ہائی کورٹ نے ریاست میں چند مسلمان لڑکیوں کی جانب سے اس حوالے سے دائر کردہ درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انفرادی حقوق پر ادارے کی نظم و ضبط کو برتری حاصل ہے۔
مذکورہ تنازع کا آغاز جنوری میں ہوا جب کرناٹک کے ضلع اڈوپی میں واقع سرکاری اسکول میں طالبات کو حجاب پہن کر کلاس روم میں داخل ہونے سے منع کیا گیا تھا۔
جس کے بعد مسلمانوں کی جانب سے احتجاج کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ انہیں تعلیم اور مذہب کے بنیادی حق سے محروم کیا جارہا ہے۔
مسلمانوں کے احتجاج کے بعد ہندو طلبہ نے بھی احتجاج کیے، اس دوران مظاہرین نے زعفرانی رنگ کی چادر پہنی ہوئی تھی، یہ رنگ ہندو مذہب اور ہندو قوم پرستی کی عکاسی کرتا ہے۔
ریاست کے مزید اسکولوں میں بھی اسی طرح کی پابندی لگائی گئی تھی اور ریاست کی اعلیٰ عدالت نے فیصلہ آنے تک طالبات کو حجاب یا کسی بھی مذہبی لباس پہننے سے منع کردیا تھا۔
کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رتو راج اوستھی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کا کہنا تھا کہ ’یونیفارم کا دستور بنیادی حقوق پر ایک معقول پابندی ہے‘۔
عدالت نے 10 فروری کو مسلمان طالبات کو ہدایت دی تھی کہ جب تک عدالت حجاب پر پابندی کو ختم کرنے کی درخواستوں پر فیصلہ نہیں سنا دیتی اس وقت تک کوئی بھی مذہبی لباس نہ پہنیں۔
ہزاروں لڑکیوں کو حجاب پہننے کے سبب سکول اور کالج کے دروازوں سے واپس لوٹا دیا گیا تھا۔
یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد کرناٹک کے وزیر اعلیٰ باسو راج بومئی نے مسلم طالبات سے اپیل کی ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے کا احترام کریں اور کلاسوں میں جا کر اپنے پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھیں۔
یہ درخواست دائر کرنے والی طالبات نے فی الحال ہائی کورٹ کے آرڈرز پر کوئی رد عمل نہیں دیا ہے، تاہم ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جا سکتی ہے۔