مغرب کی اذان کے ساتھ ہی تختہ سیاہ پر چلتے ہمارے استاد کے ہاتھ یکدم رک گئے، ساتھ ہی دھیمی آواز میں سرگوشیاں ہو نے لگیں اور اچانک گیٹ کے باہر سے اونچی آوازیں آنے لگیں۔ ہم جماعت تیزی سے باہر لپکے تو اسد اللہ خان تقریباً رونے ہی والا تھا
کہنے لگا: میری والدہ نے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرکے مجھے نئی موٹر سائیکل لے کر دی تھی اور اب وہ غائب ہے۔ ہم سب بھی پریشان ہوکر یہاں وہاں دیکھنے لگے۔ موبائل فون کا ابتدائی دور تھا، ایک دوست کے پاس فون تھا، تو وہ فوری اپنے جاننے والے بااثر افراد کو فون کرنے لگے کہ دوست کی موٹر سائیکل چوری ہوچکی ہے، مدد کے لیے قریبی تھانے آجائیں۔ آخرکار ایک کونسلر صاحب نے تھانے پہنچنے کی ہامی بھر لی
ہم پانچ سات لڑکے جلدی جلدی تھانے پہنچے۔ تھانے میں کرسی پر نیم دراز سپاہی کو بتایا کہ موٹر سائیکل بالکل نئی تھی جو اب چوری ہوچکی ہے، آپ مہربانی کریں ایف آئی درج کرکے موٹر سائیکل تلاش کرنے میں مدد کریں
برف کی طرح ٹھنڈے مزاج والے اہلکار نے کہا ’صاحب‘ نہیں ہیں۔ ایف آئی آر کا فیصلہ وہی کرتے ہیں۔ ہم نے مدد طلب نظروں سے اپنے ساتھ آئے کونسلر صاحب کو دیکھا۔ انہوں نے پولیس اہلکار کو اپنا تعارف کروایا تو سب سے پہلی مہربانی یہ ہوئی کے سپاہی نے کرسی کی پشت سیدھی کرلی۔ فون اٹھایا اور تھانے دار یعنی ایس ایچ او کو فون ملایا گیا
کونسلر صاحب نے ریسیور ہاتھ میں لیا اور بات چیت شروع ہوئی اور کچھ دیر میں فون بند ہوگیا۔ کہنے لگے کہ ‘بڑے صاحب کہہ رہے ہیں وائرلیس میسج چلا دو اور رجسٹر میں انٹری کرلو باقی کارروائی صبح کریں گے’۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ ابھی کے لیے اللہ حافظ
ہم سب باہر نکل آئے اور اگلی صبح کالج جانے کے بجائے دوبارہ اپنے دوست کے ہمراہ تھانے پہنچے۔ تھانے میں ’صاحب‘ یعنی ایس ایچ او کلف لگے سفید کپڑوں میں آنکھیں بند کیے گہری سوچ میں تھے۔ بہرحال ایف آئی آر درج کرنے کی کارروائی شروع ہوئی
ایک اہلکار نے کہا رکشہ کروالو۔ ہم جائے واردات پر آپ کے ساتھ جائیں گے۔ آنے اور جانے کا رکشہ ہمارے خرچ پر کروایا گیا۔ تھانے واپس آئے۔ ایف آئی آر والی کتاب کھولی اور ہماری جانب دیکھنے لگے۔ کہا کاربن پیپر؟ ہم نے کہا وہ کیوں؟ کہنے لگے باہر دکان پر جاؤ اور دو تین سادہ صفحے اور کاربن پیپر خرید لاؤ۔ خیر جلدی سے بھاگ کر یہ کام بھی کردیا۔ رکشے کا کرایا اور پھر بیس روپے کے کاربن پیپر کے بعد جیب خالی ہوچکی تھی۔ ایف آئی آر کے بعد اسد اللہ نے ڈرتے ہوئے پوچھ ہی لیا اب موٹر سائیکل مل جائے گی؟ مسکرا کر سپاہی نے کہا، بچے اب یہاں سے نکل لو، مل گئی تو خود فون کردیں گے، بچہ سمجھ کر چائے پانی چھوڑ رہے ہیں
