لاہور – یہ 24 جنوری 2022 کی بات ہے، جب حسنین شاہ حسب معمول دوپہر بارہ بجے کے قریب اٹھے اور اپنی اہلیہ مہوش کو کہا کہ وہ پانی گرم کر دیں تاکہ وہ ناشتے کے بعد اپنے بال دھو سکیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ناشتہ تیار ہو گیا، جسے کرتے ہی حسنین نے بال دھوئے اور اپنے دوست کی والدہ کے نماز جنازہ میں شرکت کے لیے شالیمار ٹاؤن میں واقع اپنے گھر سے نکل کھڑے ہوئے
جنازے سے فارغ ہو کر حسنین ڈیوس روڈ پر واقع اپنے آفس جانے والے راستے پر چل پڑے۔ اسی دوران ان کا موبائل کے ذریعے اپنے دوست وسیم صابر سے رابطہ ہوا۔ حسنین اپنے دوست وسیم سے گپ شپ بھی لگا رہے تھے اور گاڑی بھی ڈرائیو کر رہے تھے اور اسی بات چیت کے دوران ان کی گاڑی ڈیوس روڈ پر واقع ٹریفک اشارے پر آ کر رُکی
موبائل فون پر ہونے والی اس بات چیت کے دوران اچانک حسنین نے غیرارادی طور پر کہا ’ایہہ کی ہے‘ (یہ کیا ہے) اور اس کے بعد وسیم کو گولیاں چلنے کی آواز آئی
وسیم بتاتے ہیں ”حسنین کے منھ سے نکلنے والے غیرارادی الفاظ اور گولیوں کی آواز سُن کر میں نے بارہا ’ہیلو، ہیلو‘ کہا، لیکن حسنین کچھ بول نہیں رہے تھے“
وسیم نے فون کاٹ کر حسنین کو دوبارہ فون کیا، لیکن اس مرتبہ کسی نے کال اٹھائی ہی نہیں
وسیم صابر کے مطابق اس بات پر وہ پریشان ہو گئے اور چند ہی منٹوں بعد کرائم رپورٹرز کے واٹس ایپ گروپ میں یہ پیغام موصول ہوا ”حسنین شاہ کو قتل کر دیا گیا“
وسیم موقع پر پہنچے تو دیکھا حسنین شاہ کی لاش ان کی سفید گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر پڑی تھی اور موقع واردات پر لوگوں کا ہجوم جمع ہو چکا تھا
محمد حسنین کے قتل کے بعد ان کے گاڑی کے گرد پولیس اور عوام جمع ہیں
حسنین شاہ کو لاہور کی مصروف ترین شاہراہ یعنی ڈیوس روڈ کے ٹریفک اشارے پر دس گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا
لاہور پولیس کے مطابق صوبائی دارالحکومت میں سنہ 2022ع کا یہ پہلا قتل تھا، جو شوٹرز یا کرائے کے قاتلوں کے ذریعے کروایا گیا تھا
جب حسنین شاہ اپنے دوست کی والدہ کی نماز جنازہ پڑھ رہے تھے اور اپنے دوست وسیم سے گپ شپ کر رہے تھے، تو انہیں معلوم نہیں تھا کہ اسی دوران پچیس سے تیس سال کی عمر کے دو نوجوان اپنا ’کام‘ یعنی حسنین شاہ کو قتل کرنے کی غرض سے اپنے شکار کا انتظار کر رہے تھے
پولیس تفتیش اور سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق حسنین کے قتل سے کچھ ہی دیر قبل لاہور کی ڈیوس روڈ پر ایک ہنڈا 125 موٹر سائیکل آ کر رُکتی ہے، جسے کالے رنگ کی پینٹ اور اورنجی رنگ کا اپر پہنے ایک لڑکا یاسر چلا رہا تھا
یاسر سڑک پار کر کے کیپیٹل ٹی وی کے دفتر کے ساتھ ایک چھوٹے سے کھوکھے کے پاس آ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور تقریباً دو گھنٹے بعد ایک کار اسی کھوکھے کے پاس آ کر رُکتی ہے، جس میں سے کالی پینٹ اور سفید جوگرز کے ساتھ سبز رنگ کا اپر پہنے یاسر کی عمر کا ہی ایک نوجوان زین اُترتا ہے
