’اب تو ماں کہتی ہے عید پر گھر مت آنا‘ بلوچ لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے عید احتجاجی کیمپوں میں گزاری

ویب ڈیسک

’پڑوس میں عید کی خوشیوں کا جشن منایا جا رہا ہے، بازاروں میں چہل پہل ہے سب چہرے خوش نظر آ رہے ہیں، لیکن ‏مجھ سمیت دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کا کیا، وہی پرانے قصے آج عید کے دن احتجاج کے لیے پلے کارڈ کی تیاریاں۔‘

سمی بلوچ کے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو جون 2009 میں سادہ کپڑوں میں ملبوث افراد نے اس وقت اغوا کیا، جب وہ بلوچستان کے علاقے خضدار کے ایک ہسپتال میں اپنی رات کی ڈیوٹی پر مامور تھے

سمی بلوچ اور ان کی بہن اس دن سے اپنے والد کے بازیابی کے لیے ہر سال عید بلوچ لاپتہ افراد کے لیے قائم کیمپ میں گزارتی ہیں

آج بھی سمی بلوچ کراچی پریس کلب کے باہر ان کئی خاندان والوں کے ساتھ موجود ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ان کے پیاروں کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا

لاپتہ افراد کے ان اہل خانہ کا مطالبہ ہے کہ اگر ان کے بھائی، باپ یا بیٹے نے کوئی جرم کیا ہے تو اُنہیں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے، اگر وہ زندہ ہیں تو ان کا پتہ بتایا جائے اور اگر مار دیے گئے ہیں تو ان کی لاش حوالے کر دی جائے

بلوچ لاپتہ افراد کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے رہنما عبدالقدیر بلوچ کا کہنا ہے ہر سال لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لگائے گئے کیمپ میں آنے والے بلوچ خاندانوں کی تعداد میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے

واضح رہے کہ سابق بینک ملازم عبدالقدیر کے بیٹے جلیل ریکی کو سنہ 2009 تین گاڑیوں میں آئے لوگ سریاب میں واقع ان کے گھر سے لے گئے. اگرچہ جلیل ریکی کو کوئٹہ سے اٹھایا گیا تھا لیکن ان کی تشدد زدہ لاش 2011ع میں اندازاً ایک ہزار کلومیٹر دور ایران سے متصل بلوچستان کے ضلع کیچ سے برآمد ہوئی. وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے رہنما عبدالقدیر بلوچ نے کوئٹہ سے اسلام آباد تک لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ لے کر لانگ مارچ بھی کیا تھا

’جب میرے شوہر کو اٹھایا گیا تو میں نو ماہ کی حاملہ تھی‘

لاپتہ افراد کے اہل خانہ کوئٹہ پریس کلب کے باہر قائم احتجاجی کیمپ میں احتجاج کیا، جن میں اکثریت خواتین کی تھی

نرگس فیاض علی اپنے آٹھ ماہ کے بچے کے ساتھ عید الفطر کے روز کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے منعقدہ ریلی اور احتجاجی مظاہرے میں شرکت کے لیے آئیں

نرگس فیض کہتی ہیں ’وہ جب ہمارے گھر میرے شوہر کو اٹھانے کے لیے داخل ہوئے تو اس وقت میں نو ماہ کی حاملہ تھی۔ ہمارے گھر میں واحد مرد میرا شوہر تھا لیکن وہ ان کو اٹھا کر لے گئے جس کے بعد سے خوشی تو دور کی بات، ہماری زندگی ہی اجیرن بن گئی ہے‘

اس ریلی میں محکمہ زراعت کے سینئیر افسر مہر گل مری کی بیٹی صائمہ مری اپنے دیگر رشتہ داروں کے ہمراہ شریک تھیں اور وہ اپنے والد کے لیے عید کے نئے کپڑوں کے ساتھ آئی تھیں

مہر گل کی بیٹی نے بتایا کہ ان کے والد کو 15 ستمبر 2015 کو ان گھر سے رات 2 بجے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ’6 سال سے زائد کے عرصے سے ہم اپنے والد کے انتظار میں ہیں اور اس انتظار میں میری دادی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔‘

خضدار سے تعلق رکھنے والی سائرہ بلوچ بھی عید الفطر کے روز اس ریلی میں شرکت کے لیے آئی تھیں

انہوں نے بتایا کہ ان کے دو نوجوان بھائیوں آصف بلوچ اور رشید بلوچ کو 31 اگست 2018ع کو نوشکی کے علاقے زنگی ناوڑ سے اس وقت حراست میں لیا گیا جبکہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ پکنک منا رہے تھے