یہ تو تھا ہمارا تھانے کا پہلا تجربہ۔ موٹر سائیکل تو بہرحال کبھی نہیں ملی لیکن تھانے کا یہ قصہ یادداشت میں آج تک موجود ہے۔ اب یہ یاد ایسے آیا کہ ہم کراچی کے سینئر کرائم رپورٹر اے ایچ خانزادہ کے ساتھ دن بھر کی خبروں پر مغز ماری کر رہے تھے کہ وہ اچانک چونک کر میری طرف دیکھنے لگے، توقف کے بعد کہا کہ ایک خبر یہ بھی ہے کہ اجمل پہاڑی سکھر جیل سے رہا ہوگیا ہے۔ کراچی آپریشن کے اہم کردار انسپکٹر توفیق زاہد کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزمان بھی اٹھارہ سال بعد بَری ہوگئے ہیں
میں نے ایک دم لقمہ دیا کہ خان صاحب، اجمل پہاڑی کا تو دس بارہ سال قبل اعترافی بیان سامنے آیا تھا کہ اس نے بھارت میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کی ہے، بلکہ جو بیان کیا تھا، وہ ایک پوری فلمی اسٹوری تھی، تو اب یہ کیسے ہوگیا کہ وہ بہت سے مقدمات میں بَری اور کچھ میں ضمانت پر رہا ہوچکا ہے۔ یہ تو خود نظامِ انصاف کی ناانصافی ہے
خانزادہ صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کبھی پولیس، تھانہ اور کچہری سے واسطہ پڑا ہے؟ اتنا کہنا تھا کہ پہلی مرتبہ کیسے اور کب پولیس اسٹیشن جانے کی ضرورت پڑی، وہ سب فلم کی طرح آنکھوں میں گھوم گیا۔ انہیں بھی وہی سب بتایا جو تحریر کے آغاز میں آپ نے پڑھ لیا ہے
میرا قصہ سن کر خانزادہ صاحب کہنے لگے کہ اب یہ بھی جان لو کہ کیسے کیس خراب ہوتا ہے اور کیسے ناقص نظام ملزم کے بَری ہونے کا سامان پیدا کرتا ہے۔ ابھی نور مقدم کیس میں بھی تو یہی سب تماشہ لگا ہوا ہے کہ تفتیش کی خامیاں ملزم کی رہائی کا راستہ ترتیب دے رہی ہیں۔ لیاری گینگ وار کا عزیر بلوچ بھی تو ایسے ہی ایک کے بعد ایک مقدمات سے بری ہوتا جا رہا ہے، اور پھر قندیل بلوچ کے قتل کے ملزمان بھی تو ایسے ہی رہا ہوگئے۔ پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد اے ایچ خانزادہ گویا ہوئے اور اپنی آب بیتی سنانے لگے
”کراچی کے حالات اس قدر خراب تھے کہ اخبار کے دفتر میں سب سے مصروف شخص کرائم رپورٹر رہتا تھا۔ دسمبر 1994ع کی سرد شام تھی، فون پر اطلاع ملی کہ ہفت روزہ تکبیر کے مدیر اعلیٰ صلاح الدین کو دفتر سے نکلتے ہوئے قتل کردیا گیا ہے۔ سب کام چھوڑ کر میں بھی وقوعہ پر جانے کے لیے نکل گیا۔ حملے کے فوری بعد صلاح الدین صاحب کو ان کا ڈرائیور کسی طرح سول اسپتال پہنچانے میں کامیاب ہوچکا تھا اور وہ خود بھی زخمی تھا۔ لیکن صلاح الدین صاحب جانبر نہ ہوسکے۔ انگریزی ماہنامے ہیرالڈ سے وابستہ مرحوم صحافی ادریس بختیار اور میں نے ایک اور صحافی ساتھی کے ساتھ مل کر پولیس کی درخواست پر ضابطے کی کارروائی مکمل کرنے کے لیے مرحوم صلاح الدین کی نعش کو شناخت کیا کہ یہ واقعی صلاح الدین صاحب ہی ہیں“
یہ معمول کی کارروائی ہوتی ہے جو عموماً گھر کے افراد یا قریبی عزیز سے مقتول کی شناخت کی تصدیق کے لیے کروائی جاتی ہے