جب حسنین شاہ اپنی گاڑی لے کر اُس طرف آتے ہیں تو یہ دونوں موٹر سائیکل سوار اُن کی گاڑی کا پیچھا کرتے ہیں، لیکن گاڑی مسلم لیگ ہاؤس کے اشارے سے واپس ڈیوس روڈ پر شملہ پہاڑی لاہور پریس کلب کی طرف مڑ جاتی ہے
حسنین شاہ کی گاڑی جیسے ہی شملہ پہاڑی کے اشارے پہ رکتی ہے، تو موٹر سائیکل کی پچھلی نشت پہ بیٹھا شوٹر نیچے اُترتا ہے اور بند شیشے سے ہی پستول کی دس گولیاں فائر کرتا ہے، جو تمام حسنین کے سینے پر لگتی ہیں، جبکہ دونوں شوٹرز پولیس لائنز سے ہوتے ہوئے برانڈرتھ روڈ کی طرف بھاگ جاتے ہیں
دونوں شوٹرز تاحال گرفتار نہیں ہوسکے، جبکہ اس قتل کے ماسٹر مائنڈ سمیت دیگر ملزمان کو پولیس نے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے
ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور شہزادہ سلطان کے مطابق جس مہارت سے حسنین شاہ پر فائر کیے گئے، وہ پیشہ ور شوٹر کا ہی کام تھا۔ ”شوٹر نے اس مہارت سے فائر کیے کہ گاڑی کا سائڈ مرر بھی مکمل نہیں ٹوٹا اور ایک بھی فائر اِدھر اُدھر نہیں بلکہ تمام سیدھے سینے پر لگے جو فوری موت کی وجہ بنے“
شہزادہ سلطان کے مطابق، حسنین شاہ کو لین دین کی بنیاد پر شوٹروں کے ہاتھوں قتل کروایا گیا تھا
پولیس کے تفتیشی ذرائع کے مطابق کرائم رپورٹر حسنین شاہ کو قتل کرنے کا منصوبہ اس کیس کے گرفتار مرکزی ملزم کے جیل روڈ پہ واقع دفتر میں بنا تھا اور شوٹروں کا بندوبست مرکزی ملزم کے دوست نے کیا تھا۔ شوٹرز کا بندوبست کرنے والا مبینہ سہولت کار بھی زیر حراست ہے
پولیس ذرائع کے مطابق قتل کا منصوبہ قتل سے محض کچھ ہفتے قبل ہی بنا تھا، جس کے بعد دونوں شوٹرز کو مرکزی ملزم سے ملوایا بھی گیا تھا اور قتل سے پہلے حسنین شاہ کی باقاعدہ ریکی کی گئی، جس کے بعد اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا گیا
دوسری طرف حسنین شاہ کی بیوہ مہوش بتاتی ہیں ”میرے شوہر نے کچھ ماہ قبل مجھے اتنا ضرور بتایا تھا کہ وہ شہر کے جیولرز کے پیچھے پڑ ے ہیں، کیونکہ وہ اچھا کام نہیں کرتے۔“حسنین شاہ کی بیوہ کی مطابق اس کے مقتول شوہر لوگوں کے تھانے، کچہریوں کے کام حل کرواتے تھے، جس کے عوض انہیں کچھ آمدن ہو جاتی تھی اور اسی آمدن سے وہ اپنا گھر اور گاڑی خریدنے میں کامیاب ہوئے تھے
سی سی پی او لاہور ایڈیشنل آئی جی پولیس فیاض احمد دیو کے مطابق حسنین شاہ کے قتل میں کل چار لوگ ملوث تھے۔ سی سی پی او نے دعویٰ کیا کہ ملزم عامر بٹ اور شاہد بٹ دونوں بھائیوں نے یہ منصوبہ بنایا، جس کے مطابق حیدر شاہ اور امجد پاشا دونوں نے شوٹرز کو کیپیٹل ٹی وی کے دفتر کے باہر والے علاقے میں لانا تھا، انہیں اسلحہ دینا تھا
فیاض احمد دیو نے ایک پریس کانفرنس کے دوران مزید بتایا تھا کہ شوٹرز کو اس کام کے لیے پانچ لاکھ روپے ادا کیے گئے تھے
تاہم یہ واحد کیس نہیں لاہور شہر ہی میں دسمبر میں مسلم لیگ ن کے ایم پی اے بلال شاہ اور ایف بی آر افسران پر حملوں کی تفتیش میں بھی پولیس نے دعویٰ کیا کہ ان وارداتوں میں بھی کرائے کے قاتلوں کا استعمال کیا گیا
پولیس کے تفتیشی افسران کے مطابق دسمبر میں ایف بی آر کے سینیئر افسران پر حملے کے لیے شوٹرز کو فقط پچیس ہزار دیے گئے تھے. بلال یاسین کا کیس کچھ منفرد ہے جس میں حملہ آوروں کو، پولیس کے مطابق، پیسے نہیں بلکہ آئس نامی نشہ بھاری مقدار میں فراہم کیا گیا تھا
