ڈیوڈ ہیوم کی تشکیک، عقل اور معجزے

یاسر پیرزادہ

ڈیوڈ ہیوم سے میری ملاقات ایڈنبرا میں ہوئی۔ اُس ملاقات میں اُنہوں نے مجھے اپنی کتاب ”An enquiry concerning Human Understanding“ کا مسودہ دکھایا، جو میری پسندیدہ کتابوں میں سے ایک ہے۔ ہیوم نے پسندیدگی کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا کہ اِس میں آپ نے عقل و خرد کی ایسی گتھی سلجھا دی ہے، جو اِس سے پہلے کسی سے نہ سلجھی تھی۔ یہ بات سُن کر ہیوم صاحب بہت خوش ہوئے لیکن پھر یکایک مجھے گھور کر بولے ’’بھلا بتاؤ تو کیسے؟‘‘ میں نے گلا کھنکھار کر عرض کیا کہ ’’آپ نے اپنی کتاب میں عقلیت پسندوں کی خوش فہمی کے آگے بند باندھ دیا ہے، آپ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہر بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا ممکن نہیں۔ آپ نے لکھا ہے کہ انسان اپنی عقل سے جیسے کام لیتا ہے، اسے دو طریقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ایک کو ہم خیالات کا باہمی تعلق کہہ سکتے ہیں اور دوسرے کو واقعاتی حقائق۔ پہلے طریقے میں کوئی جھگڑا نہیں، اِس میں ریاضی، الجبرا اور جیومیٹری وغیرہ کے علوم آتے ہیں، اِن کے بارے میں نتائج تسلیم شدہ ہیں، کائنات میں کہیں بھی تین کو پانچ سے ضرب دیں گے تو حاصل ضرب تیس کا نصف آئے گا، اسی طرح مسئلہ فیثا غورث کو جہاں بھی حل کریں گے ایک ہی جواب آئے گا۔ دوسری قسم کی باتیں واقعاتی نوعیت کی ہیں، جنہیں ریاضی یا ہندسہ کے اصولوں کی طرح حتمی انداز میں ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کل سورج طلوع نہیں ہوگا تو یہ بات اُس ’دلیل‘ سے کسی طور کم نہیں ہوگی کہ کل سورج طلوع ہوگا۔ ہم چونکہ سالہا سال سے سورج کو طلوع ہوتا دیکھ رہے ہیں اِس لیے یہ بات ہمارے لیے ایک عقلی استدلال کی حیثیت اختیار کر گئی ہے جبکہ حقیقت میں یہ محض ہمارا تجربہ اور مشاہدہ ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں!‘‘