خانزادہ صاحب کہنے لگے کہ ”ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ ہماری اس شناختی کارروائی کا پولیس کیا حشر کرے گی کیونکہ کچھ دن بعد عدالت سے آنے والے نوٹس نے ہم سب کو چونکا دیا۔ پولیس نے عدالت میں پیش کردہ چالان میں ہمیں صلاح الدین قتل کیس کا عینی شاہد قرار دے دیا تھا، حالانکہ ہم قتل کے کافی دیر بعد اسپتال پہنچے تھے اور اس سے زیادہ ہمیں کچھ معلوم تھا اور نہ کچھ دیکھا تھا۔ بہرحال عدالت میں ہم تینوں نے واضح کردیا کہ ہم اس قتل کے عینی شاہد نہیں ہیں، بس یہاں سے ابتدا میں ہی کیس خراب ہوا اور پھر آج تک یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ تکبیر کے مدیر صلاح الدین کو کس نے قتل کیا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی شرپسند نے جان بوجھ کر ہم تینوں صحافیوں کو راستے سے ہٹانے کی ایک کوشش بھی کی ہو، جس کی بعد میں مثال صحافی ولی خان بابر کیس سے مل جاتی ہے۔ ولی بابر کیس کے گواہوں کو بھی قتل کردیا گیا تھا“
خانزادہ صاحب کہتے ہیں کہ ”جب بھی کبھی کسی کیس میں کوئی ایک لفظ بھی جھوٹا ثابت ہوجائے تو سمجھیں کیس خراب ہوچکا ہے اور اب ملزم کو سزا ملنے سے زیادہ امکان بَری ہونے کے ہیں۔ ایف آئی آر میں دفعات اور پیش آنے والے واقعات کو کسی بھی موقع پر غلط ثابت نہیں ہونا چاہیے ورنہ پورے وقوعہ پر ہی وہ سوالیہ نشان آتا ہے، جس کا جواب ملزم کی بریت کی صورت ملتا ہے“
خانزادہ صاحب نے بتایا کہ ”ایسے بے شمار واقعات ہیں اور ایسا ہی کچھ ہائی پروفائل مقدمات میں ہوتا ہے۔ بعض اوقات انتقام کی آگ کچھ ایسی ہوتی ہے کہ شکایت کنندہ وہ تمام جرائم بھی ملزم کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے، جو کبھی ہوئے ہی نہیں اور نتیجتاً سارا واقعہ ہی جھوٹا قرار پاتا ہے۔ ہائی پروفائل مقدمات کو حل کرنے کے لیے پولیس پر شدید دباؤ ہوتا ہے، اس لیے ایسا بھی ہوتا کہ کسی ایک ملزم پر اضافی جرم بھی ڈال دیے جاتے ہیں اور نتیجہ کچھ یوں نکلتا ہے کہ کوئی ایک بھی الزام غلط ثابت ہونے پر شک کا فائدہ تمام ہی الزامات سے جان چھڑوا دیتا ہے۔ مزید یہ کہ پولیس دورانِ تفتیش رہی سہی کسر بھی ناقص انتظامات کی وجہ سے پوری کردیتی ہے“
ساری گفتگو کے بعد یہ اور ضروری ہوگیا تھا کہ اب ان ساری خامیوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش کریں جو ملزم کو مجرم ثابت نہیں ہونے دیتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بے گناہ جیل میں اور گناہ گار آزاد گھومتا ہے۔ اس کے علاوہ تھانہ کلچر اور پولیس کے نظامِ تفتیش پر بھی کچھ بات کریں گے جو عام آدمی کو اس قدر خوفزدہ رکھتا ہے کہ لوگ تھانے یا کچہری جانے کے نام سے ہی ڈر جاتے ہیں
تھانہ کلچر ہے کیا؟