لاہور میں کرائے کے شوٹرز: ”جتنا بڑا ٹارگٹ، اتنا ریٹ“
لاہور میں تعینات پولیس کی آرگنائزڈ کرائم ایجنسی (سی آئی اے) سے منسلک ایک سینیئر اہلکار نے بی بی سی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لاہور میں اس وقت پولیس اندازے کے مطابق لگ بھگ ڈیڑھ سے دو سو کے قریب ایسے شوٹرز موجود ہیں جو پیسے لے کر قتل، زخمی کرنے، ڈرانے، دھمکانے، گھروں پر فائرنگ کرنے، بھتہ وصول کرنے، زمینوں پر قبضے کرنے اور قبضے چھڑوانے سمیت دیگر مختلف سنگین جرائم میں ملوث ہیں
پولیس اہلکار کے مطابق ’جتنا بڑا ٹارگٹ ہو گا، اسی حساب سے اس کا ریٹ ہوگا اور یہ ریٹ بیس ہزار سے شروع ہر کر پانچ لاکھ روپے تک جاتا ہے‘
13 جنوری کو ایس پی سٹی آپریشنز ونگ حفیظ الرحمان بگٹی اور ایس پی سٹی انوسٹیگیشن ونگ سرفراز ورک نے بھی ایک پریس کانفرنس کے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس نے شادباغ کے علاقے سے کم از کم سات شارپ شوٹرز کو گرفتار کیا ہے جو قتل، بھتہ اور دیگر سنگین جرائمز میں ملوث تھے۔ پولیس افسران کے دعوے کے مطابق گرفتار شوٹرز افضال عرف کنوں نامی گینگسٹر کے لیے کام کرتے تھے
لاہور پولیس کے سربراہ سی سی پی او لاہور فیاض احمد دیو بتاتے ہیں کہ سنہ 2022 کے دوران لاہور پولیس بیس سے پچیس کے قریب شوٹرز کو گرفتار کر چکی ہے
انہوں نے کہا ”بہت سے نوجوان منشیات کی وجہ سے ایسے جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں جبکہ کچھ پارٹی بوائز ہوتے ہیں، جو ایسی محفلوں سے متاثر ہو کر جرم کا راستہ چُن لیتے ہیں“
فیاض احمد دیو یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ لاہور جیسے شہر میں شوٹرز کے ذریعے بندے مروانے یا زخمی کروانے کا کام بڑے آرگنائزڈ یعنی منظم انداز سے جاری ہے
فیض احمد دیو یہ بھی کہتے ہیں کہ ’جو شوٹرز بیرون ملک فرار ہیں انہیں واپس لانے کے لیے بھرپور کوششیں جاری ہیں۔‘
’شوٹرز سینکڑوں نہیں، محدود ہیں‘
ڈی آئی جی انوسٹیگیشن لاہور شہزاد سلطان کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال دسمبر سے ایسے چند ہی کیسز سامنے آئے ہیں جن میں شوٹرز ملوث تھے. ”کرائے قاتلوں کی تعداد سینکڑوں میں نہیں، بلکہ محدود ہے۔ میں بڑی ذمہ داری سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ لاہور میں پروفیشنل شوٹرز دس, بیس سے زیادہ نہیں ہیں ورنہ روزانہ کی بنیاد پر ایسے قتل ہو رہے ہوتے“
لیکن اگر یہ مان لیا جائے کہ تربیت یافتہ پروفیشنل شوٹرز کی تعداد کم ہے تو کیا ایسے اور لوگ بھی ہیں، جو پیسوں کے عوض کوئی بھی جرم کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں؟
ڈی آئی جی انوسٹیگیشن کے مطابق ایسے افراد کی تعداد سینکڑوں میں ہے، جو بے روزگاری یا نشے کی لت کی وجہ سے جرائم اور گولی چلانے کے لیے میسر ہیں
لیکن وہ کہتے ہیں کہ ایسے لوگ پروفیشنل شوٹرز نہیں۔ اس کی ایک مثال انہوں نے بلال یاسین پر حملے کی تفتیش سے دی
