واشنگٹن ڈی سی: امریکی نفسیاتی و اعصابی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ اگر ہم اجتماعی طور پر جدید طرزِ حیات چھوڑ کر، زندگی گزارنے کا صدیوں پرانا انداز اختیار کرلیں تو بیشتر نفسیاتی بیماریوں سے ہمارا پیچھا چھوٹ جائے گا
یہ بات انہوں نے ایمیزون کے گھنٹے جنگلات میں رہنے والے قبائل پر ایک تحقیق کے بعد کہی ہے جو آج بھی اسی طرح سے زندگی گزار رہے ہیں کہ جیسی وہ صدیوں پہلے گزارا کرتے تھے
واضح رہے کہ اب تک نفسیاتی ماہرین میں یہ بحث جاری ہے کہ مختلف دماغی، نفسیاتی اور اعصابی بیماریوں مثلاً ڈپریشن اور ڈیمنشیا میں ہمارے طرزِ حیات کا کوئی کردار ہے یا نہیں۔
جدیدیت پسند ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر لائف اسٹائل اور دماغی امراض میں کوئی تعلق ہے تو اس کا کوئی ثبوت بھی ہونا چاہیے
ایمیزون میں تحقیق سے یہ ثبوت بھی مل گیا ہے، جہاں سے معلوم ہوا ہے کہ ان جنگلات میں صدیوں پرانے طرزِ حیات پر رہنے والے لوگوں میں ڈیمنشیا کی شرح دنیا میں سب سے کم (تقریباً 1 فیصد) ہے
دیگر دماغی اور اعصابی بیماریوں کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف محسوس نہیں ہوتا
واضح رہے کہ دیگر امراض کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ڈیمنشیا کے مریض بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ سرِدست ڈیمنشیا کے 5 کروڑ 50 لاکھ مریض ریکارڈ پر ہیں جبکہ ممکنہ طور پر یہ تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہے
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو 2030 تک ڈیمنشیا کے مریضوں کی عالمی تعداد 8 کروڑ، جبکہ 2050 تک 14 کروڑ ہوسکتی ہے
ماہرین کے مطابق، 60 سال سے زیادہ عمر کے تقریباً 25 فیصد بزرگوں کو ڈیمنشیا ہوسکتا ہے۔ امریکا میں 65 سال یا زیادہ عمر کے 11 فیصد افراد کو ڈیمنشیا ہے، لیکن ایمیزون کے پسماندہ قبائل میں یہ شرح صرف 1 فیصد دیکھی گئی ہے
اس مشاہدے سے تصدیق ہوئی ہے کہ جدید زمانے کا طرزِ حیات جسم کے ساتھ ساتھ دماغ کےلیے بھی خطرناک ہے
یہ نتیجہ ایک طویل تحقیق کی ابتداء ہے کیونکہ ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ آخر وہ کون کونسے عوامل ہیں جو ڈیمنشیا اور دوسری دماغی/ نفسیاتی بیماریوں سے بچانے میں خصوصی کردار ادا کرتے ہیں
بحوالہ: ریسرچ جرنل ’’الزائیمرز اینڈ ڈیمنشیا‘‘