تھانہ کے ساتھ لفظ کلچر ہی وسعت بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ کلچر ظاہر ہے کہ دو چار برس میں تو بنتا نہیں ہے۔ تھانہ کلچر تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ برِصغیر پاک و ہند میں آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ پاکستان میں کم از کم اس کے خلاف آوازیں تو اٹھائی جاتی ہیں اور کچھ نہ کچھ تبدیلی بھی آرہی ہے لیکن سالوں کا بگاڑ دنوں میں کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے۔ اس کلچر کا ذمہ دار کوئی ایک فرد نہیں ہوتا، سیاست کے ایوانوں سے بیوروکریسی کے آرام کدوں تک اور پھر بڑے صاحب سے لے کر سپاہی تک سب ہی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں
کمزور سسٹم ناصرف اس کلچر کو دوام بخشنے کا جواز فراہم کرتا ہے بلکہ زندہ بھی رکھتا ہے اور اسی لیے سسٹم بدلنے کی کوشش کبھی کبھار ہی ہوتی ہے۔ یہ سسٹم دو طرفہ ٹریفک کی طرح ہے، جس میں ہر ذمہ دار اپنی کرپشن کی منزل تک حالتِ سفر میں ہے۔ اس کلچر میں سیاسی یا مالی فوائد کی خاطر ایس ایچ او اور عملہ متعین کیا جاتا ہے۔ اس کلچر میں ایک متوازی غیر سرکاری نظام بھی ساتھ چلتا ہے، جو اصل میں پیسہ کمانے کی فیکٹری ہوتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ سرکاری نفری کے ساتھ ساتھ پولیس کے لیے کام کرنے والے فری لانسر، جو پولیس کے لیے مخبری کا کام بھی کرتے ہیں اور ریکوری کا بھی
ایسا ہر جگہ نہیں ہوتا لیکن بہرحال مختلف اوقات میں تھانے اس کلچر کا حصہ بنتے اور نکلتے رہتے ہیں۔ اوپر والے صاحب جب سختی کریں تو تھانہ اپنے آپ کو فوری راہِ راست پر لے آتا ہے، لیکن اگر صاحب ہی حصہ مانگ لیں تو پھر سمجھیں موجیں۔ تھانے دار کی تعیناتی سیاسی وابستگی اور فائدہ حاصل کرنے کے لیے بھی اپنی مرضی سے کی جاتی رہی ہے تاکہ مخالفین کو سبق سکھایا جاسکے۔ ماضی میں ایسی اطلاعات بھی ملتی تھی کہ تھانے دار نے یہ یقین دہانی کروائی کہ وہ اوپر تک زیادہ حصہ پہنچائے گا
تھانہ کلچر کی بہتی کنگا میں بڑے لوگوں سے لے کر سپاہی تک سب ہاتھ دھوتے ہیں
پولیس کی کمائی کے ذرائع کون سے ہوتے ہیں؟
ہر تھانے کے محل وقوع کے مطابق اس کی کمائی کے ذرائع سے متعلق اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن عمومی طور پر بازار میں لگنے والے اسٹال جو سڑک یا فٹ پاتھ پر قابض ہوں، منشیات کی فروخت کی اجازت، کراچی میں گٹکے اور ماوے کی فروخت، جسم فروشی کے اڈے، جوئے کے اڈے اور ایرانی تیل یا اسمگل شدہ سامان کی فروخت کمائی کے بنیادی ذرائع ہوتے ہیں
ایسے افراد بھی موجود ہوتے ہیں، جو تھانے کی سرپرستی میں شرفا کو تنگ کرتے ہیں، پیسے بٹورتے ہیں اور تھانے کو اس کا باقاعدہ حصہ ملتا ہے۔ جرائم پیشہ افراد یا عام آدمی سے کسی جرم میں بغیر مقدمہ درج کیے رہائی یا پھر گرفتار نہ کرنا اور ایسے بہت سے کام ہیں، جو جرم کے زمرے میں آتے ہیں لیکن تھانے کے تعاون سے باآسانی ہو رہے ہوتے ہیں
تھانے میں کام کیسے ہوتا ہے؟
