شبر زیدی پر الزام ہے کہ انہوں نے بحریہ ٹاؤن اور ایڈن گروپ سمیت بڑے پراپرٹی ٹائیکون کے لئے 500 ارب روپے کا ٹیکس فراڈ کر کے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا ہے
اس سلسلے میں فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کے رکن شاہد حسین اسد نے چئیرمین نیب کو ایک درخواست ارسال کی ہے، جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ سابق چئیرمین ایف بی آر شبر زیدی نے بحریہ ٹاؤن، ایڈن گروپ اور دیگر بڑے پراپرٹی ٹائیکونز کو ناجائز طور پر فائدہ پہنچانے کے لئے 500 ارب کا ٹیکنیکل ٹیکس غبن کیا ہے۔ جس سے قومی خزانے کو 500 ارب کا نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
شاہد حسین اسد نے اپنی درخواست میں لکھا ہے کہ مذکورہ پراپرٹی ڈولپرز اپنے لئے مراعات حاصل کرنے کے لئے اس وقت کے چئیرمین ایف بی آر شبر زیدی کے پاس آئے تھے اور ان سے فکسڈ ٹیکس ریجیم کی استدعا کی تھی۔ اس کے لئے شبر زیدی نے سر توڑ کوششیں کیں، تاہم آئی ایم ایف نے یہ راہ بند کردی اور کہا کہ فکس ٹیکس سے محصولات کا حجم بڑھتا نہیں ہے، بلکہ ٹیکس دینے کے رجحان میں واضح کمی واقع ہوتی ہے۔ اپنی ان کوششوں میں ناکامی کے بعد شبر زیدی نے دوسرے تکنیکی طریقے اختیار کئے۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ شبر زیدی نے تین دسمبر کو اپنے آفس سے ایک آرڈر بھی جاری کیا، جس میں پراپرٹی ڈولپرز کے ٹیکس کیسز کی سماعت کے لئے اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں ایک ایک سرکل دفتر قائم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ لاہور میں قائم آفس نے ملتان، بہالپور، ساہیوال اور لاہور کے کیسز کو ڈیل کرنا تھا جبکہ اسلام آبد آفس نے اسلام آباد، راولپنڈی، فیصل آباد،گجرانولہ، سیالکوٹ اور پشاور کے کیسز کو دیکھنا تھا۔
فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کے رکن شاہد حسین اسد نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ ملک میں ڈولپرز اور ایف بی آر کے درمیان بارہ ہزار کیسز ہیں۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک افسر تین سے چار ھزار ٹیکس کلیکشن، ویلیو ایڈڈ ٹیکس، سیلز ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس سے متعلق کیسز اور ان کی اپیلیں دیکھ سکے؟
اس ساری صورتحال میں انتہائی اہم اور مضحکہ خیز بات یہ کہ کیپیٹل گین ٹیکس جمع کرنے یا اس سے متعلق معاملات دیکھنے کا اختیار کسی بھی دفتر کو نہیں دیا گیا ۔
واضح رہے کہ کیپیٹل گین ٹیکس کا حجم چار سو سے پانچ سو ارب روپیہ سالانہ بنتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پراپرٹی ڈولپرز یہ ٹیکس پراپرٹی کے خریداروں سے تو وصول کریں گے لیکن ٹیکس کے نام پر لئے گئے یہ پیسے حکومت کو دینے کی بجائے ان کی اپنی جیب میں چلے جائیں گے۔
درخواست میں واضح کیا گیا ہے کہ مبینہ طور پر شبر زیدی اور ایف بی آر کی ممبر آپریشنز محترمہ شکیل نے پراپرٹی ڈولپرز کو اربوں روپے کا ناجائز فائدہ پہنچا کر اپنے لئے ذاتی فوائد حاصل کئے ہیں، درخواست گزار نے استدعا کی ہے کہ اس معاملے کی مکمل انکوائری کی جائے.