سری نگر – مقبوضہ جموں کشمیر میں ایک پچپن سالہ معلم نثار احمد تانترے اپنے گھر سے آن لائن کلاسز کو پڑھا رہے تھے، جب کسی نے ان کے دروازے پر دستک دی۔ لیکن جب وہ باہر نکلے تو دو سرکاری ملازمین ہاتھ میں لفافہ لیے ان کے منتظر تھے
نثار احمد کو یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ ان کے ہاتھ میں جو حکومتی فرمان ہے، اس میں ان کی سرکاری اسکول میں بطور سینیئر ملازم برطرفی کے احکامات درج ہیں
سرکاری پروانے میں تحریر تھا: ”لیفٹیننٹ گورنر مطمئن ہیں کہ ریاست کی سلامتی کے مفاد میں اس معاملے کی انکوائری کرنا مناسب نہیں ہے اور اس کے مطابق لیفٹیننٹ گورنر نثار احمد تانترے کو فوری طور پر برطرف کرنے کا حکم صادر کرتے ہیں“
مقبوضہ کشمیر کئی دہائیوں سے پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی، پرتشدد شورش اور عدم استحکام کا شکار ہے اور یہ دنیا کے چند ان علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں سب سے زیادہ فوجی تعینات ہیں، جس کے نتیجے میں بھارتی سکیورٹی فورسز اور مقامی کشمیری آبادی کے درمیان جھڑپیں عام ہوتی جا رہی ہیں
لیکن نثار احمد کا کہنا ہے کہ ان کا بھارتی حکام کے ساتھ کبھی کوئی تنازع نہیں رہا اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کی کون سی ’سرگرمیوں‘ کو ’ریاست کی سلامتی‘ کے لیے خطرہ سمجھا گیا ہے؟
نثار احمد نے بتایا کہ ’میں اس اچانک فیصلے سے حیران رہ گیا تھا۔‘ انہوں نے مزید کہا ’مجھے نہیں معلوم کہ میری ملازمت کیوں چھین لی گئی؟‘ کیونکہ حکومت کی جانب سے ان کے خلاف اس اقدام کی انکوائری ختم کرنے یا ان کو جواب دینے کا موقع بھی فراہم نہیں کیا گیا
لیکن وہ اس خطے میں ایسے واحد سرکاری اسکول ٹیچر نہیں ہیں، جنہیں وجوہات بتائے بغیر برطرف کر دیا گیا ہے
دی انڈیپنڈنٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ان کے نامہ نگار نے تقریباً ڈیڑھ درجن ایسے سرکاری حکم نامے دیکھے ہیں، جن میں کشمیر (جس کا ریاست کا درجہ ختم کر دیا گیا ہے) کے لیفٹیننٹ گورنر نے سرکاری اساتذہ کو کوئی خاص وجہ بتائے بغیر ان کی ملازمت سے برطرف کر دیا۔ وکلا کا اندازہ ہے کہ ایسے معاملات کی تعداد کم از کم دو درجن ہے
دی انڈیپنڈنٹ نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ فون کالز اور ای میل کے ذریعے لیفٹیننٹ گورنر کے دفتر سے رابطہ کیا لیکن اشاعت کے وقت تک اسے کوئی جواب نہیں ملا۔ بھارت میں ملازمت کے تحفظ کی وجہ سے سرکاری ملازمتوں کی بہت زیادہ مانگ ہے
تقریباً ایک ہفتے بعد تین سرکاری ملازمین کو ایک خط موصول ہوا، جس میں ان کی ملازمتوں کو فوری طور پر ختم کرنے کے بارے میں مطلع کیا گیا تھا
اگرچہ نثار احمد کو ملازمت کے نئے قوانین کے نافذ ہونے سے پہلے برطرفی کا حکم نامہ موصول ہو گیا تھا، لیکن وہ حیران ہیں کہ کیا ان کے اپنے تین بھائیوں کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے ان کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے؟
نثار احمد کے تین بڑے بھائی تقریباً چار دہائیوں سے سیاسی گروپ ’جماعت اسلامی‘ کے رکن تھے، جس پر فروری 2019ع میں بھارت کی مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے پابندی عائد کی گئی تھی
بھارتی حکومت نے اس تنظیم پر پانچ سال کے لیے یہ الزام لگاتے ہوئے پابندی لگا دی تھی کہ یہ تنظیم ’ملک دشمنی اور تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہے اور بدامنی پھیلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔‘
پابندی سے پہلے نثار احمد کے بھائیوں کا بھارتی حکام کے ساتھ کئی بار آمنا سامنا ہوا لیکن انہیں کبھی گرفتار نہیں کیا گیا
وہ کہتے ہیں: ’پولیس نے انہیں متعدد بار بلایا ہے۔ لیکن ان کے خلاف کبھی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔‘
احمد نثار کا ماننا ہے کہ انہیں ان کے بھائیوں کی وابستگی کی سزا دی جا رہی ہے کیونکہ حکومت ان کے خلاف اس لیے براہ راست کارروائی نہیں کر سکتی تھی کہ وہ اب ریٹائر ہو چکے ہیں
’کیونکہ وہ (بھائی) ریٹائر ہو چکے تھے اور میں خاندان میں اکیلا تھا جو کام کر رہا تھا اور سرکاری ملازم تھا۔ حکومت کو احساس ہوا کہ ان کا ہدف میں ہوں اس لیے میرے خلاف کارروائی کی گئی۔‘