ان کا کہنا تھا کہ ان کے بھائیوں کے ساتھ لاپتہ کیے جانے والے متعدد افراد کو چھوڑ دیا گیا، لیکن ان کے بھائی ابھی تک بازیاب نہیں ہوئے

وہ کہتی ہیں ’جب ایک گھر سے دو لوگ لاپتہ ہوں تو ہم لوگ کیسے عید کی خوشیاں منا سکتے ہیں۔ معلوم نہیں میرے بھائی کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ خوشی وہ لوگ مناسکتے ہیں جو زندہ ہوں لیکن ہم بظاہر زندہ تو ہیں لیکن عملی طور پر زندہ لاش ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کے دونوں بھائی شادی شدہ ہیں اور ان کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے ہیں

’میرے بھائیوں کے بچے نہیں جانتے ہیں کہ باپ کسے کہتے ہیں۔ جب ہمیں خود پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں تو ہم ان بچوں کو کیا بتائیں گے کہ ان کے باپ کہاں ہیں۔‘

بلوچستان کے دیگر شہروں میں بھی احتجاج

کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے دیگر شہرون تربت اور گوادر میں بھی لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاجی ریلیاں اور مظاہرے کیے گئے

تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے بتایا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کا سلسلہ گزشتہ 14 برس سے جاری ہے

انھوں نے کہا کہ ’جس گھر سے کوئی لاپتہ ہو ان کے رشتہ دار کیسے عید منا سکتے ہیں‘

عبد القدیر کا الزام ہے کہ رواں سال فروری میں پنجگور اور نوشکی کے ایف سی ہیڈ کوارٹرز پر حملے کے بعد سے تین سو سے زائد افراد کو جبری طور پر گمشدہ کر دیا گیا

’اب تو ماں کہتی ہے عید پر گھر مت آنا‘ اسلام آباد میں بھی احتجاج

قائد اعظم یونیورسٹی کے ایم فل کے طالب علم حفیظ بلوچ بھی ان بلوچ نوجوانوں میں سے ہیں جو پنجگور و نوشکی حملوں کے بعد لاپتا ہو گئے۔ انھیں سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد ایک مقامی اسکول سے مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے

ان کی بازیابی کے لیے اسلام آباد سمیت پاکستان کے دیگر کئی شہروں میں مظاہرے ہوئے جس کے بعد معلوم ہوا کہ حفیظ بلوچ محکمہ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کی حراست میں ہیں اور سی ٹی ڈی کا دعویٰ ہے کہ عبدالحفیظ بلوچ سے 15 مارچ کو دھماکہ خیز مواد برآمد کیا گیا، جس کی بنیاد پر ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا

تاہم حفیظ کے گھر والوں اور دوست اس الزام کو رد کرتے ہیں اور اسی لیے عید کے دن بھی اسلام آباد پریس کلب کے سامنے حفیظ بلوچ اور بیبگر بلوچ کی بازیابی کے خلاف اسلام آباد میں پڑھنے والے بلوچ طلبہ نے احتجاجی کیمپ لگایا

وفاقی دارالحکمومت اسلام آباد میں گذشتہ کئی دنوں سے بلوچ طلبا کی جانب سے جاری مظاہرے کے بعد منگل کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے احتجاجی کیمپ قائم کیا گیا ہے

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے یہ طلبا عید منانے اپنے آبائی علاقوں میں جانے کی بجائے اس کیمپ میں موجود ہیں

احتجاجی کیمپ میں بیٹھے طلبا کو یہ تو نہیں معلوم کہ ان کے پیارے کہاں اور کس حال میں ہیں لیکن وہ اپنے پیاروں کی تصویریں سینے سے لگائے ان کی خیریت سے واپسی کے منتظر دکھائی دیتے ہیں

وہاں بیٹھے طالب علموں کی پریشانی اور فکرمندی ان کے چہروں پر عیاں ہے، حفیظ بلوچ کے مبینہ طور پر لاپتہ ہونے کے بعد احتجاج کرنے والے بلوچ طلبا کو اب کئی دیگر خدشات اور تحفظات ہیں

اس کیمپ میں شریک ایک بلوچ طالب علم کا کہنا تھا کہ وہ شدید خوف میں عید گزار رہے ہیں