ہر تھانے میں شفٹ میں کام ہوتا ہے لیکن ایس ایچ او کی شفٹ چوبیس گھنٹے ہی ہوتی ہے۔ ایس ایچ او یعنی اسٹیشن ہیڈ آفیسر تھانے کا مالک ہوتا ہے, اس کی مرضی سے ہی ایف آئی آر کا اندراج ہوگا اور اسی کی مرضی سے پولیس پارٹی کسی جگہ چھاپہ مارے گی
ہر شفٹ کا انچارج ہیڈ محرر ہوتا ہے، جو تھانے دار یعنی ایس ایچ او کا نمائندہ ہوتا ہے۔ ایس ایچ او صاحب ڈی ایس پی یا اے ایس پی کو جوابدہ ہوتے ہیں اور یہ ترتیب ایس پی، ایس ایس پی، ڈی آئی جی، ایڈیشنل آئی جی سے آئی جی تک جاتی ہے
ایف آئی آر سے گرفتاری تک ذمہ داری آپریشنل پولیس کی ہوگی اور ساتھ ہی متوازی نظام تفتیشی پولیس کا ہوتا ہے، جو ملزم سے تفتیش، عدالت میں چالان سمیت دیگر تفتیشی امور کی ذمہ دار ہوتی ہے
ایف آئی آر اور این سی او کیا ہوتی ہے؟
تھانے میں دو طرح کی اطلاعات کا اندراج ہوتا ہے۔ ایک وہ جو براہ راست جرم ہو، ایسے عمل کی ایف آئی آر کاٹی جاتی ہے اور پولیس بغیر کسی عدالتی وارنٹ کے گرفتاری کا اختیار رکھتی ہے اور دوسرا وہ جو صرف ضابطے کی اطلاع ہو یا ناقابلِ دست اندازی جرم ہو، جیسے اطلاع گمشدگی وغیرہ جس کے لیے این سی او کاٹی جاتی ہے یعنی نان کاگنیزایبل آفینس (Non-Cognizable Offence) کی رپورٹ
ایس ایچ او صاحب کو جرم کی نوعیت طے کرنے کا بھی اختیار ہوتا ہے یعنی وہ کسی جرم کی اطلاع یا کسی درخواست پر یہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں کہ یہ قابلِ ایف آئی آر جرم ہے یا صرف اس کی اطلاع رجسٹر میں درج کرلی جائے
ایس ایچ او صاحب ہیڈ محرر کی مدد سے قانونی دفعات کا تعین بھی کرتے ہیں کہ کس جرم کو کس قانونی دفعہ کے تحت پرکھا جانا چاہیے۔ تفتیش کے بعد عدالت یہ جائزہ سب سے پہلے لیتی ہے کہ آیا دفعات کا درست استعمال کیا گیا ہے یا نہیں
ایف آئی آر میں لگنے والی دفعات کہاں سے آئیں؟
قابلِ دست اندازی جرائم کا دائرہ کار ایک قانون نے طے کیا ہے، جسے پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کہا جاتا ہے۔ پی پی سی میں جرم کی دفعات کے لاگو ہونے کا مکمل طریقہ کار درج ہے۔ پاکستان پینل کوڈ تقسیمِ ہند سے قبل لارڈ میکالے کا 1860ع میں بنایا ہوا قانون ہے، جس میں ترامیم ہوتی رہی ہیں
تھانے دار ایف آئی آر کا اندراج کیوں نہیں کرنا چاہتا؟
اس سوال کے دو جواب ہیں اور ایف آئی آر درج کروانے کے لیے قانون میں موجود ایک راستہ بھی ہے۔ کوئی جرم سرزد ہوا، اطلاع دینے والے نے ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست کی اور پولیس نے ایسا کرنے سے اس لیے انکار کردیا کہ پولیس جرم کی نوعیت اور فوری دستیاب شواہد کے مطابق اسے جرم تصور کرنے کے لیے تیار نہیں تھی، لہٰذا ایف آئی آر کا اندراج نہیں کیا جاتا بلکہ صرف درخواست وصول کرلی جاتی ہے۔ مدعی کے پاس ایسے موقع پر راستہ ہوتا ہے کہ وہ عدالت سے قانون کے سیکشن 22 اے کے تحت رجوع کرے اور عدالت اختیار رکھتی ہے کہ وہ پولیس کو ایف آئی آر کے اندراج کا حکم دے
