کراچی – اردو ملک کی قومی زبان ہے، یہ بات ہم نے آئین میں انگریزی زبان میں لکھ رکھی ہے
سوال اب یہ ہے کیا عمران خان، آصف زرداری اور مریم نواز کے گھروں میں یہ قومی زبان بولی جاتی ہے اور کیا ان کے بچے ڈھنگ سے اپنی قومی زبان میں بات کر سکتے ہیں؟
اس حوالے سے آصف محمود اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ شہر میں یہ رسم اب دستور بن چکی کہ قیادت کتوں سے کھیل رہی ہو یا بچوں سے، اہل دربار فلم بندی کے لیے ہمراہ ہوتے ہیں۔ اس رسم کے بانی سراج الحق ہیں، جو راہ چلتے اچانک کسی گاڑی کو دھکہ لگاتے تو صالحین اس تاریخی لمحے کو بھی فلم بند کر لیتے تھے۔ عمران خان کی پھٹی قمیص ہو یا مریم نواز کی شاپنگ، یہ اب اہم قومی امور ہیں، جن کا اہتمام سے ابلاغ کیا جاتا ہے
آصف محمود نے حال ہی میں مریم نواز کی ایک وائرل ہونے والی وڈیو کا حوالہ دیا ہے، جس میں وہ اپنی نواسی کے لیے شاپنگ کر رہی ہیں اور آن لائن اس سے گفتگو بھی کر رہی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس وڈیو میں، جو کیمرہ مین کی مہارت کا ثبوت ہے، مریم نواز صاحبہ یہ گفتگو انگریزی زبان میں فرما رہی ہیں۔ گویا معصوم بچی کے ساتھ بھی اپنی زبان میں بات کرنا گوارا نہیں
جبکہ عمران خان کی بھی ایک وڈیو وائرل ہوئی تھی، جب وہ دھرنے کے ایام میں کنٹینر میں سونے سے پہلے اپنے بیٹوں سے بات کر رہے تھے۔ یہ گفتگو بھی انگریزی میں تھی اور سلمان اور قاسم صاحبان مقامی زبان سمجھنے اور اس میں بات کرنے سے شاید قاصر ہیں
بلاول بھٹو صاحب کی اردو کا بھی جو عالم ہے ہمارے سامنے ہے۔ میر بھی سن لیں تو رشک سے بھن کر کباب ہو جائیں
ہماری صف اول کی قومی قیادت کا عالم یہ ہے کہ ایک محترم خاتون اپنی نواسی سے بھی قومی زبان میں بات کرنا گوارا نہیں کرتی، ایک کے صاحبزادے اردو زبان سمجھتے ہی نہیں اور ایک صاحب عوام سے خطاب فرمانے کے لیے ایک ’ناگزیر برائی‘ کے طور پر اس زبان کا سہارا لیتے ہیں، تو سماں بندھ جاتا ہے
سوال یہ ہے کہ اس رویے کو کیا نام دیا جائے؟ کیا یہ اس قومی قیادت کا احساس کمتری ہے کہ وہ اپنی نسلوں کو اس مقامی زبان سے دور رکھنا چاہتے ہیں یا یہ ان کی عملیت پسندی ہے کہ اس گلوبل ولیج میں اب انگریزی کے بغیر گزرا نہیں؟
اگر یہ احساس کمتری نہیں بلکہ عملیت پسندی ہے اور یہ قیادت سمجھتی ہے کہ بدلتے حالات میں انگریزی زبان کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں تو یہ اس قیادت کی فکری بد دیانتی کا انتساب بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس عملیت پسندی کو پھر صرف اشرافیہ تک محدود کیوں رکھا جائے؟ پھر پورے ملک میں انگریزی کو اس طریقے سے رائج کیجیے کہ یہ زبان جس طرح عمران، مریم اور زرداری کے بچے بولتے ہیں، ایسے ہی ایک عام آدمی کے بچے بھی یہ زبان بول سکیں. عام آدمی ہی قومی زبان کا ٹھیکہ کیوں اٹھائے
یہ کیسی عملیت پسندی ہے کہ اشرافیہ کے لیے تو انگریزی ہو اور باقی قوم کے لیے ’قومی زبان کے اقوال زریں؟‘
