کوئٹہ – غیر قانونی طور پر افغانستان سے پاکستان داخل ہونے اور اس جرم میں جیل جانے والے قیدی عبداللہ کی رہائی سے صرف ایک روز پہلے اس کے خاندان کے چھ افراد کو انتہائی بے دردی سے قتل کر دیا گیا
بتایا جاتا ہے کہ عبداللہ کے ماں باپ اور چار بہن بھائی بظاہر خاندانی رنجش کی بھینٹ چڑھ گئے
عبداللہ کے ان چھ پیاروں کی لاشیں جیل کے دروازے تک لائی تو گئیں، مگر بدقسمت عبداللہ ان کا آخری دیدار نہ کرسکا اور نہ ہی جنازے میں شریک ہوسکا
واضح رہے کہ عبداللہ کے ماں باپ، دو بہنوں اور دو چھوٹے بھائیوں کو جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب کوئٹہ کے علاقے نواں کلی میں گولیاں مار کر قتل کیا گیا
ڈی ایس پی زرغون آباد عبدالرزاق نے بتایا کہ فائرنگ میں عبداللہ کی چھ سالہ بہن زندہ بچی ہے، لیکن اسے بھی بازو پر گولی لگی ہے
گھر میں کوئی بڑا فرد نہ بچ سکنے کی وجہ سے قتل کے دو الگ الگ مقدمات پولیس نے خود مدعی بن کر درج کیے
ڈی ایس پی عبدالرزاق کے مطابق جمعے اور ہفتے کی شب پولیس کو اطلاع ملی کہ کوئٹہ کے تھانہ زرغون آباد کے علاقے نواں کلی میں پشتونستان چوک پر فائرنگ ہوئی ہے
جب پولیس موقع پر پہنچی تو انہیں ایک گھر سے محمد رفیق، ان کی اہلیہ بی بی حانی اور بیٹی بی بی آمنہ کی لاشیں ملیں جبکہ ان کے دو بچے آٹھ سالہ رفیع اور چھ سالہ پرمینہ شدید زخمی تھے جنہیں ہسپتال پہنچایا گیا۔ آٹھ سالہ رفیع بھی گھنٹوں تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد ہفتہ کی شام دم توڑ گیا
ڈی ایس پی کے مطابق فائرنگ کے پہلے واقعہ کے بعد ملزمان نے کچھ فاصلے پر مدرسہ روڈ پر ایک دوسرے گھر میں محمد رفیق کی دوسری بیٹی بی بی حلیمہ اور تیرہ سالہ بیٹے محمد کامران کو بھی فائرنگ کرکے قتل کردیا اور فرار ہوگئے
اس طرح فائرنگ کے دونوں واقعات میں ایک ہی گھر کے چھ افراد کا قتل ہوا
لاشوں اور زخمی کو سول ہسپتال کوئٹہ لے جایا گیا تو وہاں بارہ گھنٹے تک کوئی رشتہ دار نہیں آیا
سول ہسپتال میں تعینات نجی کمپنی کے سیکورٹی گارڈ محمد سرور نے بتایا کہ زندہ بچ جانے والی چھ سالہ پرمینہ کا خیال رکھنے والا ہسپتال میں کوئی نہیں تھا اس لیے ’ہمارے ہسپتال کے گارڈز اور باقی عملے نے ان کا خیال رکھا اور اس کے لیے کھانا لے کر آئے‘
انہوں نے بتایا کہ معصوم پرمینہ بار بار اپنی والدہ کو یاد کر رہی ہے۔ وہ اس بات پر اپنے طور مطمئن ہے کہ اس کا بھائی کامران بچ گیا ہے، لیکن اسے علم نہیں کہ ان کے ماں باپ اور باقی بہن بھائیوں کی طرح کامران بھی اب اس دنیا میں نہیں رہا
محمد سرور کے مطابق ’پرمینہ کہتی ہیں کہ ان کا بھائی کامران بازار سے پیسے لانے گیا ہے، وہ وہاں گاڑیاں دھوتا ہے۔‘
پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے افغان باشندے تھے۔ مقتول محمد رفیق کا اب صرف ایک بیٹا عبداللہ زندہ بچا ہے جو تین ماہ قبل غیرقانونی طور پر پاکستان میں رہنے کے الزام میں فارن ایکٹ مقدمے کے تحت گرفتار ہوا تھا
صحافی و سماجی کارکن جمال ترکئی نے بتایا کہ وہ، مقتولین کے قبیلے اور علاقے کے لوگ محمد رفیق، اہلیہ اور بیٹیوں اور بیٹوں کی لاشیں لے کر ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ لے کر گئے تاکہ وہاں قید محمد رفیق کا بیٹا عبداللہ ان کا آخری دیدار کرسکے
”جیل کے دروازے پر پہنچنے کے بعد ہم جیل سپرنٹنڈنٹ سے ملنے گئے۔ انہوں نے لاشیں دیکھنے کے بعد کہا کہ ہم آخری دیدار کرانے کے لیے تیار ہیں مگر سبھی افراد کو سروں میں بے دردی سے گولیاں مار کر قتل کیا گیا ہے اور ان کے چہرے مسخ ہیں۔ اپنے والدین اور چار بہن بھائیوں کی لاشیں ایک ساتھ دیکھ کر کہیں عبداللہ ذہنی صدمہ سے دو چار نہ ہوجائے یا اسے دل کا دورہ نہ پڑجائے“