دوسری صورت یہ ہے کہ تھانے دار نہیں چاہتا کہ افسران بالا تک یہ صورتحال پہنچے کہ اس کے علاقے میں جرائم بڑھ رہے ہیں اس لیے اکثر ٹال مٹول سے بھی کام لیا جاتا ہے اور کم سے کم جرائم کے اندراج کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ صورتحال اب بدل رہی ہے کیونکہ اب لوگ افسرانِ بالا سے خود بھی رابطہ کر لیتے ہیں یا پھر میڈیا پر خبر چمکنے لگتی ہے اور تھانے دار کو خفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے
گرفتاری کب ہوتی ہے؟
قابلِ دست اندازی جرم کی ایف آئی آر درج ہونے کے بعد پولیس پارٹی ملزم کی تلاش شروع کر دیتی ہے اور گرفتاری کی صورت میں اگلے ہی روز ملزم کو عدالت میں پیش کردیا جاتا ہے اور اگر پولیس عدالت سے استدعا کرے کہ اسے تفتیش کے لیے ملزم درکار ہے تو عدالت عمومی طور پر مخصوص مدت کے لیے ملزم کو پولیس کے حوالے کر دیتی ہے لیکن ایسا تب ہی ممکن ہوتا ہے کہ ملزم یا تو درخواست ضمانت دائر نہ کرے یا پھر عدالت ضمانت منظور نہ کرے اور ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردے
عدالت یہ بھی اختیار رکھتی ہے کہ پولیس کی درخواست کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے ملزم کو جوڈیشل کسٹڈی یعنی کیس کا فیصلہ ہونے تک جیل بھیج دے۔ بعض اوقات ملزم ایف آئی آر کے بعد گرفتاری سے بچ کر عدالت پہنچ جاتا ہے اور ضمانت دائر کر دیتا ہے
تھانے میں ”لتر پریڈ” کیوں ہوتی ہے؟
ملزم کے بیان کی روشنی میں تفتیش کی گاڑی آگے بڑھتی ہے لیکن اس گاڑی کو جب بریک لگ جائے تو پھر پولیس کا چھتر چلتا ہے اور خوب پٹائی کرتا ہے، جس کا کوئی قانونی جواز نہیں ہوتا اور نہ ہی جسمانی ریمانڈ کا یہ مطلب اخذ کیا جانا چاہیے
ایسا ہر کسی کے ساتھ نہیں ہوتا کیونکہ خوش قسمتی سے پولیس بہرحال پہلے ہی دن اس بات کا اندازہ لگا لیتی ہے کہ گرفتار ہونے والا کتنا بڑا طرم خان ہے لیکن بعض اوقات پولیس بے حد زیادتی کا باعث بھی بنتی ہے۔ اس کے لیے مخالفین پیسہ بھی چلاتے ہیں اور کچھ پولیس کی تربیت اور مزاج بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ گھی ٹیڑھی انگلی سے نکالنے کی عادت ہوتی ہے
پاکستان کا پولیسنگ سسٹم اب بھی بوسیدہ ہے۔ پولیس کے پاس تفتیش کے لیے جدید آلات اب تک نہیں ہیں، اس لیے بھی مار پیٹ سے اگلوانا ہی ان کی مجبوری ہوتی ہے
اعترافی بیان اور ثبوت سے کیا مراد ہے؟
پولیس کو دیے گئے بیان کی قانونی حیثیت کمزور ہوتی ہے چاہے اس کی وڈیو ریکارڈنگ ہی کیوں نہ کی گئی ہو۔ اکثر اوقات ملزمان عدالت میں پیش ہوتے ہی بیان دیتے ہیں کہ پولیس نے انہیں زبردستی بیان دینے پر مجبور کیا تھا جس کے بعد اعترافی بیان بے معنی ہوجاتا ہے
کسی بھی ملزم کو سزا دلوانے کے لیے مجسٹریٹ کے سامنے بیان کے ساتھ ساتھ ناقابلِ تردید شواہد جمع کرنا بھی ضروری ہوتے ہیں، جن میں جائے وقوعہ سے ملنے والے بہت سے شواہد کے ساتھ ساتھ عینی شاہدین کا بیان بھی اہم ہوتا ہے