یہاں رک کر میں نے ہیوم سے پوچھا کہ کیا میں نے اُن کے فلسفے کی درست تفہیم کی ہے؟ جس پر انہوں نے جواب میں یوں سر ہلایا جیسے کہہ رہے ہوں کہ ہاں گزارا ہے۔ میرے لیے یہ بھی کافی تھا، سو میں نے اپنی بات جاری رکھی ’’آپ نے اپنی کتاب میں علت و معلول کے قانون پر جو بحث کی ہے وہ بہت عمدہ ہے، مثلاً دو واقعات جب آگے پیچھے رونما ہوتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ اِن واقعات کا باہمی تعلق ہے جبکہ یہ محض ہمارے سوچنے کا طریقہ کار ہے، جس کی وجہ سے ہمیں یہ ’تعلق‘ دیکھنے کی ’عادت‘ ہو گئی ہے اور یہ عادت اِس وجہ سے پختہ ہوچکی ہے کہ اِس کے بغیر ہم واقعات کا باہمی ربط ہی نہیں سمجھ پاتے۔ علت و معلول کے قانون میں جو مفروضہ پوشیدہ ہے، وہ یہ ہے کہ جو بات صدیوں سے ہوتی چلی آئی ہے، وہ مستقبل میں بھی ویسی ہی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اِس طریقہ استدلال کو عقلی نہیں کہا جا سکتا اور یوں اِس بات کا کوئی ثبوت مہیا نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کل سورج لازماً طلوع ہوگا مگر اِس کے باوجود ہم اِس بات پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں حالانکہ یہ بات عقل سے ثابت نہیں۔ گویا انسان اپنی عادت، جبلت یا ضرورت کے تابع ہو کر سوچتے ہیں نا کہ عقل کے تابع ہوکر… لیکن یہاں میرا آپ سے ایک سوال ہے؟‘‘
ہیوم صاحب مسکرا کر بولے ’’ہاں ہاں، پوچھو۔‘‘
میں نے کہا کہ ’’آپ نے تشکیک کا سارا مقدمہ تو کھڑا کر دیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ روز مرہ زندگی میں اتنا شک بھی نہیں کرنا چاہیے کہ زندگی ہی اجیرن ہوجائے، یعنی ہمیں کامن سینس سے کام لیتے ہوئے زندگی کے فیصلے کرنے چاہئیں۔ کیا یہ بات آپ کے پورے فلسفے کی نفی نہیں؟‘‘ ہیوم نے میرا سوال سن کر یوں سر ہلایا، جیسے وہ اسی کی توقع کر رہے تھے ’’بات یہ ہے برخوردار کہ انسان کو فلسفیانہ سوچ ضرور اپنانی چاہیے مگر اس سے بھی بڑھ کر اسے پہلے انسان ہونا چاہیے۔ بطور انسان ہمارے حواس جس خارجی دنیا کا مشاہدہ کرتے ہیں، اُس مشاہدے کے تحت ہم کچھ اصول اور طریقہ کار بھی وضع کر لیتے ہیں تاکہ عملی زندگی آسانی سے گزاری جا سکے، ہم جانتے ہیں کہ حواس کا مشاہدہ ہمیشہ حقیقت کے قریب نہیں ہوتا لیکن اِس کے باوجود ہم اپنی عملی زندگی کے طریقے اور ضابطے تبدیل نہیں کرتے اور یہ عقل کے خلاف ایک اور دلیل ہے۔ رہی بات تشکیک کے فلسفہ کی تو یہ فلسفہ ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی بات حتمی نہیں، آپ کے نظریات ہوں یا آپ کا طرزِ استدلال، دونوں غلط ہو سکتے ہیں، اور جب انسان یہ سوچ اپنا لیتا ہے تو اُس میں عاجزی آجاتی ہے اور وہ درشت یا سخت گیر نہیں رہتا۔ کیا یہ فلسفے کا احسان نہیں؟‘‘

میں ہیوم سے کچھ مزید سوال بھی پوچھنا چاہتا تھا، جیسے کہ اُن کا معجزات پر ایمان نہ رکھنے کا معاملہ۔ ہیوم نے ایک جگہ لکھا ہے کہ یہ کوئی معجزہ نہیں کہ ایک ہٹا کٹا انسان یکدم مر جائے کیونکہ اِس قسم کی موت، چاہے غیر معمولی ہی کیوں نہ لگے، بہرحال ہمارے مشاہدے میں آتی رہتی ہے۔ لیکن کسی مردہ انسان کا اٹھ کر بیٹھ جانا معجزہ کہلائے گا کیونکہ یہ بات کبھی کسی کے مشاہدے میں نہیں آئی۔ ہیوم کی دلیل یہ تھی کہ معجزے کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے کوئی بھی گواہی یا ثبوت اُس وقت تک قبول نہیں کیا جاسکتا، جب تک کہ وہ گواہی اس قسم کی نہ ہو کہ اسے جھٹلایا جانا اصل معجزے سے زیادہ معجزانہ بات ہو۔ ہیوم نے لکھا کہ اگر میرے پاس کوئی شخص آئے اور کہے کہ میں نے ایک مردہ شخص کو زندہ ہوتے دیکھا ہے تو میں خود سے یہ سوال کروں گا کہ کسی مردے کے زندہ ہونے اور اِس واقعے کے راوی کو مغالطہ لگنے میں سے کون سی بات زیادہ قرین قیاس ہوگی، تو میں زیادہ بڑے معجزے کو رد کر دوں گا، یعنی میں یہ فیصلہ سناؤں گا کہ راوی کو مغالطہ لگا اِلا یہ کہ راوی کو مغالطہ لگنا کسی مردے کے زندہ ہوجانے سے بڑا معجزہ ہو۔

ہیوم صاحب سے سوال میں نے یہ پوچھنا تھا کہ جو شخص عقل و خرد کا مقدمہ ہی الٹا دے، وہ کسی معجزے کے ثبوت میں عقلی استدلال کیوں کر طلب کر سکتا ہے؟ لیکن میں یہ سوال کیے بغیر ہی واپسی کا قصد کرکے اپنی ٹائم مشین میں بیٹھ گیا۔ یہ اور بات ہے کہ ہیوم صاحب کے لیے میری ٹائم مشین بھی کسی معجزے سے کم نہیں تھی.

بشکریہ : تجزیہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close