’یونیورسٹی کے سب بچے گھر چلے گئے لیکن بلوچ طلبہ اس بار عید اپنے گھر اپنے پیاروں کے ساتھ نہیں کر رہے۔ ہمارے ماں باپ ہمیں منع کر رہے ہیں کہ عید کے لیے گھر مت آنا ورنہ گمشدہ کر دیے جاؤ گے۔‘

اس احتجاجی کیمپ میں شامل بلوچ طلبہ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کے باوجود پنجاب میں پڑھنے والے بلوچ طلبہ کو ہراساں کیے جانے اور ان کی پروفائلنگ کے واقعات ختم نہیں ہوئے

’ہم اگر یہاں رہیں تو ہمیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ ہماری پروفائلنگ کی جاتی ہے اور اگر ہم اپنے گھر جائیں تو ہمیں لاپتہ کر دیا جاتا ہے‘

بیبگر بلوچ اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی کے ساتویں سمسٹر کے طالب علم ہیں۔ وہ عید کی چھٹیوں کے دوران اپنے کزن کے پاس پنجاب یونیورسٹی ملنے گئے، جہاں انھیں سادہ کپڑوں میں ملبوث افراد نے اغوا کر لیا۔ بیبگر کو پنجاب یونیورسٹی کیمپس سے زبردستی گاڑی میں بٹھائے جانے کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی

اس واقعے کے خلاف اور بیبگر بلوچ کی بازیابی کے لیے عید کے دن بھی بلوچ طلبہ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر آفس کے باہر پر امن احتجاج کر رہے ہیں

احتجاج میں شامل ایک بلوچ طالب علم کا کہنا تھا کہ آج عید پر پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں بلوچ شہری سراپا احتجاج ہیں

’سب لوگ اپنی عید کی خوشیاں منانے میں مصروف ہیں۔ کیا کسی کو بلوچ افراد کا غم نظر نہیں آتا؟‘

اس موقع پر انہوں نے الزام عائد کیا کہ بلوچ طلبا کو یونیورسٹی کلاسوں میں جاکر ہراساں کیا جاتا ہے اور ان کے گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اپنی شناخت چھپا کر گھومنے پر مجبور ہیں۔‘

’جب طلبا نے بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھا اور ہراسانی کا سامنا کیا تو انہوں نے پنجاب اور اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کا رخ کیا تاکہ وہ محفوظ طریقہ سے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔ لیکن اسلام آباد میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ اٹھائے جانے والے طلبا پر جھوٹے مقدمات بنا کر منظرعام پر لایا جاتا ہے۔‘

ان طلبا کا کہنا ہے کہ ’ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ بلوچوں کی پروفائلنگ کیوں ہوتی ہے؟ ہم اسی لیے یہاں احتجاج کر رہے ہیں۔‘

ایک خاتون طالب علم نے کہا کہ ’احتجاج ہماری مجبوری ہے۔ ہمیں عید پر سڑکوں پر اپنے پیاروں کی تصویریں لے کر پھرنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ ہمیں بھی گھر جا کر اپنے ماں باپ کے پاس عید منانا پسند ہے لیکن ہم میں خوف پیدا کر دیا گیا ہے۔‘

بلوچ طلبا کے احتجاج کا سلسلہ 8 فروری 2022 کو حفیظ بلوچ کے مبینہ طور پر لاپتہ ہونے کے بعد نو فروری سے اسلام آباد سے شروع ہوا۔ ابتدائی طور پر اسلام آباد سے شروع ہونے والا یہ احتجاج اب سات مختلف شہروں تک پھیل چکا ہے

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے طالب علموں کی جانب سے شروع کیے گئے اس احتجاج میں اب دیگر یونیورسٹیوں کے طالب علم بھی شامل ہو چکے ہیں

حکام اور انتظامیہ کا موقف کیا ہے

ایس ایس پی آپریشن اسلام آباد فیصل کامران نے بتایا کہ ’میں نے مظاہرین سے ملاقات کرکے بات کی اور یہ بھی پوچھا کہ اگر انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ انتظامیہ فراہم کر سکتی ہے۔ چند مظاہرین سے مختلف مسائل جیسے کہ پروفائیلنگ کے حوالے سے بات ہوئی ہے۔‘

ایس ایس پی آپریشن کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں ریاست، حکومت اور انتظامیہ کو مظاہرین کے پاس جا کر ان کے مسائل سننےاور حل کرنے چاہییں ، جو ہماری حد تک چیزیں ہیں وہ ہمیں آگے تک کمیونیکیٹ کرنی چاہییں۔‘

