پیروں میں زخم اور ہاتھوں پر چھالے لیے سیلاب میں تباہ گھروں کی مرمت کرتی خواتین

ویب ڈیسک

یہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کا گاؤں چودھوان ہے، جہاں بارشوں اور سیلاب سے متعدد کچے مکان پگھل کر مکمل طور پر ڈھ گئے ہیں یا جزوی طور پر تباہی ان کا مقدر بنی ہے

اسی گاؤں کی ساٹھ سالہ فاطمہ کے پیروں پر زخم اور ہاتھوں پر چھالے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اپنے کچے مکان کی مرمت خود کر رہی ہیں

فاطمہ کہتی ہیں ”اپنے گھر کی مرمت میں نہیں کروں گی تو کون کرے گا، شوہر اور بیٹا تو باہر کام کے لیے چلے جاتے ہیں۔ اگر مرد گھر میں ہوں گے تو پھر ہم کھائیں گے کیا؟“

فاطمہ نے بتایا کہ یہاں اکثر کانٹے ہوتے ہیں یا کہیں سے شیشہ مٹی میں آ جاتا ہے، جس سے زخم لگ جاتے ہیں

وہ کہتی ہیں ”دو وقت کی روٹی مشکل سے پوری کر رہے ہیں، مزدور لانے کے لیے پیسے کہاں سے لائیں۔ مکان کی مرمت سے پیروں میں زخم آ گئے ہیں، ہاتھوں پر چھالے ہیں لیکن کیا کریں، زندگی تو جیسے تیسے گزارنی ہی ہے“

ڈیرہ غازی خان میں فاطمہ اکیلی خاتون نہیں ہیں، جو اپنا سیلاب سے تباہ شدہ گھر مرمت کرنے میں جتی ہوئی ہیں بلکہ ان خواتین کی تعداد کہیں زیادہ ہے

یہاں ہر گھر میں خواتین اپنے گھروں کی تعمیر اور مرمت کرنے کا کام خود کرتی ہیں۔ ان خاندانوں کے مرد روزی کی تلاش میں باہر گئے ہوئے ہیں یا کوئی اس امید پر قریبی تحصیل درابن گیا ہوا ہے، کیونکہ انہیں کہا گیا تھا کہ وہاں شاید کچھ امداد تقسیم ہو

اپنے گھروں کی مرمت ان خواتین میں جوان اور بوڑھی خواتین شامل ہیں، کسی کے ساتھ کمسن بیٹی، کسی کے ساتھ پوتا یا بیٹا معاون کے طور پر کام کر رہے ہیں

چہروں پر جھریاں ان کی مشکلات اور اذیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان کے ہاتھ زخمی ہیں، پیروں میں جوتے نہیں، ہاتھ میں پلاسٹک کی چوڑیاں، جن پر گیلی مٹی کا لیپ لگا ہوا ہے

ان خواتین کا کہنا ہے ”اس میں کون سا بڑا کام ہے، یہ تو ہمارا معمول ہے“ گھروں کی مرمت کرتی ان خواتین کو معلوم ہے کہ مٹی کو کتنا گوندنا ہے، دیوار پر پہلے کتنے پانی کا چھڑکاؤ کرنا ہے، مٹی میں کتنا بھوسا ملانا ہے اور کتنی دیر میں یہ سوکھے گا

ایک خاتون نے کہا ”اگرچہ یہ ہمارے لیے معمول کا کام ہے لیکن ابھی تباہی بہت ہو گئی ہے۔ دیواریں گر گئی ہیں، چھتیں کمزور ہو گئی ہیں تو ان کی مرمت میں زیادہ وقت لگ گیا“

گاؤں کی ایک بزرگ خاتون اسلام بی بی بتاتی ہیں ”بارشیں تو مسلسل جاری تھیں لیکن ایک رات اچانک اعلان ہونے لگے کہ جو سامان اٹھا سکتے ہو اٹھاؤ اور علاقے سے نکل جاؤ۔۔۔ بس پھر کیا تھا، جو ہاتھ لگا وہ اٹھایا اور گھر چھوڑ کر چلے گئے“

ان کا کہنا ہے ”سیلاب کا پانی مکانات کی پچھلی جانب اور سامنے، دونوں طرف سے آیا، جس سے ہمارے کچے مکان کی دیوار گری۔ اب پردے کے لیے ہم نے یہاں چادر لگا رکھی ہے“

اس گاؤں میں لوگ ہر آنے جانے والے کو اس توقع کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ شاید کہیں کوئی امداد دینے آیا ہو

یہ پوچھنے پر کہ کیا آپ کو کوئی امداد ملی؟ تو ایک خاتون نے کہا ”ہمارا آٹا اور گندم تو پانی میں بہہ گئی۔ بچے بھوکے ہیں، سب کہہ رہے ہیں کہ حکومت امداد دے رہی ہے اور لوگ آ رہے ہیں، ہم تو کب سے انتظار کر رہے ہیں لیکن ہماری طرف تو کوئی نہیں آیا“

چودھوان گاؤں کی بدقسمی یہ بھی ہے کہ یہ کسی بڑی شاہراہ کے قریب واقع نہیں۔ یہ ضلعی ہیڈکوارٹر ڈیرہ اسماعیل خان سے لگ بھگ 72 کلومیٹر دور ژوب روڈ پر واقع ہے اور مرکزی روڈ سے تقریباً بارہ کلومیٹر دور ہے اور یہ بارہ کلومیٹر بھی چھوٹی اور تنگ ٹوٹی پھوٹی سڑک ہے، اس لیے اس طرف سے عام لوگوں کا گزر نہیں ہوتا

یہاں صحت اور تعلیم کی سہولیات بھی دستیاب نہیں، اس لیے یہاں رہنے والوں کو ڈیرہ اسماعیل خان جانا پڑتا ہے۔ اگرچہ بنیادی صحت کے یونٹ تو ہیں، لیکن مکمل صحت کی سہولیات دستیاب نہیں

یہاں کے منتخب کونسلر متین خان بابڑ کا کہنا تھا کہ سیلاب اور بارشوں سے بھاری نقصانات ہوئے ہیں کیونکہ سیلاب دونوں جانب سے آیا اور پندرہ روز تک یہاں بارش ہوتی رہی

انہوں نے بتایا ”چھ بند درمیان میں تھے، جس کی وجہ سے کچھ بچت ہوئی وگرنہ پورا گاؤں ہی پانی میں بہہ جاتا۔۔ یہاں جہاں لوگوں کے مکانات گر گئے ہیں، وہاں سڑکوں اور دیگر عمارات کو بھی نقصان پہنچا۔ اب بھی جگہ جگہ پانی کھڑا ہے لیکن اب تک حکومت کی جانب سے کوئی باقاعدہ سروے شروع نہیں کیا جا سکا“

عبدالمتین بابڑ کے مطابق ابتدائی اندازوں کے مطابق مقامی سطح پر دس سے بارہ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے

ان کا کہنا تھا کہ غیر سرکاری تنظیمیں یہاں امداد تقسیم کرنے آئی ہیں، لیکن ان سے ان لوگوں کے مکانات تعمیر نہیں ہو سکتے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close