اڑیسا – ایسک منڈا بھارتی کی ریاست اڑیسا میں دیہاڑی دار مزدور تھے، جنہوں نے کورونا کی وبا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے دوران یوٹیوب کا رُخ کیا۔ اب وہ ایک سوشل میڈیا اسٹار بن چکے ہیں اور اپنی وڈیوز کے ذریعے لاکھوں روپے کماتے ہیں
مارچ 2020 کے دوران منڈا نے جب یوٹیوب پر اپنی پہلی وڈیو لگائی تو اس وقت انہیں انتہائی برے حالات کا سامنا تھا
کورونا کی وبا کی روک تھام کے لیے ملک گیر لاک ڈاؤن کے باعث بھارت کے تعمیراتی شعبے کا کام ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا، جس سے منڈا کو بھی اُجرت ملتی تھی
لاک ڈاؤن کے دوران منڈا اور ان جیسے دیہاڑی دار مزدوروں کے لیے گزر بسر مشکل ہو چکا تھا، یہی وہ وقت تھا جب ان کو ایک انوکھا خیال آیا
یوا یوں کہ ایک دن ان کے بچے یوٹیوب پر کارٹون دیکھ رہے تھے، جب ان کو ایک اشتہار کے ذریعے معلوم ہوا کہ لوگ کس طرح یوٹیوب پر وڈیو لگا کر پیسے کما رہے ہیں
انہوں نے سوچا کیوں نہ وہ بھی یہ کوشش کر کے دیکھیں ، آخر اس میں کوئی ہرج نہیں
چنانچہ انہوں نے یوٹیوب سے متعلق معلومات حاصل کیں اور کھانا پکانے کی وڈیوز سے کام کی شروعات کر دی
پہلی وڈیو میں منڈا کو چاول، دال، ٹماٹر اور ہری مرچ سے بھری پلیٹ کے ساتھ بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے ناظرین کو خوش آمدید کہنے کے بعد یہ پلیٹ خاموشی سے کھائی۔ لیکن اس وڈیو کے نتائج ان کی امید کے برعکس تھے
وہ بتاتے ہیں ”ایک ہفتے تک میری وڈیوز کو کسی نے نہیں دیکھا۔ میرا دل ہی ٹوٹ گیا“
لیکن اس کے باوجود انہوں نے ہار نہیں مانی اور سوچا کہ ایک کوشش اور کی جائے
اب کی بار انہوں نے مزید معلومات کے لیے بھی کے لیے یوٹیوب کا ہی سہارا لیا اور دیکھا کہ کس طرح بہت سے لوگ اپنی وڈیوز کو دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے پھیلاتے ہیں
انہوں نے بتایا ”میں نے فیسبک پر اپنا اکاؤنٹ کھولا اور وہاں اپنی وڈیوز شیئر کیں۔ یہ طریقہ کام کر گیا اور دس سے بارہ لوگوں نے میری وڈیوز دیکھیں“
کچھ ہی عرصے میں ان کی بنائی ہوئی ایک وڈیو وائرل ہو گئی، جس میں اڑیسا کی مشہور چاول کی ڈش بسی پاکھلا دکھائی گئی تھی
وہ بتاتے ہیں ”اس وڈیو کے بعد میرے یوٹیوب چینل پر ایک ہی دن میں بیس ہزار صارفین آ گئے۔ یہ لوگ دنیا بھر سے آئے تھے، امریکا، برازیل، منگولیا“
اس حوصلہ افزا پیشرفت کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا
دو سال بعد ان کے چینل منڈا ایٹس (منڈا کا کھانا) کے 80 ہزار صارفین ہیں اور ان کی وڈیوز کو دس کروڑ بار دیکھا جا چکا ہے
اب وہ بھی کیمرے کی آنکھ کے سامنے آرام دہ نظر آتے ہیں اور کبھی گاؤں میں مرغی کی پارٹی اور کبھی اپنے خاندان کے ساتھ مشروم کی تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں
گذشتہ سال بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ماہانہ ریڈیو شو میں منڈا کی تعریف کی اور کہا کہ ’انہوں نے ثقافت اور کھانے کے امتزاج سے انٹرنیٹ پر اپنا مقام بنا لیا۔‘
منڈا کہتے ہیں کہ ”میں تو جیسے چاند پر پہنچ گیا اور میرے چینل کے صارفین کی تعداد بھی بڑھ گئی“
منڈا کی وڈیوز ایک ایسی کیٹیگری میں شامل ہیں، جن میں لوگ کھانا کھاتے ہیں اور اس دوران ناظرین سے گفتگو کرتے ہیں
یہ سلسلہ 2010 میں جنوبی کوریا اور جاپان سے شروع ہوا تھا اور پھر دھیرے دھیرے دنیا بھر میں پھیل گیا۔ ’مک بینگ‘ نامی ان چینلز کو اب لاکھوں افراد دیکھتے ہیں
ان وڈیوز کے شائقین کا کہنا ہے کہ اگر وہ اکیلے کھانا کھا رہے ہوں تو ان کو اچھا لگتا ہے کہ وہ ایسی وڈیوز لگا لیں، جس سے ان کا احساس تنہائی کم ہو جاتا ہے
لیکن منڈا اس فلسفے سے بلکل ناواقف تھے، جب انہوں نے یہ کام شروع کیا تھا۔ انہوں نے صرف وڈیوز کی مختلف کیٹیگریز کو دیکھا اور پھر فیصلہ کیا کہ وہ کھانے کی وڈیوز بنائیں گے، کیونکہ وہ اپنی اہلیہ کی مدد سے کھانا پکا سکتے تھے
وہ کہتے ہیں ”میں نے سوچا کہ دیکھنے والوں کو شاید اس بات میں دلچسپی ہو کہ ہماری زندگی اور کھانے کیسے ہیں“
اس سارے کام میں ان کا استاد اور رہنما یوٹیوب ہی تھا، جہاں سے انہوں نے سیکھا کہ کون سا کیمرا لیا جائے، کس طرح وڈیو بنائی جائے، حتیٰ کہ کھانے پکانے کی تراکیب بھی ان کو یوٹیوب سے ہی مل گئیں
اس کام کی شروعات کے لیے انہوں نے اپنی بچائی ہوئی رقم سے تین ہزار الگ کیے، جو ان کے لیے ایک بڑی رقم تھی اور وڈیوز بنانے کے لیے ایک اسمارٹ فون خریدا
اگرچہ منڈا نے اپنی پڑھائی مکمل نہیں کی تھی اور ان کو تھوڑی بہت ہی انگریزی آتی تھی، لیکن انہوں نے خود سے ای میل کرنا اور سوشل میڈیا کا استعمال سیکھا تاکہ اپنے چینل کو مزید پھیلا سکیں
انہوں نے گوگل ٹرانسلیٹ (ترجمے کی ایپ) کی مدد سے اپنی وڈیوز پر سب ٹائٹل لگانا بھی سیکھے اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنا کام بہت بہتر بنا لیا
جب انیوں نے پہلی وڈیو بنائی تھی تو ایک ہی بار میں ان کو بس اپنا کھانا کھاتے دیکھا جا سکتا تھا۔ اس وڈیو میں انھوں نے ہندی میں کہا ’ہیلو دوستوں، میں اس پلیٹ میں موجود کھانا کھانے لگا ہوں۔‘ اس کے بعد انہوں نے وضاحت کی کہ اس پلیٹ میں کیا ہے اور پھر کھانا کھا لیا
لیکن اگر اب ان کے چینل کی وڈیوز کو دیکھا جائے تو فرق صاف واضح ہے۔ فروری 2022 کی وڈیوز کا مواد بہت مختلف ہے۔ اب وہ ہر کھانے کی یا ہر دن وڈیو نہیں بناتے بلکہ خصوصی اوقات چنتے ہیں، جیسا کہ گاؤں کی ایک دعوت