واضح رہے کہ ماضی میں عسکری قیادت نے ہمیشہ جبری گمشدگیوں میں ملوث ہونےکے الزامات کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ ’ہو سکتا ہے لاپتہ ہونے والوں میں سے کچھ افراد نے مسلح گروپوں میں شمولیت اختیار کی ہو۔‘

2019 میں آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں بھی یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’ہر لاپتہ ہونے والا فرد ریاست سے منسوب نہیں ہوتا۔ جو افراد ریاست کے پاس ہیں وہ قانون کے تحت ہیں۔‘

علاوہ ازیں پاکستان نے بارہا بھارت پر بلوچستان میں عسکریت پسندی کو ہوا دینے کا الزام بھی عائد کیا ہے جس کی نئی دہلی مسلسل تردید کرتا رہا ہے

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سے قبل سکیورٹی فورسز سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ بنیادی طور پرایک سوچی سمجھی سازش ہے، جس کے تحت دشمن پاکستان کو بدنام کرنے اور عوام کو حکومتی اداروں کے خلاف کرنے کی کوشش کر رہا ہے

اہلکار نے بتایا کہ حکومت کے قائم کردہ کمیشن کے مطابق مسنگ پرسنز کے 8381 کیسز رپورٹ کیے گئے، جن میں سے 6163 کیسز عدالتی تحقیقات کے بعد ختم کر دیے گئے

ان کا کہنا تھا کہ کمیشن روزانہ کی بنیاد پر ان کیسز کی سماعت کرتا ہے اور تحقیقات کے مطابق زیادہ تر افراد کو دہشتگرد تنظیمیں اغوا کر کے قتل کر دیتی ہیں

سینیئر اہلکار نے بتایا اس کے علاوہ بہت سے لوگ دہشتگرد تنظیموں میں شامل ہو جاتے ہیں اور ان کے گھر والوں کو خبر بھی نہیں ہوتی

اہلکار نے بتایا کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف چند لوگوں کو امن و امان قائم رکھنے کے لیے گرفتار کرتے ہیں، جن کو تفتیش کے بعد بے قصور ہونے کی صورت میں چھوڑ دیا جاتا ہے

لاپتہ افراد کے کمیشن کے اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟

لاپتہ افراد کے کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ چھ سالوں میں سب سے زیادہ کیسز سال 2021 میں درج ہوئے جن کی تعداد 1460 ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق سال 2020 میں 415، 2019 میں 800، 2018 میں 1098، 2017 میں 868 جبکہ 2016 میں 728 لاپتہ افراد کے کیسز درج ہوئے۔

اس کے علاوہ لاپتہ افراد کے کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ دس سالوں میں 3257 لاپتہ افراد واپس آئے ہیں جبکہ 228 افراد کی لاشیں ملی ہیں۔

وکیل اور سماجی کارکن ایمان مزاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے بہت سے طلبا کے لیے گھر سے دور یہ پہلی عید نہیں ہے۔ ’وہ نہ تو یہاں اور نہ ہی اپنے آبائی علاقوں میں محفوظ ہیں۔‘

ایمان مزاری کہتی ہیں کہ ’وہ (طالبا) اس لیے یہاں موجود ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اگر انہیں بلوچستان سے باہر لے جایا جائے تو کم از کم کسی کو پتہ چل جائے گا۔‘

ان کے مطابق جبری گمشدگیوں کا عمل بین الاقوامی قوانین کے تحت اور پاکستان میں انسانیت کے خلاف جرم ہے، جیسا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے محبت شاہ کیس میں فیصلہ دیا تھا۔ کیمپس سمیت مجرموں کے لیے مستقل استثنی فیڈریشن کو ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنے گا۔

واضح رہے کہ پاکستان میں جبری طور پر لاپتہ افراد کے معاملے کو دیکھنے کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایات کے بعد وزارت داخلہ نےانکوائری ایکٹ 1956 کے تحت ’کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈ ڈس اپیئررنسز‘ (کمیشن برائے جبری گمشدگیاں) تشکیل دیا جس کو بعد میں اقتدار میں آنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے دور میں ترمیم کر کے کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017 کا نام دیا گیا تھا۔

انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ (آئی سی جے) نے جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے افراد کے معاملے کے لیے قائم کیے گئے کمیشن کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتے ہوئے کمیشن کی مدت میں توسیع نہ کرنے کی سفارش بھی کی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close