”بلال یاسین پر حملہ کرنے والوں کو صرف مفت آئس دی گئی!“
مسلم لیگ نواز کے ممبر صوبائی اسمبلی پنجاب اور سابق صوبائی وزیر بلال یاسین پر لاہور میں گذشتہ سال 31 دسمبر کو نقاب پوش افراد نے گولیاں چلائیں۔ بلال یاسین اس حملے میں زخمی ہوئے تھے
ڈی آئی جی انوسٹیگیشن لاہور شہزادہ سلطان نے بتایا کہ بلال یاسین پر حملہ کرنے والے پروفیشنل شوٹر نہیں تھے اور نا ہی مقصد اُن کو قتل کرنا تھا
ڈی آئی جی انوسٹیگیشن لاہور شہزادہ سلطان دعویٰ کیا کہ بلال یٰسین اور ان پر مبینہ طور پر حملہ کروانے والے مرکزی ملزم میاں حسیب عرف میاں وکی کے قریبی تعلقات کسی معاملے پر خراب ہونے کے بعد میاں وکی نے یہ حملہ کروایا۔ واضح رہے کہ میاں وکی بیرون ملک فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے
شہزادہ سلطان کے مطابق ”بلال یٰسین پر حملہ کرنے والے شوٹرز کو اس دن صرف مفت آئس دی گئی تھی کہ یہ لے لو اور چھوٹا سا کام کر آؤ، ٹارگٹ پر گولیاں چلانی ہیں اور اسے ڈرا کر واپس آ جانا ہے۔“
ان کے مطابق، بلال یٰسین پر حملہ محض ڈرانے کے لیے ہی کیا گیا تھا
شہزادہ سلطان کہتے ہیں کہ ’بلال یسین پر گولی چلانے والا آئس کا نشہ کرتا تھا اور کبوتر بازی کرتا تھا، جس کا کوئی پولیس رکارڈ بھی نہیں تھا۔‘
”اس کا چچا زاد بھائی موٹر سائیکل چلا رہا تھا۔ کیونکہ وہ تربیت یافتہ نہیں تھا اس لیے بلال یاسین پر گولیاں چلانے کے بعد اتنا حواس باختہ ہوا کہ اس کے ہاتھ سے پستول ہی گر گئی۔ وہ زندگی میں پہلی بار پستول چلا رہا تھا“
ڈی آئی جی انوسٹیگیشن کے مطابق ”جب ان شوٹرز نے واردات کے بعد اپنے ہینڈلرز کو دو کی بجائے ایک پستول واپس کی تو اُن کو تھپڑ مارے گئے اور کہا گیا کہ تم دو لاکھ کی پستول گرا آئے“
انہوں نے کہا کہ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ ملزمان کو گرفتاری سے زیادہ ایک مہنگے پستول کی فکر تھی
’کاروباری لوگ کسی سرکاری افسر کو قتل نہیں کراتے‘
بلال یاسین پر حملے سے صرف تین ہی دن قبل لاہور میں ایک اور واقعہ بھی پیش آیا تھا، جس میں نامعلوم موٹر سائیکل سوار حملہ آور ایف بی آر ڈپٹی کمشنر کی گاڑی پر عقب سے فائرنگ کے بعد فرار ہو گئے تھے
اس حملے میں گاڑی میں سوار دونوں افسران محفوظ رہے. اس واقعے کی تفتیش میں بھی کرائے کے شوٹرز کے استعمال کا انکشاف ہوا لیکن یہ حملہ کیوں ہوا اور کس نے کروایا، اس راز سے بھی پردہ اٹھا
ڈی آئی جی انوسٹیگیشن لاہور نے بتایا کہ بتایا کہ ایف بی آر کے سینیئر افسر کا ایک نجی اسکول کے مالک سے ٹیکس کے معاملے پر تنازع تھا
”اس دوران ایک ’دیہاڑی دار‘ نے اسکول انتظامیہ کو کہا کہ وہ ان کا ٹیکس کا معاملہ کم پیسوں کے عوض حل کروا دیتا ہے، لیکن جیسے ہی ڈپٹی کمشنر اور اسکول مالک کے معاملات سلجھنے لگے تو مڈل مین نے ملزمان کو پیسے دے کر ایف بی آر کے افسر پر گولیاں چلوا دیں اور اسے زخمی کروا دیا“
شہزادہ سلطان کہتے ہیں ”کاروباری لوگ پیسے دے کر کام تو کروا لیتے ہیں لیکن کبھی بھی کسی سرکاری ملازم کو قتل یا زخمی کرانے کا نہیں سوچیں گے، یہ کاروباری لوگوں کا طریقہ کار نہیں“
کرائے کے قاتل کچھ بھی کر سکتے ہیں!
واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے لاہور میں جرائم پیشہ عناصر خصوصا قبضہ مافیا کے خلاف ایک بڑے آپریشن کا حکم دیا تھا، جس کے بعد پولیس نے بظاہر ایک بڑا آپریشن کیا
لیکن اس وقت لاہور میں آٹھ سے زیادہ ایسے اشتہاری ہیں جو پولیس کو قتل، اقدامِ قتل، ڈکیتی، بھتہ اور دیگر سنگین جرائم میں مطلوب ہیں۔ ان میں سے بہت سے جرم کی دنیا کے بڑے ناموں کے ساتھ وابستہ ہوکر شوٹرز (کرائے کے قاتل) بن جاتے ہیں
لاہور میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن میں شریک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لینڈ مافیا، جوا، پیسوں کی ریکوری کرنے اور بندے مروانے کے لیے شوٹرز رکھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جن لوگوں کی خاندانی دشمنیاں چل رہی ہیں انھوں نے بھی شوٹرز رکھے ہوتے ہیں
یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل لاہور پولیس نے لگ بھگ دو سو کے قریب ایسے شوٹرز کی لسٹ بھی تیار کی لیکن جب ملزمان نے اس لسٹ کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تو پولیس کی اعلیٰ قیادت نے کسی بھی ایسی لسٹ کے موجود ہونے کے متعلق صاف انکار کر دیا تھا
اس سینیئر پولیس افسر کے مطابق جرائم پیشہ افراد کے ڈیرے لاہور میں شوٹرز کے ٹریننگ سنٹر ہیں، جہاں ان کے مطابق ’غریب گھروں کے ان پڑھ بچوں کو پالا جاتا ہے، ان کی کھانے پینے، منشیات سمیت دیگر ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے اور انہیں بندوق چلانے کی تربیت دی جاتی ہے، پھر وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں، جسے ڈرانا، دھمکانا ہو، زخمی کرنا ہو یا پھر قتل کرنا ہو۔ مارنے والوں کو یہ پتا نہیں ہوتا کہ وہ کس کو مار رہے ہیں اور کیوں۔ وہ بس حکم پر عمل درآمد کرتے ہیں“
سینیئر پوليس افسر نے بتایا ”ایسے شوٹرز کو ٹارگٹ کی تصاویر دی جاتی ہیں، چند دن کی ریکی ہوتی ہے، جس کے بعد جگہ اور مقام کا وقت وہ خود طے کرتے ہیں اور ٹارگٹ کو نشانہ بناتے ہیں“
جرائم پیشہ افراد کے طریقہ واردات کے متعلق بات کرتے ہوئے ایک اور سینیئر پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ڈرانا، دھمکانا تقریبا 90 فیصد کیسز میں کام کر جاتا ہے اور تقریباً 10 فیصد میں ہی زخمی یا قتل کرنے کی نوبت آتی ہے تاکہ دوسروں کو پیغام دیا جا سکے کہ انکار کی صورت میں کیا ہو سکتا ہے
”انڈر ورلڈ یا جرم کی دنیا سے جڑے لوگ ڈرا دھمکا کر اپنا کام نکلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ زخمی کرکے یا ڈرا دھمکا کر اگر کام نکل جاتا ہے تو بندہ مارنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور اگر ان کا کام ڈرا کر ہی ہو جاتا ہے تو وہ زخمی کرنا بھی پسند نہیں کرتے، یہ انڈر ورلڈ کا بزنس ماڈل ہے“
لاہور میں کرائے کے قاتل نئے نہیں
آفتاب چیمہ سابق آئی جی پولیس ہیں، جو پہلے ایس ایس پی لاہور اور پھر ڈی آئی جی لاہور کے طور پر تقریباً پانچ سال کام کرتے رہے. وہ بتاتے ہیں ’یہ طریقہ واردات پہلے بھی موجود تھا، کیونکہ مختلف جرائم میں کرائے کے قاتل پہلے بھی استعمال ہوتے رہے ہیں‘
آفتاب چیمہ کا کہنا ہے کہ یہ کہنا کہ لاہور میں ایک کثیر تعداد میں شوٹرز آگئے ہیں، مخض مبالغہ آرائی ہے
اس کا قصور وار وہ خود پولیس کو بھی سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پولیس کیسز کی تفتیش سے جان چھڑانے اور اپنا کام آسان کرنے کی غرض سے کہہ دیتی ہے کہ فلاں کیس میں تو کرائے کے قاتل ملوث تھے۔‘
آفتاب چیمہ کے مطابق ’ایسا نہیں کہ لاہور میں شوٹرز نہیں اور ان کی تعداد بڑھی نہیں ہوگی لیکن ان کی تعداد پھر بھی بہت معمولی ہو گی۔‘
