بعض لوگ جوتوں سمیت آنکھوں میں گھسے آتے ہیں، انہیں پتہ ہے کہ آپ سب جانتے ہیں، پھر بھی آپ کو دھوکہ دیتے ہیں، کیوں؟ کیوں کہ انہیں علم ہوتا ہے کہ وہ آپ کو پیارے ہیں، تو انہیں معاف کر دیں۔
شک کا فائدہ لیں اور دل کی عدالت سے ملزم کو بری کر دیں۔
زندگی میں جہاں ہر قدم پہ ان جانے میں دھوکے کھانے ہیں تو جانتے بوجھتے ہوئے کسی پیارے کی خاطر دھوکا کیوں نہیں کھایا جا سکتا؟
پیارا چوڑا ہو جائے گا، دلیر ہو گا؟
نئیں ہو گا، وہ ڈرا رہے گا، وہ دبا رہے گا، اسے پتہ ہو گا کہ میں اگلے کی برداشت کا امتحان لے رہا ہوں، وہ ظرف کی آنچ پر تپ کے واپس آ جائے گا لیکن ملزم کو آپ نے اگر مجرم بنا دیا تو بس وہ گیا۔
کیا ملے گا معاف نہ کرکے؟ دل کا سکون؟ انا کی بڑائی؟ انتقام کی آگ ٹھنڈی ہو جائے گی؟ یہ سب ہو گیا اس کے بعد کیا ہوگا؟ لامحدود اداسی، اندھیرے، چمکتی دھوپوں میں گھومتی راتیں، ان گنت سوچیں؟ ایسا نہ کرتے تو شاید ویسا ہو جاتا، ویسا نہ ہوتا تو کیسا اچھا ہوتا؟
اتنا وقت ہے کہ یہ سارے لانجھے پالیں؟ اور کس کے لیے؟ اپنے دل کو ٹھنڈا کرنے کے لیے؟ دس منٹ کی ٹھنڈک؟ جو بعد میں دھوئیں نکلنے ہیں، تندور جلنا ہے وہ کدھر جائے گا؟
آپ ہارتے نہیں ہیں شک کا فائدہ دینے سے، آپ بس اپنی لائف لائن کو بڑھا دیتے ہیں۔ زندگی نارمل رکھتے ہیں اور کام چلتا رہتا ہے۔
دیکھیں فرض کیا ایک دوست نے آپ کے پرس سے ہزار روپے چرا لیے یا اس سے بہت زیادہ قیمتی کوئی چیز پار کرلی، آپ کے سامنے ہوا سب کچھ لیکن وہی دوست آپ کے دکھ درد میں واحد آسرا بھی تھا، اب کیا کریں گے؟
اس کان سے زیادہ قیمتی کیا ہے جو چوبیس گھنٹے آپ کا برا بھلا سن سکتا ہے؟ کیا خبر اگلے بیس سال آپ وہ ایک کان ڈھونڈتے رہیں۔ چرایا گیا کچھ بھی واپس آ سکتا ہے یار لیکن جسے دھتکارا گیا اسے کون واپس لائے گا؟
آپ؟ آپ کی تو انا اتنی ڈھیر ساری بڑی ہے، آپ کیسے لائیں گے واپس؟ آپ سے تو کسی چیز میں دھوکہ دہی برداشت نہیں ہوتی، آپ کو تو بندہ جینوئن چاہیے، خالص چاہیے، نہیں؟ ہاسیاں چے گوائے یار ہوکیاں چے نئیں لبھنے، ابرار صاب وی کہہ گئے نیں!
تو عرض کیا کہ شک کا فائدہ دیں، ثبوت ہوتے ہوئے بھی دیں، لیکن نہیں، آپ کے تو اصول ہی نئیں ٹھنڈے ہوتے!
دیکھیں، زندگی کے صفحے کتابوں جیسے نہیں ہوتے۔ کہیں روشنائی کالی ہوتی ہے، کہیں سبز، کہیں سرخ، کہیں نیلی، اکثر سرمئی اور بعض اوقات ایک دم سفید!
آپ کا فائدہ صرف یہ ہو گا کہ آپ نئی جدوجہد سے بچ جائیں گے۔ اگلا کیریکٹر اس سے بڑا چور آ گیا فلم میں تو کیا ہو گا؟ برسوں پرانا دوست چوری کرے گا بھی تو کچھ مال چھوڑ دے گا، نیا تو کاٹ کے پھینکے گا وہ دوووور!
وضع داری، اعتبار، کیمسٹری، پیار، محبت، یہ سب چیزیں برسوں میں بنتی ہیں اور آپ کا خالص پن، کھرے کھوٹے کی جانچ، اصول یا کوئی وقتی جذبہ ایک دم اس سب کچھ کا جھٹکا کرا دیتا ہے۔
آپ میں سے کئی لوگ عین اس وقت ایسے ہی کسی فیز میں ہوں گے، سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیا بات ہوئی؟ جھوٹے کو جھوٹ بولنے دیا جائے اور آنکھوں دیکھی مکھی نگل لیں؟
ایہڈے تسی چیف جسٹس! نگل لیں بھائی نگل لیں، بعد میں ہاتھی نگلنے پڑیں گے۔
’نہیں میں بہت سٹرانگ ہوں، مجھے کسی کے ہونے یا نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا‘ اب یہ بات چل رئی ہو گی؟
دیکھیں سٹرانگ ہونا ایک درخت جیسا ہوتا ہے۔ جن جڑوں پر درخت کی زندگی کا انحصار ہے وہ کٹ جائیں گی تو سوکھنے سے بھی پہلے درخت گر جائے گا۔ ہزار میں سے ایک آدھا ایسا درخت بھی ہوتا ہے جو برسات میں گرتا ہے، وہ گر کے بھی جڑیں نکال جاتا ہے لیکن کیا ویسے تیر جیسا سیدھا کھڑا ہو سکے گا دوبارہ؟
انسان بڑی نازک چیز ہے۔ اپنے ہی بھلے کو اپنا نقصان کرتا ہے اور پھر نقصان میں فائدے ڈھونڈتا ہے۔ یہ ساری جدوجہد کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ تھوڑی سی برداشت، تھوڑا سا مٹی پاؤ پروگرام اور یہ، چٹکی برابر درگزر سے کام لیں تو بڑی ٹینشنوں سے بچ جائیں گے۔ ایک کمپرومائز ڈھیروں رپھڑوں سے محفوظ رکھ لے گا۔
باقی یہ شاعر بڑا ظالم تھا، کہتا ہے؎
گزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن،
بہت اداس بہت بے قرار گزرے گی…
بشکریہ: انڈپینڈنٹ (عرب میڈیا)