پولیس کب ملزمان کو سزا دلوانے کے قابل ہوگی؟
عبید کے ٹو سے لے کر اجمل پہاڑی اور لیاری کینگ وار کے عزیر بلوچ تک ایسے بے شمار ہائی پروفائل کیسز ہیں، جہاں پولیس ایسے شواہد ہی جمع نہیں کرسکی، جن کی مدد سے عدالت میں جرم ثابت کرسکے
اس حوالے سے دو قسم کی رائے پائی جاتی ہیں، جیسے کہ پولیس نے جان بوجھ کر مقدمے کے اندراج کے دوران ایسی کوتاہیاں کی تھیں کہ ملزمان بچ نکلے۔ اب ایسا سیاسی یا مالی کسی بھی وجہ سے ممکن ہوسکتا ہے لیکن اس سے بڑھ کر استعداد کا معاملہ بھی ہے
بوسیدہ نظام کو پرانے انداز سے چلانے کی کوشش عدالت میں ملزم کے لیے فائدے کا باعث بن جاتی ہے۔ یوں کہہ لیں کہ ایف آئی آر کے اندراج اور پھر تفتیش میں ایسی غلطیاں ہوتی ہیں، جو وکیل باآسانی سمجھ لیتا ہے اور عدالت میں کیس جیت جاتا ہے۔ پھر جو ثبوت موجود ہوتے ہیں، وہ ایسے انداز میں پیش اور جمع کیے جاتے ہیں کہ ملزم بچ نکلتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہت سے اہم پہلو نظر انداز ہوجاتے ہیں، جو عدالت میں پکڑتے جاتے ہیں
ایک اہم چیز کسی بے گناہ کو عداوت کی وجہ سے مقدمے میں پھنسانے کرنے کی کوشش بھی ہے، جو بعد میں ان تمام لوگوں کو بھی بچانے کا سبب بنتی ہے، جو واقعی گناہ گار ہوتے ہیں
قانون میں اصلاح تو حکومت اور پارلیمان کی سطح پر ہونے والا کام ہے اور اس پر اب تک بہت کم کام ہوا ہے۔ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اپنے زمانہ وکالت میں کرمنل کیسز کے ماہر تھے، اس لیے انہوں نے اپنے دور میں ماڈل کورٹس سمیت بہت سے ایسے کام کرنے کی کوشش کی، جس سے بہت سے قانون سمجھنے والے افراد نے اختلاف ضرور کیا لیکن ان کے اقدامات نے کچھ نہ کچھ اثر ضرور کیا۔ ان کے دور میں پی پی سی سے متعلق بہت سی تشریحات کو ذیلی عدالتوں میں غلط استعمال کرنے سے بھی روکنے کی کوشش کی گئی تھی
پولیس کے نظام کو بہت سے قابل پولیس افسران نے بھی وقتاً فوقتاً بدلنے کی کوشش کی ہے۔ اگر سندھ پولیس کی ہی بات کی جائے تو حالیہ چند برسوں میں سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے سپاہیوں کی بھرتی کے طریقہ کار کو شفاف بنانے سمیت بہت سے معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش کی تھی
کراچی پولیس کے افسر غلام نبی میمن کافی عرصے برطانیہ میں سرکاری تعنیاتی کے بعد واپس آئے تو کراچی پولیس چیف تعینات ہوئے تھے اور سب سے پہلے انہوں نے ایس ایچ او کو بذریعہ امتحان لگانے کا فیصلہ کیا تھا
انہوں نے پولیس کو اعتماد دیا تھا کہ جرم کے اندراج سے گریز نہ کیا جائے کیونکہ وہ درج مقدمات کی تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں کوئی باز پرس نہیں کریں گے۔ غلام نبی میمن نے ماڈل تھانے کا تصور متعارف کروایا تھا، جس کے تحت تھانے کے تشخص کو بہتر بنانے کے لیے خوبصورت عمارت سے لے کر پولیس کی تفتیش اور کام کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے تھے