بھارتی شہری ہر جگہ سے ان کی وڈیوز دیکھتے ہیں اور ان پر تبصرے کرتے ہیں، جن میں وہ اپنے گھروں کے کھانے سے ان کے کھانوں کا موازنہ بھی کرتے ہیں
بہت سے لوگ اس بات کی تعریف کرتے ہیں کہ وہ کتنی سادگی اور بناوٹ کے بغیر اپنی زندگی دوسروں کے سامنے لاتے ہیں۔ ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ ’ان کی کمیونٹی کی دعوت میں تو بہت مزہ آتا ہے۔‘ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’ان کو واقعی معلوم ہے کہ خوراک کی قدر کیا ہے اور اس کی عزت کیسے کرنی ہے۔‘
وقت کے ساتھ منڈا کی شہرت بھی پھیل چکی ہے۔ اپنے پسندیدہ گھر کے پکوانوں سے اب وہ اپنے چینل کے صارفین کی فرمائشوں پر بھی مختلف پکوان بناتے ہیں۔ شمالی بھارت کے آلو پراٹھے اور چاو من کی بھارتی ترکیب بھی ان کی وڈیوز میں شامل ہیں
ان وڈیوز میں کھانے کے چیلنج بھی ہیں۔ چاول کے ایک چیلنج میں انہوں نے زمین میں آگ پر چاول پکائے اور پھر اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر مزے سے کھائے
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم روزانہ سادہ کھانا کھاتے ہیں‘، اگرچہ اب وہ پہلے کی نسبت زیادہ گوشت بھی کھا سکتے ہیں
منڈا جب مزدوری کرتے تھے تو دن میں ڈھائی سو روپے کماتے تھے اور ایک مہینے میں اٹھارہ سے بیس دن کام کرتے تھے۔ اپنے والدین کے علاوہ چھ افراد کے خاندان کے گزر بسر کے لیے یہ رقم ناکافی تھی
اب ان کو ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ جیسے جیسے ان کے چینل کی شہرت بڑھتی گئی، ان کی کمائی میں بھی اضافہ ہوتا گیا
جن دنوں ان کے چینل کو بہت شہرت ملی، تب وہ ماہانہ تقریباً تین لاکھ روپے تک کما رہے تھے۔ لیکن اگر کبھی وڈیوز کو دیکھنے والوں کی تعداد کم ہو جائے، تو کمائی بھی کم ہو جاتی ہے
آج کل اوسطاً وہ ایک مہینے میں ساٹھ سے ستر ہزار روپے کما لیتے ہیں
اس کمائی سے ہی انہوں نے اپنی پرانی جھونپڑی کی جگہ دو منزلہ کنکریٹ کا گھر بنوا لیا ہے، جس پر تقریباً دو لاکھ روپے خرچ ہوئے
یہی نہیں، انہوں نے اپنے بچوں کی پڑھائی کے لیے بھی پیسے بچا رکھے ہیں اور ایک استعمال شدہ گاڑی بھی خریدی ہے ۔ اب وہ وڈیوز کی ایڈیٹنگ کے لیے بھی ایک لیپ ٹاپ استعمال کرتے ہیں
منڈا اپنے علاقے کی ایک مشہور شخصیت بن چکے ہیں اور کبھی کبھار وہ گاؤں والوں کے لیے شاہانہ دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں، جن میں مرغی کی ڈش بھی ہوتی ہے
اب ان کا اگلا خواب اپنے بچوں کو ایک انگریزی اسکول میں داخل کرانا ہے
وہ کہتے ہیں ”میں چاہتا ہوں کہ ان کو بہترین تعلیم ملے۔ اگر میں تھوڑی سی پڑھائی سے یہ سب کر سکتا ہوں تو مجھے یقین ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کہ یہ بہت بہتر کر پائیں گے“