اسلام آباد – وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد واپس لے لینی چاہیے بدلے میں دیکھتے ہیں کہ انہیں کیا دیا جاسکتا ہے جلد انتخابات سمیت متعدد معاملات پر بات چیت ہوسکتی ہے
انہوں نے کہا کہ ممبران کو ہمارے جلسے میں سے گزر کر کو تحریک عدم کی ووٹنگ لیے جانا پڑے گا اور اسی مجمع سے ان کی واپسی ہوگی
نجی چینل کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ جب سے یہ تحریک پیش کی گئی ہے بہت تلخیاں پیدا ہوگئی ہیں، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونے تک سیاسی فضا اس قدر مکدر ہوجائے گی کہ اس سے پاکستان کو نقصان ہوگا، اس لیے میری رائے میں کوئی ایسا حل نکالنا چاہیے کہ اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک واپس لے اور دیکھتے ہیں کہ انہیں بدلے میں کیا دیا جاسکتا ہے
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اگر جلد انتخابات کرانا چاہتی ہے تو یہ بھی ایک مطالبہ ہے جو وہ رکھ سکتی ہے، بات میں تو کوئی حرج نہیں، جب بیٹھیں گے بات ہوگی تو ہی معاملات آگے بڑھ سکتے ہیں یکطرفہ کوشش تو کوئی بھی نہیں کرے گا
تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز حکومتی اتحادیوں کا ساتھ چھوڑ دینے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، اگرچہ اتحادیوں نے ہمیں حمایت کا یقین دلایا ہے لیکن انہی کے کچھ رہنماؤں کی مختلف گفتگو بھی آئی ہے، اس لیے کہ پارٹی کے اندر مقامی سیاست کا بھی ایک عنصر ہوتا ہے، جس طرح مسلم لیگ (ق) اگر مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دے گی تو اس کے اندر سے بھی ردِ عمل آئے گا
فواد چوہدری نے کہا کہ ڈی چوک پر جلسہ اس لیے کر رہے ہیں کہ ننھے منے جلسے کرنے والے دیکھ لیں کہ اصل میں جلسہ کیا ہوتا ہے اور دیکھ لیں کہ لوگ ہمارے ساتھ ہیں کہ نہیں، اس طرح ایک چھوٹا سا ریفرنڈم ہوجائے گا اور جلسے میں سے گزر کر لوگوں کو تحریک عدم کی ووٹنگ کے جانا پڑے گا اور اسی مجمع سے واپسی ہوگی
انہوں نے کہا کہ جلسہ ڈی چوک پر ہوگا اور دس لاکھ لوگ ہوں گے، دیکھتے ہیں کیا صورتحال ہوتی ہے، اسی لیے میں کہہ رہا ہوں کہ اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد واپس لے لینی چاہیے تا کہ اتنی تلخیاں نہ بڑھیں تلخیاں کم کرنے کی ضرورت ہے
جہانگیر ترین اور علیم خان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مجھے پوری امید ہے کہ ان کے چھوٹے موٹے اختلافات ختم کر کے انہیں واپس لے آئیں گے
انہوں نے مزید کہا کہ جہانگیر ترین اور علیم خان نے اپنا رکھ رکھاؤ رکھا ہے، اختلافات ہوجاتے ہیں لیکن انہیں حل کرلیا جائے گا، آئندہ 48 سے 72 گھنٹوں میں بہت سی چیزیں سامنے آجائیں گی
عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اپوزیشن کا ممکنہ شراکتِ اقتدار کا فارمولہ تیار
وفاق اور پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں اپوزیشن نے ممکنہ پاور شیئرنگ فارمولہ تیار کیا ہے، جس کے تحت پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب چوہدری پرویز الہیٰ کو دیے جانے کا امکان ہے
اگر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو پھر اسپیکر پنجاب اسمبلی کے لئے مسلم لیگ (ن) کے رکن کا انتخاب کیا جائے گا، جب کہ ڈپٹی اسپیکر کے لئے پیپلز پارٹی کے حسن مرتضیٰ کا نام زیر گردش ہے، گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کی جگہ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر الزمان کائرہ کو گورنر بنائے جانے کا امکان ہے، اس کے علاوہ کابینہ میں زیادہ وزارتیں مسلم لیگ(ن) کے پاس ہوں گی، پیپلز پارٹی اور ق لیگ کو بھی شیئر ملے گا
دوسری جانب ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ تیزی سے تبدیل ہوتی سیاسی صورتحال میں مسلم لیگ(ن) کا ٹکٹ ”ہاٹ کیک“ بن گیا ہے، گزشہ رات چار اراکین اسمبلی نے لیگی قیادت کے ساتھ ملاقات کر کے حمایت کا یقین دلا دیا ہے، جب کہ جنوبی پنجاب کے تینوں ڈویژنز سے تعلق رکھنے والے 18 سے زائد ایم پی ایز مسلم لیگ(ن) کے ساتھ معاملات طے کر چکے ہیں