انڈر ورلڈ: لاہور کی جرم کی دنیا
لاہور پولیس شوٹرزکا تعلق مختلف ریکارڈ یافتہ ملزمان سے جوڑتی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ یہ لوگ لاہور کی انڈر ورلڈ میں بھی مکمل طور پر فعال ہیں
پولیس ریکارڈ کے مطابق ان ملزمان میں خواجہ عقیل عرف گوگی بٹ، جن پر سنہ 1985 سے سنہ 2021 کے دوران قتل، اغوا برائے تاوان، ناجائز اسلحہ رکھنے اور دیگر جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت کل سترہ مقدمات درج ہوئے، میاں حسیب عرف میاں وکی کے خلاف سنہ 2004 سے سنہ 2021 تک ایک درجن سے زیادہ مقدمات، سابق پولیس انسپکٹر عابد باکسر پر 1999 سے 2017 تک کم از کم پندرہ مقدمات، محمد اویس چیمہ پر سنہ 2005 سے سنہ 2021 تک اُنیس مقدمات، افضال حسین عرف کنوں پر سنہ 2007 سے سنہ 2020 تک پچیس اور زاہد بٹ عرف گولڈن پر سنہ 2015 سے سنہ 2018 تک اقدام قتل کے تین مقدمات درج ہو چکے ہیں
تاہم یہ تمام نامزد ملزمان پولیس کے الزامات کی نفی کرتے ہیں
ایک پولیس افسر کے مطابق کچھ کیسز میں مدعیوں کی طرف سے صلح کے بعد کیسز ختم کر دیے گئے، کچھ عدم پیروی اور دیگر وجوہات کی بنیاد پر خارج ہو چکے ہیں
ایک سینئر تفتیشی افسر نے، جو آرگنائزڈ کرائمز کی تفتیش میں اہم مقام رکھتے ہیں، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انڈر ورلڈ ایک غیر قانونی متوازن نظام ہے، جہاں طاقتور افراد پیسے کے عوض پیشہ افراد کا استعمال کرتے ہوئے کام کرتے ہیں
جہاں اس دنیا میں جرم عام ہے وہیں یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ بہت سے لوگ انصاف کے نظام سے مایوس ہو کر بھی انڈر ورلڈ سے رابطہ کرتے ہیں
پولیس افسر کے مطابق انڈر ورلڈ کے ذریعے لوگ اپنے مخالفین کے قتل سے لے کر اور بھی کئی کام کرواتے ہیں
سینیئر تفتیشی افسر کے مطابق انڈر ورلڈ کی طاقت اور دولت کا ایک اور ذریعہ غیر قانونی ’ٹیکس‘ یا بھتہ بھی ہوتا ہے
سینیئر تفتیشی افسر کے مطابق کاروباری لوگوں کو ڈرا دھمکا کر بھتہ لیا جاتا ہے کہ ’اتنا کماتے ہو، اس میں سے اتنا ہمیں چاہیے‘
اسی بھتے سے جڑی ’پروٹیکشن منی‘ بھی ہے۔ سینیئر تفتیشی افسر کے مطابق انڈر ورلڈ کے لوگ پہلے خود ہی کسی شخص کو ڈراتے ہیں اور پھر خود ہی متاثرہ شخص کی حفاظت یا پروٹیکشن کے نام پر پیسے بھی لیتے ہیں۔ ’ایک ڈان تنگ کرتا ہے تو دوسرا کہتا ہے کہ وہ اتنے پیسوں کے عوض اسے پروٹیکٹ کرے گا‘
تفتیشی افسر کے مطابق آرگنائزڈ کرائمز کو انڈر ورلڈ ایسے کنٹرول کرتی ہے، جیسے کوئی کمشنر اپنی ڈویژن اور ڈپٹی کمشنر اپنے ضلع کو کنٹرول کرتا ہے
’انہوں نے اپنے اپنے علاقے مختص کیے ہوئے ہیں کہ کون سا آرگنائزڈ کرائم کس علاقے میں کس گینگ نے کرنا ہے۔ علاقوں کی حد بندی پر یہ بہت یقین رکھتے ہیں۔‘
پولیس کے تفتیشی افسر کے مطابق ’یہ گینگز آپس میں نہیں لڑتے کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ آپس میں لڑ کر یہ تیسرے فریق یعنی پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کو دعوت دینے والی بات ہے جس سے یہ کمزور ہو سکتے ہیں‘
ان کا کہنا ہے کہ انڈر ورلڈ کو کچھ طاقتور لوگ بھی سپورٹ کرتے ہیں
انڈر ورلڈ اور پولیس کا مبینہ تعلق
ایک سوال کے جواب میں سینیئر تفتیشی افسر نے مزید بتایا کہ انڈر ورلڈ دو جرائم کی بنیاد پر پھلتی پھولتی ہے: ’جوا اور منشیات۔ اگر صرف ان پر قابو پا لیا جائے تو لاہور شہر سے جرائم خاص کر انڈر ورلڈ کرائم ختم ہو سکتا ہے۔‘
لیکن ایسا ہونا بظاہر مشکل ہے کیونکہ خود کئی سینیئر پولیس افسر بھی مانتے ہیں کہ اس انڈر ورلڈ کی دنیا اور پولیس کے درمیان ایک تعلق ہے۔
’یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جوا اور منشیات پولیس کی براہ راست معاونت اور سرپرستی سے ہی ہوتا ہے۔ خاص کر جوا تو پولیس کی زیر نگرانی ہی ہوتا ہے۔‘
پولیس کے تفتیشی افسر کا دعویٰ ہے کہ پولیس براہ راست ان دونوں کرائمز کو تخفظ دیتی ہے اور مالی فائدہ لیتی ہے۔
’میں تو ہمیشہ اعلیٰ پولیس حکام کی میٹنگز میں بھی اس بات کو دہراتا ہوں۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ہر ایس ایچ او اپنے علاقے میں جوئے اور منشیات کے اڈے بند کروا دے۔‘
ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور شہزادہ سلطان بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ لاہور میں انڈر ورلڈ موجود ہے لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ لاہور کی انڈر ورلڈ آج سے دس سے پندرہ سال پہلے جیسی طاقتور نہیں رہی
’لکشمی چوک، میکلوڈ روڈ وغیرہ پر سر عام دو دو، چار چار قتل روزانہ کی بنیاد پر ہوتے تھے، اب ایسا نہیں۔‘
شہزادہ سلطان کے دعوے کے مطابق انڈر ورلڈ کا پُرتشدد جرم کم ہو چکا ہے جبکہ اب جائیدادوں پر قبضے جیسے کرائم بڑھے ہیں۔
سابق آئی جی آفتاب چیمہ کہتے ہیں کہ ’ایسا نہیں کہ پندرہ ، بیس ڈان ہیں، جنہوں نے پورے لاہور شہر پر قبضہ کیا ہوا ہے، یہ مبالغہ ہے، قصے کہانیاں ہیں۔‘
سابق آئی جی پولیس کا کہنا تھا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ اشتہاریوں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن لاہور میں کوئی نو گو ایریا نہیں۔‘
آفتاب چیمہ نے مزید بتایا کہ جب وہ ڈی آئی جی لاہور تھے تو انڈر ورلڈ اور آرگنائزڈ کرائم کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
انسپکٹر عابد باکسر: ’لوگوں کی مدد کرنا کوئی جرم نہیں‘
اسپکٹر عابد باکسر کا نام لاہور میں انڈر ورلڈ کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، لیکن سابق پولیس انسپکٹر کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف تمام کیسیز جھوٹ کی بنیاد پر درج کیے گئے
’آج تک ایک بھی ایسا بندہ نہیں پکڑا گیا، جو کہتا ہو کہ اس نے عابد باکسر کے کہنے پر فلاں قتل، کسی کو زخمی یا کسی کو ڈرایا یا دھمکایا ہو۔‘
عابد باکسر نے شوٹرز سے متعلق ایک سوال پر کہا ’اگر میں نے لاہور میں شوٹرز رکھے ہوئے ہیں تو پولیس پکڑتی کیوں نہیں، کس نے روکا ہے انہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں عابد باکسر نے اعتراف کیا کہ وہ زمینوں سے قبضے چھڑوانے اور لوگوں کے درمیان صلح کروانے میں معاونت کرتے رہے ہیں
وہ کہتے ہیں ”اگر میں لوگوں کی مدد کرتا رہا ہوں تو اس میں کون سا جرم ہے۔ پنچائتی نظام تو خود سپریم کورٹ نے بھی بحال کرایا ہے“
عابد باکسر کے مطابق انہوں نے ماضی میں کئی کیسز میں صلح کرائی لیکن اب وہ اس طرح کا بھی کوئی کام نہیں کرتے
ان کا کہنا ہے ”میں نے یہ کام پیسے کے لالچ میں نہیں کیا۔ باقی لوگ تو پیسے لے کر یہ کام کرتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پیسے لے کر صلح کروانے سے نیکی کا مقصد ختم ہو جاتا ہے“
ایک اور سوال کے جواب میں عابد باکسر نے بتایا کہ ان کی وراثتی جائیداد کی مالیت ایک ارب روپے ہے، جو ڈکلئیر ہے جبکہ ان کو مختلف جائیدادوں سے کرائے کی مد میں ماہانہ چالیس لاکھ روپے آمدن ہوتی ہے
واضح رہے کہ افضال عرف کنوں اور میاں حسیب عرف وکی بیرون ملک فرار ہیں ۔افضال عرف کنوں، میاں وکی اور دیگر ملزمان نے بھی اپنے سوشل میڈیا پیغامات میں جرائم کی دنیا میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے.
