’طویل العمری‘ کا راز: اٹلی کا نایاب کڑوا شہد, جس کی چوری پر کان کاٹ دیے جاتے تھے

ویب ڈیسک

اٹلی کے سارڈینیا جزیرے کی پہاڑیوں پر ایک ایسا شہد پایا جاتا ہے، جو میٹھا نہیں ہوتا۔ اسٹرابری کے درخت سے موسم خزاں میں حاصل ہونے والے اس نایاب شہد کی تاریخ بھی اس کے ذائقے کی طرح انوکھی اور دو ہزار سال پرانی ہے

’کوربیزیلو‘ نامی اس شہد کا ذائقہ انسان کی زبان کے لیے کسی پہیلی سے کم نہیں۔ شہد کی مٹھاس کی توقع کرنے والوں کے لیے یقیناً یہ ایک حیران کُن تجربہ ہوتا ہے، جب وہ اس شہد کو پہلی بار چکھتے ہیں، جس کا ذائقہ چمڑے، دھوئیں اور لیکورائس کے مختلف ذائقوں کا امتزاج سا لگتا ہے

یہاں پر یہ شہد اکھٹا کرنے والے خانہ بدوش گذشتہ دو ہزار سال سے اس خوشبودار خزانے کی تلاش میں پھر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ جنگلی اسٹرابری درخت کے سفید گھنٹی نما پھولوں پر شہد کی مکھیوں کے چھتے لگاتے ہیں اور یہ کڑوا شہد حاصل کرتے ہیں

اس شہد کی تاریخ کی قدامت کا اندازہ ایک ایسے واقعے سے ہوتا ہے، جب اس شہد کی کڑواہٹ کا تذکرہ زمانۂ قدیم کے ایک مقدمے میں ہوا

مارکس ٹولیئس سیسرو قدیم روم کے عظیم فلسفی اور وکیل تھے۔ ایک مقدمے کے دوران، جس میں وہ سارڈینیا کے رہائشی رومی شہری کے وکیل تھے، جس پر قتل کا الزام تھا، انہوں نے اپنے موکل کی صفائی میں دلیل دی کہ ’سارڈینیا کے جزیرے پر جو چیز پیدا ہوتی ہے وہ کڑوی ہوتی ہے چاہے وہ مرد ہو یا کوئی اور چیز، حتیٰ کہ وہاں کا تو شہد بھی کڑوا ہوتا ہے۔‘

لیکن اپنی کڑواہٹ سے ہٹ کر یہ شہد اپنے اندر بےشمار غذائی اجزا چھپائے ہوئے ہے۔ وٹامن اور معدنی دولت سے مالامال یہ شہد کئی جانے اور کچھ انجانے طبی فوائد کا بھی حامل ہے۔ سارڈینیا کے باسیوں کی طویل العمری کا راز بھی شاید یہی شہد ہے، جن میں سے اکثر سو سال تک کی عمر تک بھی جیتے ہیں

روایتی طب میں اس شہد کو نیند میں مدد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ کھانسی اور اسہال کے ساتھ ساتھ یہ شہد رسولی کے خلاف بھی آزمودہ ہے، جس کی وجہ اس کی وہ خوبی ہے، جو اسے کسی بھی قسم کی سوزش کے خلاف موثر بناتی ہے

یہ صرف کہی سنی باتیں نہیں۔ سنہ 2019ع میں اسپین کی ویگو اور گریناڈا یونیورسٹی، مارش کے پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کے محققین نے جرنل آف فنکشنل فوڈز میں ایک تحقیق شائع کی، جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کوربیزیلو شہد نے لیبارٹری تجربے کے دوران پیٹ کی بڑی آنت کے سرطان کے خلیوں کی تقسیم اور بڑھنے کے عمل کو کم کر دیا

سائنسی تجربے اور تحقیق کو ایک طرف رکھ دیں۔ قدیم ادب میں بھی جگہ جگہ ایسے اشارے ملتے ہیں، جو ثابت کرتے ہیں کہ یہ کڑوا شہد ناجانے کب سے طبی مسائل کو حل کرنے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے

اس کا سب سے قدیم ادبی ذکر رومی شاعر پوبلئیس اوویڈئیس ناسو سے ملتا ہے، جن کو کلاسک انگریزی ادب میں ’اویڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے بُک آف ڈیز (دنوں کی کتاب) میں روم کے قدیم کلینڈر کا مطالعہ کرتے ہوئے کوربیزیلو جھاڑیوں کا ذکر کیا، جنہیں انگریزی میں اسٹرابری درخت کہا جاتا ہے

اویڈ نے لکھا کہ دیوی ’ڈیا کارنا‘، جن کو رومی صحت اور ولولے کی محافظ دیوی مانتے تھے، نے زمانہ قدیم میں ایلبا لونگا شہر کے نوزائیدہ وارث بچے کی جان بچانے کے لیے اس کے گھر کے دروازے پر اسٹرابری درخت کی ٹہنی سے تین بار دستک دی۔ اس دیوی کو دروازوں کے قبضوں کی محافظ کا درجہ بھی حاصل تھا

اس جنگلی جھاڑی کو ’ایربوٹس اونیڈو‘ کا نباتاتی نام ملا، جس کے موجد بھی روم ہی کے فلسفی اور فطرت پسند لکھاری ’پلینی دی ایلڈر‘ تھے

اس نام کی بنیاد بھی غالباً اس شہد کی کڑواہٹ ہی تھی کیونکہ پلینی دی ایلڈر نے یہ نام لاطینی جملے ’اونم ایڈو‘ کی طرز پر رکھا، جس کا مطلب ہے کہ ’میں صرف ایک ہی کھاؤں گا۔‘

سارڈینیا جزیرے پر کوربیزیلو شہد کی پیداوار قرون وسطٰی میں فروغ پا چکی تھی۔ اس کا ثبوت ہمیں اس دور میں سارڈیانیا کی مشہور ہیروئن اور طاقتور جج ’الینور آف آربوریو‘ کی اس کتاب سے ملتا ہے، جس میں انہوں نے جزیرے پر نافذ قوانین کا ذکر کیا

1392ع میں لکھی جانے والی ’کارٹا ڈی لوگو‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ کوربیزیلو شہد اکٹھا کرنے والے چھتوں کی چوری پر بھاری جرمانہ اور چند کیسز میں کان تک کاٹنے کی سزا سنائی جا سکتی تھی

حیران کن بات یہ ہے کہ جنگلی اسٹرابری درخت مغربی یورپ اور آئرلینڈ تک میں اُگتے ہیں لیکن اس شہد کی پیداوار کا ریکارڈ سارڈینیا کے جزیرے کے پاس ہے

کوربیزیلو کا پھل سست رفتاری سے اُگتا ہے اور اس دوران کئی بار رنگ بھی بدلتا ہے، پیلے سے نارنجی اور پھر سرخ۔ لیکن مکھیاں صرف اس درخت کے ہلکے میٹھے سفید پھولوں کا انتظار کرتی ہیں جو اکتوبر سے دسمبر تک اُگتے ہیں۔ انہی پھولوں کے رس کو یہ مکھیاں ایک نایاب شہد میں بدل دیتی ہیں

یہ پھول بھی اپنی ذات میں نایاب ہیں۔ شہد پیدا کرنے کے علاوہ ان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کی پنکھڑیاں دھیرے دھیرے کھلتی ہیں۔ لیکن ان کی نازکی جتنی خوبصورت ہے اتنی ہی خطرناک بھی کیوںکہ اگر اس دوران موسلا دھار بارش ہو جائے تو ان کو کچل سکتی ہے

چونکہ یہ سارا عمل موسم خزاں کے اواخر میں ہوتا ہے، جب سردی کے ساتھ ساتھ تیز ہوا اور بارش کا امکان ہوتا ہے تو ایسے میں اکثر شہد کی مکھیوں کی بھی ان تک رسائی ممکن نہیں ہو پاتی