انسٹھ سالہ جاوید احمد شاہ کی ریٹائرمنٹ میں چند ماہ ہی باقی تھے، جب انہیں گذشتہ سال نومبر میں ایسا ہی ایک خط موصول ہوا، جس میں انہیں ملازمت کے خاتمے کے بارے میں مطلع کیا گیا تھا۔
نثار احمد کی طرح انہیں بھی داخلی محکمانہ انکوائری کے حق سے محروم رکھا گیا اور وہ نہیں جانتے کہ انہیں اننت ناگ میں سرکاری لڑکیوں کے اسکول کے پرنسپل کے عہدے سے انہیں کیوں ہٹایا گیا تھا
خود پرتشدد عسکریت پسندی کے شکار جاوید احمد نہ صرف خود گولیوں کا نشانہ بنے بلکہ ان کے بہنوئی کو بھی باغیوں نے ہلاک کر دیا تھا۔ چنانچہ جب انہیں حکومت کا خط موصول ہوا جس میں ان کی برطرفی کو ’قومی سلامتی کے مفاد میں‘ سمجھا گیا، تو ان کے لیے یہ ہضم کرنا مشکل ہو گیا
انہوں نے اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا کہ ’22 اکتوبر 1993 کو مجھے گولی لگنے سے متعدد زخم آئے۔ یہ واقعہ بجبہاڑہ کے بازار میں پیش آیا تھا۔ تب سے میری ٹانگوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور اب بھی میں بیساکھیوں اور لاٹھیوں کے بغیر نہیں چل سکتا۔ میری زندگی ایک کمرے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔‘
ان کے بقول: ’میری بھابھی اور میری بڑی بہن کا شوہر حزب المجاہدین کے ہاتھوں مارے گئے۔ میرا بہنوئی پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل کے طور پر کام کرتے تھے۔ 14 اکتوبر 2000 کو عسکریت پسندوں نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ باغیوں نے انہیں غدار اور سرکاری مخبر قرار دیا۔ مجھے اکیلے ہی اس کی قبر کھودنی پڑی۔ گھر میں کوئی مدد کرنے نہیں آیا کیونکہ محلے کے سبھی لوگ ہمارا بائیکاٹ کر رہے تھے۔ ہمارے پڑوسی سمجھتے ہیں کہ ہم سرکاری مخبر ہیں لیکن حکومت ہمیں عسکریت پسند سمجھتی ہے۔ آپ مجھے بتائیں کہ میں کون ہوں کیونکہ میں یقینی طور خود نہیں جانتا۔ یہ سراسر ستم ظریفی ہے۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ اپنی تکلیف کو بیان کر سکوں۔ میں ہاتھ جوڑ کر حکومت سے اپیل کرنا چاہوں گا اور ان سے کہوں گا کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور یہ کہ میں قصوروار نہیں ہوں۔‘
اگرچہ نثار احمد اور جاوید احمد کا خود حکام کے ساتھ براہ راست تنازع نہیں تھا، لیکن آرٹیکل 311 کے تحت برطرف کیے گئے تمام ملازمین کے لیے ایسا نہیں ہے
2010 میں ایک ملازم پر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور قتل کی کوشش کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور تقریباً ایک ماہ تک انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا۔ عدالت نے انہیں 2019 میں بری کر دیا کیونکہ انہوں نے مقدمے میں گواہ کو پیش کرنے اور انکوائری میں ناکامی پر استغاثہ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا
اگست 2016 میں میر کو پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت پتھراؤ کے الزام میں حراست میں لیا گیا اور جموں کی کوٹ بھلوال جیل میں چار ماہ تک بند رکھا گیا۔ جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے اسی سال دسمبر میں ان کی نظربندی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی سزا کو منسوخ کر دیا تھا۔ حکام پر تنقید کی کہ وہ میر کے حوالے سے وہ مواد فراہم کرنے میں ناکام رہے جس کی بنیاد پر انہیں احتیاطی حراستی قانون کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔
اپنے خلاف پہلے لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئے میر کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف یہ کارروائی اس لیے کی گئی کیوں کہ ان کا نظریہ الگ تھا انہیں امید تھی کہ کشمیر میں بدعنوانی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوں گی۔
اقبال کہتے ہیں کہ مجرمانہ کارروائیوں کا سامنا کرنے والے سرکاری ملازمین معمول کی کارروائی کے دوران معطل رہیں گے
آخر میں حکومت یہ دیکھے گی کہ آیا مجرمانہ کیس کا نتیجہ بریت پر ہو گا یا یہ سزا برقرار رہے گی۔ اس سزا کے بعد حکومت برطرفی یا مزید سخت اقدامات لے سکتی ہے جو اس سے قبل نہیں لیے گئے۔‘