مسلم لیگ (ق) نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اپنا ذہن بنا لیا
اہم حکومتی اتحادی پاکستان مسلم لیگ (ق) نے وزیراعظم کے خلاف تحریک اعتماد کے سلسلے میں اپنا فیصلہ کرلیا جس کا اعلان پارٹی دیگر حکومتی اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کے بعد کرے گی
یہ بات اسپیکر پنجاب اسمبلی نے پارٹی کے مشاورتی اجلاس میں شرکت کے بعد صحافیوں کے ایک گروپ سے بات کرتے ہوئے کہی
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنا فیصلہ کرلیا ہے، ساتھیوں کے ساتھ حتمی مشاورت جاری ہے، پارٹی دیگر دو حکومتی اتحادیوں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پی) اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے تاہم انہوں نے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا نام نہیں لیا جو حکومتی اتحاد میں شامل ایک اور جماعت ہے
مسلم لیگ (ق) پنجاب کے صدر پرویز الٰہی نے اشارہ دیا کہ ان کی جماعت، ایم کیو ایم پی اور بی اے پی مشترکہ فیصلہ کریں گے
مشاورت اجلاس کی سربراہی مسلم لیگ (ق) کے علیل صدر چوہدری شجاعت حسین نے کی جس میں چوہدری وجاہت حسین، طارق بشیر چیمہ، مونس الٰہی، سینیٹر کامل علی آغا، حسین الٰہی اور چوہدری امتیاز رانجھا نے شرکت کی۔
پرویز الٰہی نے کہا کہ اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ موجودہ اسمبلیاں اپنی پانچ سالہ مدت پوری کریں جو اگست 2023 کو اختتام پذیر ہوگی اور یہ بھی کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے ساتھ ملاقات کسی بھی وقت ہوسکتی ہے
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ جہانگیر ترین گروپ میں شامل عون چوہدری اتوار کے روز ان سے ملاقات کے لیے آئے تھے اور آئندہ فو روز میں اپنے گروپ کے فیصلے سے آگاہ کریں گے
سوالات کا جواب دیتے ہوئے پرویز الٰہی نے وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا کہ اپنی کوششیں جاری رکھیں، ساتھ ہی کہا کہ قانون اور آئین بہت واضح ہیں اور قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو ان کی پیروی کرنی چاہیے
اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ق) نے وزیراعظم عمران خان سے کہا تھا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل عثمان بزدار کی جگہ پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کا اعلان کریں
مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا ترین گروپ سے رابطہ
ذرائع کے مطابق سیاسی منظر نامے پر بڑی پیش رفت سامنے آرہی ہے، آج وفاقی وزیر اعجاز شاہ نے چوہدری برادران سے ملاقات کی، تو دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے بھی ترین گروپ سے رابطہ کیا ہے، اور ترین گروپ کے رہنما عون چوہدری نے بھی حمزہ شہباز سے رابطے کی تصدیق کی ہے
ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز آج ترین گروپ کے ارکان سے ملاقات کریں گے، اور ان سے عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے تعاون مانگیں گے، جب کہ دونوں جانب کی قیادت مشترکہ لائحہ عمل طے کرے گی
ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین اس وقت لندن میں زیر علاج ہیں اور انہوں نے اپنے گروپ اراکین سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے حمزہ شہباز کی آمد سے قبل گروپ کو حکمت عملی سے آگاہ کردیا ہے
نمبرز گیم
اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد سے جاری سیاسی تھیٹر میں مسلم لیگ (ق) نے محض پانچ اراکین اسمبلی کے ساتھ بھی اہم توجہ حاصل کررکھی ہے
بظاہر لگتا ہے کہ دیگر تین اتحادی، ایم کیو ایم، بی اے پی اور جی ڈی اے فیصلہ لینے کے لیے ایک دوسرے کا انتظار کررہے ہیں
قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے پیش نظر یہ واضح ہے کہ اگر چار میں سے کوئی دو اتحادی حکمران اتحاد چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وزیر اعظم خان 342 رکنی ایوان میں اکثریت کھو دیں گے اور سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اس صورت حال میں ایوان میں اکثریت ثابت کرنے کی ذمہ داری وزیراعظم پر ہوگی
ایوان کے 17 اراکین کا تعلق اتحادی جماعتوں کا اتحادیوں سے ہے اور حکمران جماعت کو اس وقت 179 ایم این ایز کی حمایت حاصل تھی
یہ امر دلچسپ ہے کہ قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان 17 ارکان کا فرق ہے
ادہر اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ ہاؤس میں ہماری بہت کم اکثریت ہے، جس کی وجہ سے ہمیں قانون سازی میں چیلنجز کا سامنا ہے
پی ٹی آئی کی کوششوں کے باجود ایم کیو ایم کا ’آپشنز‘ کھلے رکھنے پر زور
وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر مرکز میں موجود پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے بارہا اپنے اتحادیوں کی اعتماد جیتنے کی کوشش کے باوجود ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے کارڈ چھپا کر رکھے ہوئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ تمام پارلیمانی ’آپشنز‘ موجود ہیں، وہ صرف قوم اور جماعت کے مفاد میں فیصلہ کریں گے
ایم کیو ایم کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے پی ٹی آئی کی نئی کوشش گزشتہ روز سامنے آئی جب گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے اپنے معاونین کے ہمراہ ایم کیو ایم کے مرکز بہادرآباد کا دورہ کیا۔ ایک گھنٹے جاری رہنے والی ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دونوں فریقین کی جانب سے مثبت انداز ظاہر کیا، تاہم اشارہ ملتا ہے کہ دونوں جماعتوں کی گفتگو کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر سندھ عمران اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ ’میں یہاں ایم کیو ایم پاکستان کو وزیر اعظم عمران خان کا پیغام دینے آیا ہوں‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے ایم کیو ایم پاکستان سے تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر حمایت کی درخواست کی ہے، اگر ہم وفاقی حکومت میں موجود اپنے اتحادیوں کی حمایت حاصل کر لیتے ہیں تو ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے ہمیشہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے حکومت کی حمایت کی ہے، اور یہ اس لیے ہمیں امید ہے کہ وہ یہ رویہ اختیار کرتے ہوئے عمران خان کی حمایت جاری رکھیں گے
گورنر سندھ کا نے کہا کہ میں یہ بات واضح کردوں کہ چاہے اتحادی ہوں یا نہ ہوں، میں نے غور کیا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان بلا تعصب اور اخلاص کے ساتھ گزشتہ تین برسوں سے شہر اور صوبے کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے
جب ایم کیو ایم رہنما خالد مقبول صدیقی سے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق پارٹی کا فیصلہ پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اپنی پارٹی اور قوم کے مفاد میں فیصلہ کرنا ہے‘
انہوں نے کہا کہ ’ایم کیو ایم ایک جمہوری جماعت ہے اور ہماری پرانی روایت ہے کہ ہم کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے کارکنان کی رائے ضرور لیتے ہیں‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ اب تک ہم حکومت کے اتحادی ہیں اور اسی لیے حکومت برقرار ہے، ہمارا ماننا ہے کہ تمام تر حالات کا جو نتیجہ حاصل ہوگا اس سےجمہوریت کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہے‘۔
جب ان سے پی ٹی آئی حکومت پر بڑھتے دباؤ اور مسلم لیگ (ق) کی جانب سے اپوزیشن کے حق میں ممکنہ فیصلے کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ پارٹی دوسروں کے فیصلے کی پیروی کرنے کی پابند نہیں ہے