یہ عملیت پسندی نہیں، یہ طبقاتی فسطائیت ہے۔ یہ ایک اہتمام ہے کہ ایک طبقہ انگریزی زبان میں مہارت کی بنیاد پر بالادست ہو جائے اور دوسرا طبقہ اس میں مہارت نہ رکھنے کی بنیاد پر، مرعوب، زیر دست اور محکوم رہے
عملیت پسندی کی بنیاد پر انگریزی کو رائج کرنا ہے تو پھر ’قومی زبان‘ کا یہ قول زریں غریب کی دہلیز سے اٹھا کیوں نہ لیا جائے؟ پھر دو نہیں، ایک پاکستان بنائیے۔ پھر ہر سطح پر انگریزی کو ذریعہ تعلیم قرار دیجیے۔ تاکہ پتا تو چلے بلاول اور سلمان ہی کے لہجوں میں جان کیٹس کی مٹھاس اترتی ہے یا رحیم چوکیدار کے بیٹے بھی شیکسپیئر کے لہجے میں بات کر سکتے ہیں۔ خدا کی عطا میں کوئی کمی نہیں، وہ سب کو صلاحیت دے کر اس جہاں میں بھیجتا ہے
اشرافیہ نے البتہ یہ اہتمام کر رکھا ہے کہ اس کے بچے انگریزی زبان کی بنیاد پر معتبر ہو جائیں اور عوام الناس ’قومی زبان‘ کے قول زریں سے جی بہلا کر کلرکی کرتی رہے
چنانچہ ’بھٹوز‘ بیرون ملک سے تعلیم حاصل کر کے آتے ہیں، تو ڈھنگ سے اردو بھی نہیں بول سکتے لیکن سندھ کے عام آدمی کا قومیت کی بنیاد پر یوں استحصال ہوتا ہے کہ اس کا ذریعہ تعلیم انگریزی نہیں سندھی قرار پاتی ہے۔ اب سندھ میں کسی ہاری کے بچے میں ہمت ہے کہ زرداری صاحب کے بچوں جیسی انگریزی بول سکے؟
بیوروکریسی اردو میں بات کرنا معیوب سمجھتی ہے۔ بعض ریٹائرڈ جنرل معذرت کرتے ہیں کہ وہ اردو کے باب میں ان کا ہاتھ تنگ ہے، ان کی یہ خامی نظر انداز کی جائے۔ زبان پر معذرت ہوتی ہے مگر آنکھوں میں غرور کی لالی
قومی زبان آتی نہیں لیکن حب الوطنی پر ان کا کہا سند ہے۔ عدالتوں میں انگریزی بولی جاتی ہے اور عالم شوق میں ایسا سماں ہوتا ہے کہ شیکسپیئر سن لے تو اس کے پسینے چھوٹ جائیں
قانون سارا انگریزی میں لکھا ہے۔ مدعی اور سائل کو بس اتنا پتہ ہوتا ہے کہ ایک وکیل بابو ان کا موقف ایک ایسی زبان میں پیش کر رہے ہیں، جو انہیں آتی ہی نہیں
قومی زبان اردو ہے اور اس کا دستور انگریزی زبان میں لکھا گیا ہے۔ سیاسی اشرافیہ آئین کی بالادستی کی جدوجہد میں مصروف ہے، لیکن ملک کی غالب اکثریت کو تو معلوم ہی نہیں آئین میں لکھا کیا ہے۔ عوام کی اکثریت اسے پڑھ سکتی ہے نہ سمجھ سکتی ہے
اشرافیہ کے گھر میں امکانات اور مراعات کے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔ عوام کے لیے انہوں نے چند خوبصورت اقوال زریں رکھ چھوڑے ہیں۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ تمہاری ایک قومی زبان ہے(جو صرف تم نے ہی بولنی ہے)۔ ملک کا نظام جمہوری ہے(لیکن تم نے صرف ووٹر رہنا ہے، ایوان میں آنا تمہاری اوقات نہیں)، ریاست کا مملکتی مذہب اسلام ہے (لیکن اسے ہم نے نافذ نہیں کرنا اس کی بنیاد پر سیاسی اور تزویراتی ضرورت کے تحت صرف تمہارا استحصال کرنا ہے)، ملک کو صرف جمہوریت بچا سکتی ہے (لیکن سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کی ضرورت نہیں، ان کی نجات موروثیت ہی میں ہے)