قبضہ مافیا: پولیس کے متوازی نظام
لاہور میں زمینوں پر قبضوں کا معاملہ اور قبضہ مافیا کا سلسلہ بھی انڈر ورلڈ کی توجہ کا مرکز ہے
سینیئر پولیس اہلکار کے دعوے کے مطابق اگر کسی کی زمین یا پلاٹ پر قبضہ ہوجاتا ہے تو وہ ایسے عناصر کو کہتا ہے کہ ’آپ چاہے مجھے کم پیسے ہی دے دیں لیکن وہ پلاٹ رکھ لیں اور مجھے اتنے پیسے دلوا دیں۔‘
’ایسے عناصر زمینوں کو پھر زور زبردستی چھڑوانے کے لیے اپنے بندوں کو بھیجتے ہیں جو اس زمین کا قبضہ لیتے ہیں یوں اونے پونے داموں انھیں زمین کا وہ حصہ مل جاتا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب سینیئر اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ ایسے لوگ باقاعدہ رجسٹریاں کرواتے ہیں اس لیے ان کے نام وہ جائیداد باقاعدہ قانونی طریقے سے منتقل ہوتی ہے جس کی بنیاد پر پولیس ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتی
’پولیس کے لیے مشکل پہلو یہ ہے کہ جب وہ ایسے لوگوں کو گرفتار کرتی ہے تو وہ کچھ عرصہ جیل میں رہتے ہیں اور اس دوران متاثرہ فریق پر دباؤ ڈال کر صلح کروا لیتے ہیں اور جیل سے باہر آ جاتے ہیں۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں سینیئر پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ ایسے کیسیز میں ملوث ملزمان ہمیشہ تگڑے وکیل کرتے ہیں جو عدالتی معاملات میں ان کا بھرپور خیال رکھتے ہیں۔
اس معاملے پر سابق آئی جی آفتاب چیمہ نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اس میں پولیس بھی کسی حد تک شامل ہو لیکن ’زمینوں پر قبضے محکمہ مال کی معاونت کے بغیر ہو نہیں سکتے۔‘
پولیس کی مشکلات
انڈر ورلڈ اور قبضہ مافیا کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ یہ اہم سوال ہے جس کا ایک جواب تو پولیس اور انڈر ورلڈ کے تعلق میں چھپا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ پولیس کو بھی چند مشکلات کا سامنا ہے
ڈی آئی جی انوسٹیگیشن کے مطابق ملزمان کو بروقت سزائیں ملنی چاہیے۔ ’پولیس کا بہتر ہونا، ان کی پیشہ وارانہ قابلیت بڑھانا بھی بہت ضروری ہے لیکن ہمارا کریمینل جسٹس سسٹم بہت پرانا ہو چکا ہے۔ کریمینلز جرم کرنے میں بہت آگے جا چکے ہیں جبکہ ہمارا فوجداری نظام عدل بہت پیچھے رہ گیا ہے۔‘
’نظام عدل جتنا مضبوط ہو گا جرائم پر قابو پانے میں اتنا ہی معاون ہوگا۔‘
شہزادہ سلطان کہتے ہیں ”پولیس ملزم کو پکڑ کر عدالت لے آتی ہے، لیکن پراسیکیوشن ٹھیک نہیں ہوتی جس سے سزائیں کم ہوتی ہیں۔ پولیس اور پراسیکیوشن کو تگڑا کرنے کی اشد ضرورت ہے، بہتر تعاون سے ہی ملزمان کو سزائیں دلوانے میں مدد ملے گی، جس سے جرائم پہ قابو پایا جا سکے گا“
اُن کا کہنا ہے ”کرائم کے بڑھنے میں ہمارے سماجی و معاشی حالات، بے روزگاری، معاشی ناہمواری، یکساں مواقع نہ ملنے کا بھی ہاتھ ہے“