود کو برطانیہ سے آزاد قرار دیا تو تیسری اینگلو افغان جنگ شروع ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا، جب ایک جانب بالشویک انقلاب نے روسی خطرے کو کم کر دیا اور دوسری جانب پہلی جنگ عظیم نے برطانوی فوجی اخراجات میں بہت اضافہ کر دیا تھا۔ ایسی صورتحال میں برطانوی سلطنت میں افغانستان کے بارے میں دلچسپی کم ہو گئی

اسی وجہ سے چار ماہ کی جنگ کے بعد برطانیہ نے بالآخر افغانستان کو آزاد قرار دے دیا

اگرچہ برطانیہ افغانستان میں سرکاری طور پر موجود نہیں تھا، لیکن یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس نے کئی سالوں تک وہاں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھا

پھر سنہ 1920ع کے دوران امیر امان اللہ خان نے ملک میں اصلاح لانے کی کوشش کی۔ ان میں خواتین کے برقعہ پہننے کے رواج کوختم کرنا بھی شامل تھا۔ ان کوششوں نے کچھ قبائل اور مذہبی رہنماؤں کو ناراض کر دیا، جس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہو گئی

اس خانہ جنگی کی وجہ سے افغانستان کی صورتحال کئی دہائیوں تک کشیدہ رہی اور سنہ 1979ع میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کر دیا، تاکہ ایک بری طرح سے غیر منظم کمیونسٹ حکومت کو اقتدار میں برقرار رکھا جا سکے

مجاہدین کی کئی تنظیموں نے سوویت یونین کی مخالفت کی اور ان کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ اس جنگ میں مجاہدین کو امریکا سمیت کئی مالک کا تعاون حاصل رہا، جس کی وجہ یقیناً ان ملکوں کے اپنے اپنے مفادات تھے

روسیوں نے ان علاقوں اور وہاں کے دیہاتوں پر زمینی اور فضائی حملے کیے، جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہ مسئلے کی جڑ ہیں۔ اس کی وجہ سے مقامی آبادی اپنے گھر چھوڑنے یا مرنے مارنے پر مجبور ہو گئی

اس حملے میں بہت زیادہ خون بہا۔ اس جنگ میں تقریبا پندرہ لاکھ لوگ اپنی جانوں سے گئے اور پچاس لاکھ لوگ پناہ گزین بن گئے

اگرچہ ایک زمانے تک سوویت یونین کی فوج بڑے شہروں اور قصبوں کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہی۔ لیکن دیہی علاقوں میں مجاہدین نسبت زادانہ گھومتے رہے

سوویت یونین کی فوج نے کئی طریقوں سے افغانیوں کو زیر تسلط لانے کی کوشش کی، لیکن گوریلا افغان جنگجو اکثر ایسے حملوں سے بچ جاتے تھے، اس جنگ میں سوویت یونین نے پورا ملک تباہ کر دیا

اسی دوران اس وقت کے سوویت لیڈر میخائل گورباچوف نے محسوس کیا کہ روسی معیشت کو تبدیل کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ جنگ جاری رکھنا اب ممکن نہیں، تو انہوں نے سنہ 1988ع میں اپنی فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا

لیکن اس انخلا سے سوویت یونین کی تصویر کبھی اچھی نہ ہوسکی۔ افغانستان سوویت یونین کے لیے ‘ویت نام جنگ’ بن گیا۔ یہ خون آشام ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی مہنگی اور شرمناک جنگ تھی، جس میں سوویت یونین اپنی تمام تر طاقت لگا دینے کے باوجود مقامی گوریلا جنگجوؤں کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہوا

اس حوالے سے ڈیوڈ اسبی کہتے ہیں ”سوویت یونین نے افغانستان میں جائز حکومت کا اس وقت دعویٰ کیا، جب سوویت نظام میں اس کی حکومت اور اس کی فوج کے درمیان سنگین اور بنیادی تنازعات تھے“

اسبی کے خیال میں ”یہ سوویت یونین کی سب سے بڑی غلطیوں میں سے ایک تھی“ کیونکہ اس کے بعد سوویت یونین بکھرنے لگا اور بالآخر ٹوٹ کر تقسیم ہو گیا

افغانستان میں برطانیہ اور سوویت یونین کی ناکام کوششوں کے بعد پھر وہ وقت آیا، جب امریکا نے 9/11 کے حملوں کے بعد افغانستان میں ”جمہوریت کی حمایت اور القاعدہ کے خاتمے کے لیے“ 2001ع میں افغانستان پر حملہ کردیا

اس سے قبل کی دو سلطنتوں کی طرح امریکا بھی تیزی سے کابل فتح کرنے اور طالبان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے میں کامیاب رہا۔ امریکا کی کٹھ پتلی افغان حکومت تین سال بعد وجود میں آئی لیکن طالبان کے حملے جاری رہے۔ امریکا کے سابق صدر براک اوباما نے سنہ 2009ع میں فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر کے طالبان کو پیچھے دھکیل دیا۔ لیکن یہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکا

سنہ 2001ع جنگ کے آغاز کے بعد سنہ 2014ع میں سب سے زیادہ خونریزی دیکھی گئی۔ نیٹو افواج نے اپنا مشن مکمل کیا اور ذمہ داری افغان فوج کے حوالے کر دی۔ اسی وجہ سے طالبان نے زیادہ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اگلے سال پے در پے خودکش دھماکے ریکارڈ کیے گئے۔ ان میں کابل کی پارلیمنٹ اور ہوائی اڈے کے قریب ہونے والے دھماکے بھی شامل ہیں

اسبی کے مطابق امریکی حملے میں بہت سی چیزیں غلط طریقے سے کی گئیں

بقول ان کے، ”فوجی اور سفارتی کوششوں کے باوجود بہت سے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ تھا کہ امریکا اور عالمی برادری پاکستان کو پراکسی جنگ کرنے سے نہیں روک سکا، جس نے اپنی کامیابی ثابت کی۔“

‘اور یہ دوسرے ہتھیاروں سے زیادہ کامیاب ثابت ہوا ہے۔’

اگرچہ سوویت یونین کی جنگ کے نتیجے میں زیادہ خونریزی ہوئی، لیکن امریکی حملہ زیادہ مہنگا ثابت ہوا۔ سویت یونین کے افغانستان جنگ میں اگر دو ارب ڈالر سالانہ خرچ ہوئے، تو امریکا کی جانب سے سنہ 2010ع اور 2012ع کے درمیان سالانہ تقریبا ایک سو ارب ڈالر خرچ ہوئے

لیکن سقوط کابل کو جنوبی ویت نام کے واقعات سے بھی تشبیہ دی گئی ہے۔

ریپبلکن پارٹی کی کانگریس میں رکن اسٹیفنک نے ٹویٹ کیا: ‘یہ جو بائیڈن کا سائیگون ہے۔

انہوں نے لکھا ”یہ بین الاقوامی منظر نامے پر (امریکا کی) ایک تباہ کن ناکامی ہے، جسے کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close