خراب موسم میں وہ اپنے چھتے میں محصور ہو کر رہ جاتی ہیں اور اپنے من پسند رس کو چکھنے کی لذت سے محروم ہو جاتی ہیں۔ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ گھنٹی نما ان پھولوں میں دوسری قسم کے پھولوں کی نسبت صرف آدھا ہی رس بنتا ہے

مقدار کی یہ کمی بھی شہد کی مکھیوں پر گراں گزرتی ہے کیونکہ ان کو اس رس کو حاصل کرنے میں زیادہ وقت صرف کرنا پڑتا ہے

یہ وہ عناصر ہیں، جو کوربیزیلو شہد کو نایاب بناتے ہیں اور اسی لیے یہ شہد سارڈینیا کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا جاتا

اس شہد کی مخصوص کڑواہٹ کا راز کیا ہے، یہ کوئی نہیں جانتا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ذائقہ اسٹرابری درخت کے پھولوں میں پائے جانے والے گلائیکو سائیڈ اربیوٹن نامی مالیکیول کی وجہ سے ہے

کوربیزیلو کے منفرد اور مشکل ذائقے کا تجزیہ کرنا بھی اتنا ہی مشکل کام ہے اور اس کے لیے ایسے ہی ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے جیسے شراب چکھنے والے مہتممین ہوتے ہیں۔ اٹلی میں بھی شہد چکھنے والے مہتممین کی نیشنل رجسٹری موجود ہے، جس کو نیشنل رجسٹر برائے ماہرین شہد (نیشنل رجسٹر آّف ایکسپرٹس ان سینسری انالسس آف ہنی) کہا جاتا ہے

اپنی کڑواہٹ کے علاوہ کوربیزیلو کے اندر بالسامک سرکے، پائن ٹری سیپ، چمڑے، لیکورائس اور کافی جیسے تیز نوٹ ہوتے ہیں جن کا اختتام ایک دیر تک رہنے والی دھوئیں کی مہک جیسے ذائقے پر ہوتا ہے

اسی لیے اس شہد کو کافی میں بھی ملایا جاتا ہے تاکہ کڑوی مہک کو ابھارا جا سکے۔ اس شہد کی گہری زرد رنگت تحلیل ہونے پر ہلکے بھورے رنگ میں بدل جاتی ہے

کسی اچھی شراب کی طرح، سارڈینیا میں اس شہد کو بھی کئی کھانوں کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے

فیبیو پیبیری امریکا کے شہر شکاگو کے رہائشی ہیں اور سارڈینیا سے شراب درآمد کا کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ اس شہد کا اصل مزہ لینا چاہتے ہیں تو پھر ان کو سارڈینیا کی مشہور میٹھی ڈش سیڈاس یا اوریلیٹاس پر چھڑک لیں یا پھر پیکورینو سارڈو نامی میٹھی پنیر کے ساتھ کھائیں۔‘

بٹر ہنی: سٹوریز اینڈ ریسیپیز فرام سارڈینیا (کڑوا شہد: سارڈینیا کی کہانیاں اور نسخے) نامی کتاب میں لیتیتا کلارک لکھتی ہیں کہ ’یہ شہد سارڈینیا کی خوارک کی ثقافت کا اہم جزو ہے جو یقینا ایک دلچسپ اور منفرد پراڈکٹ ہے بلکل ایسے ہی جیسی یہاں کی وائٹ وائن ہے۔‘

اٹلی کے مشہور زمانہ شاعر جیووانی پیسکولی نے اپنے ملک کے جھنڈے اور کوربیزیلو درخت، جس میں سبز پتے، سفید پھول اور لال بیریز ہیں، کی مماثلت کرتے ہوئے 1960 میں ’کوربیزیلو کے نام نظم‘ لکھی جس میں انھوں نے پہاڑوں پر تیز آندھی میں زندہ رہنے والے درخت کو اٹلی کی جدوجہد سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا:

اے سبز اطالوی درخت!
تیرا مئی کا مہینہ دھند میں لپٹا ہوا ہے
اگر تیرے آس پاس موجود ہر شے فنا بھی ہو جائے
تم ایک نوجوان آزاد منش پرچم کی مانند
شمالی ہوا کا سامنا کرتے رہو گے..

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close