برطرفی کے حکم کی مذمت کرتے ہوئے نے کہا: ’میرے کچھ طالب علم پولیس افسر ہیں باقی کچھ بھارتی فوج میں ہیں۔ وہ ایسے عہدوں پر کیسے ہوتے اگر میں نے انہیں اچھی تعلیم نہ دی ہوتی۔‘
ان کے بقول: ’اگر میری کتابوں کی وجہ سے اور میری تحریروں کی وجہ سے میں قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ بھارت ایک کمزور ملک ہے، یہ جمہوریت نہیں ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں حکومت سے درخواست کروں گا کہ وہ مجھے بحال کیا جائے۔ میں ڈپارٹمنٹ میں تھا، کیونکہ میں تھا کیوں کہ میں اس قابل تھا۔ میں نے یہ مقام حاصل کیا تھا۔‘
دوسری جانب حکومتی اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے سماجی کارکن اور معروف خاتون اسکالر اطہر ضیا کا کہنا ہے کہ برطرفی کے نئے قوانین ’نریندر مودی کی زیرقیادت ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی اس نئی پالیسی کا حصہ ہیں، جہاں خطے میں اظہار رائے کی آزادی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’بھارتی انتظامیہ اب کشمیر کی عوام کو ملک دشمن، دہشت گردوں کے ہمدردوں کے طور پر درجہ بندی کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور ان نئے قوانین کے ذریعے حکومت مزید اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ کسی بھی قسم کی بات چیت یا گفتگو یا اختلاف رائے کے لیے کوئی جگہ نہ بچے۔‘
وہ کہتی ہیں ”میرے خیال میں یہ کشمیر کو پنجرے میں بند کرنے جیسا ہے۔ یہ ایک غیر انسانی سلوک ہے جہاں انصاف کے حوالے سے تمام قوانین کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور اختلاف رائے کے ہر عمل کو جرم قرار دیا جا رہا ہے۔ آپ محض کسی کے ساتھ صرف رشتہ داری ہونے کی وجہ سے اپنی ملازمت کھو سکتے ہیں۔“
ایڈووکیٹ حبیل اقبال نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’بھارتی آئین کا آرٹیکل 311 ملازمین کو من مانی برطرفی کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی سرکاری ملازم کو اس وقت تک برطرف نہیں کیا جا سکتا، جب تک کہ اسے نوٹس نہیں دیا جاتا اور اس کے موقف کو سنا نہیں جاتا اور اس کے خلاف تادیبی انکوائری شروع نہیں کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ کسی ملازم کے رینک کو اس سے کم تر افسر کی جانب سے کم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن آرٹیکل 311 کی ذیلی شق کے تحت کسی شخص کو اس صورت میں کسی مناسب انکوائری کے بغیر برطرف کیا جا سکتا ہے جب کوئی ایسا معاملہ ہو کہ ملک کا صدر یا گورنر مطمئن ہو کہ ایسا کرنا ریاست کی سلامتی کے مفاد میں ہے۔‘
واضح رہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر انتظامیہ نے گذشتہ سال اپریل میں اس ذیلی شق کے تحت تحقیقات کے بغیر ملازمین کی خدمات کو ختم کرنے کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس بنانے کا اعلان کیا تھا
اقبال کہتے ہیں ’اس شق کا استعمال کبھی شاذونادر ہی ہوا ہوا ہے، صرف قانونی اصطلاح میں بات کی جائے تو حکومت کا یہ اقدام کیا واقعی قانون کے مطابق ہے؟ اس کا جواب ہاں ہے، لیکن کیا انہوں نے یہ منصفانہ طریقے سے کیا ہے؟ ایسا نہیں ہے۔
جب آپ اسے کسی کو دبانے کے لیے استعمال کر رہے ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد ملازم پر برے اثر انداز ہونا ہے اور بنیادی طور پر یہ آزادی اظہار رائے اور آزادانہ سوچ کے حق پر حملہ ہے۔‘
16 ستمبر 2021 کے ایک اور حکم نامے کے تحت حکومت نے اس وفاقی خطے (بھارت میں مودی حکومت نے اگست 2019ع میں بھارتی آئین سے ریاست کی نیم خود مختیار حیثیت کا خاتمہ کرتے ہوئے جموں کشمیر کو تین وفاقی خطوں میں تقسیم کر دیا تھا) میں ملازمت کے قوانین کو سخت کرتے ہوئے ایک سرکاری ملازم کو اپنے رشتہ داروں کی حکومت مخالف کارروائیوں کے لیے ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان پر ’جاسوسی، غداری، دہشت گردی اور بغاوت جیسے الزامات عائد کی
ترمیم شدہ قواعد کے تحت ایسے تعلقات کی اطلاع دینے میں ناکامی کو ’بھارت کے قومی اور سلامتی کے مفادات کے لیے بالواسطہ یا بالواسطہ طور پر دشمنی کے طور پر تصور کیا جائے گا جو کسی سرکاری ملازم کی خدمات کے خاتمے کی بنیاد ہو سکتی ہے.