انہوں نے مزید کہا کہ اگر مسلم لیگ (ق) اپنا فیصلہ لینے میں آزاد ہے تو ہم بھی آزاد ہیں. اگر دیانتداری سے دیکھا جائے تو ایم کیو ایم پاکستان کو ویسی سیاسی اسپیس حاصل نہیں جیسی اپوزیشن کو ہے اس لیے ہر ایک کا اپنا معاملہ اور اپنی صورتحال ہے جسے وہ مدِ نظر رکھیں گے
آج پیپلز پارٹی کے صدر آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے زرداری ہاؤس میں ایم کیوایم کے وفد نے ملاقات کی
دونوں جماعتوں کی قیادت نے ملکی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے ملک کے وسیع تر مفاد میں ایک دوسرے سے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ اطلاعات ہیں کہ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے تمام تر نکات سے اتفاق کیا ہے
ہمارے اتحادی تجربہ کار سیاست ہیں وہ آسانی سے بہکاوے میں نہیں آئیں گے. قریشی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اتحادی جماعتوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتحادیوں نے ہر نشیب و فراز میں حکومت کا ساتھ دیا ہے اب بھی دیں گے
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بلاول کا ماننا ہے کہ آئین کو تہس نہس کیا جارہا ہے لیکن آئین ہم سب کے لیے مقدس اور ہم سب آئین کے پابند ہیں، آئین کی ہر شق ہمارے لیے اہمیت رکھتی ہے” میرا بلاول سے سوال ہے کہ کیا آپ آئین کا احترام کر رہے ہیں، آپ اور آپ کے والد نوٹوں کے تھیلے لیے اراکین اسمبلی کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں، کہہ رہے ہیں کہ اپنے وفاداریاں تبدیل کرو. آئین کا تقدس آپ پامال کر رہے ہیں، آپ لوگوں کی بولی لگا رہے ہیں“
وزیر خارجہ نے حکومتی اتحادیوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چاہے مسلم لیگ (ق) ہو، ایم کیو ایم ہو یا ہماری دیگر اتحادی جماعتیں ہوں، ہمیں یقین ہے کہ وہ ہمارا ساتھ دیں گے، انہوں نے پہلے بھی ہر نشیب و فراز میں حکومت کا ساتھ دیا ہے
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اتحادی جماعتیں حکومت اور اپوزیشن کو دونوں کو سمجھتی ہیں، وہ اپوزیشن کی چالوں کو سمجھتے ہیں، اور تجربہ کار سیاست ہیں اور وہ آسانی سے بہکاوے میں نہیں آئیں گے، میرے رائے میں اپوزیشن کو ناکامی ہوگی
انہوں نے کہا کہ یہ جو اپوزیشن کا تین بڑی جماعتوں کا ٹولہ جمع ہوا ہے یہ بکھر جائےگا کیونکہ ان کا کوئی متفقہ نظریہ نہیں ہے، میں بلاول سے پوچھا چاہتا ہوں کہ کیا پیپلز پارٹی کا نظریہ جے یو آئی سے مل چکا ہے؟ کیا آپ کی قیادت ایک ہے؟
بلاول بھٹو کا وزیر اعظم کو جلد قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا چیلنج
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ’ہمیں عدم اعتماد جیتنا ہے، اس کے بعد انتخابی اصلاحات کرنی ہیں اور پھر شفاف الیکشن کروانے ہیں۔‘
ان کے مطابق وزیر اعظم پر پاکستان کے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ وزیراعظم اپنی گنتی پوری کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں، دھاندلی کی کوشش کر رہے ہیں
ان کے مطابق وزیر اعظم گھبرا گئے ہیں اور گالی دینے پر اتر آئے ہیں، انہیں شکست نظر آ رہی ہے
بلاول بھٹو نے عمران خان کو جلد قومی اسمبلی اجلاس بلانے کا چیلنج دیا ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ ’وزیر اعظم سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اپنی تقریر میں کس کو جانور کہا ہے۔‘
ان کے مطابق ’ہاری ہوئی ٹیم گالی دیتی ہے اور بال ٹمپرنگ کرتی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ کسی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جانا چاہیے، پارلیمان کے ممبران کو ان کا ووٹ کا حق دیا جانا چاہیے
انھوں نے درخواست کی ہے کہ ’چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ وزیر اعظم کے بیانات کو سنیں۔ بلاول بھٹو نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ جلد سنائے
بلاول بھٹو نے کہا ”وزیراعظم کے پاس چند دن رہ گئے ہیں، وہ کیسے اگلے منصوبوں کا اعلان کرسکتے ہیں.“