پولیس چیف کی خواہش پر گٹکا اور ماوا جیسی مضر صحت اشیا کے استعمال کو روکنے کے لیے قانون سازی تجویز کی گئی تھی۔ تھانہ کلچر ختم کرنے کے لیے سب سے بنیادی بیماری یعنی تھانہ چلانے کے لیے سرکار کے بجائے ایس ایچ او کو خود مال جمع کرنے جیسے مرض کی نشاندہی کی گئی اور بجٹ فراہم کیا گیا تھا
بدقسمتی سے تھانے میں موجود پولیس موبائل اور موٹر سائیکل کے لیے انتہائی ناکافی ایندھن فراہم کیا جاتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ لکھنے کے لیے قلم اور کاغذ بھی ضرورت سے کم دیے جاتے ہیں۔ کوئی بلب یا ٹیوب لائٹ بھی خراب ہوجائے تو سرکار سے رقم ملنا ممکن نہیں ہوتا
پولیس اہلکاروں کے لیے دورانِ ڈیوٹی کھانے کے لیے کچھ بھی انتظام نہیں ہوتا۔ اب کوئی پولیس چیف اس قدر تبدیلی تو خود نہیں لاسکتا کہ وہ سرکار کی مدد کے بغیر تھانوں کو مالی خود مختاری دے دے، اس لیے ماڈل تھانے بنائے گئے تاکہ ان کی بہتر کارکردگی حکومت سے مزید مدد کا جواز فراہم کرسکے
غلام نبی میمن کے بہت سے منصوبوں کو ان کے بعد آنے والے پولیس چیف نے ویسے ہی روک دیا تھا، جیسے عمومی طور پر ہمارے ملک میں ہر جگہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے کوئی پالیسی اپنا رنگ دکھانے سے قبل ہی ماند پڑجاتی ہے۔ لیکن ایک مرتبہ پھر غلام بنی میمن کو کراچی پولیس چیف مقرر کیا گیا ہے اور اس سوال کا جواب وقت ہی دے گا کہ وہ اب بھی نظام میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کے خواہش مند ہیں یا بس وقت گزارنے کی پالیسی پر کاربند ہوں گے
اب آجاتے ہیں اس سوال کی جانب کہ پولیس کب مجرموں کو سزا دلوانے کے قابل ہوجائے گی۔ اس سوال کے جواب کے لیے یہ سمجھنا ہوگا کہ تمام تر خستہ حالی کے باوجود پولیس روزمرہ کا کام کر ہی لیتی ہے، بس پھنس وہاں جاتی ہے، جہاں سیاست یا مال اپنی طاقت دکھا دے
قانون میں ضرورت کے مطابق تبدیلی بہرحال لازمی ہے لیکن اس سے پہلے پولیس کے جوان کی تربیت کو جدید اصولوں کے مطابق کرنا ہوگا۔ پولیس کا جوان عزت کا مستحق ہے اس لیے ضروری ہے کہ تنخواہ اس قدر ضرور ہو کہ ایماندار آدمی کا باآسانی گزارا ہوسکے اور عزت نفس باقی رہے۔ ماضی میں پاکستان میں موٹر وے پولیس کی پُرکشش تنخواہوں کا جواز اچھی اور ایماندارانہ روایت سے مل جاتا ہے۔ اس لیے یہی ماڈل دیگر پولیس سسٹم پر بھی لاگو کیا جاسکتا ہے
تھانوں کو ضرورت کے مطابق بجٹ ملنا چاہیے اور تفتیش کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت دی جانی چاہیے۔ کام تو ویسے بھی چل ہی رہا ہے لیکن جدید دنیا میں اب شاید زیادہ وقت تک اس بوسیدہ نظام کی عمارت قائم نہیں رہ پائے گی اور ناانصافی کے شور کو دبانا ممکن نہیں ہوسکے گا۔ نظامِ انصاف کی بہتری ہی ترقی کی جانب اہم ترین قدم ہے.
بشکریہ : ڈان نیوز