اسلام آباد – نومبر 2019ع میں ایک ایئر ایمبولینس کے ذریعے سابق وزیراعظم نواز شریف علاج کی غرض سے چار ہفتوں کے لیے لندن چلے گئے تھے، جس کے بعد وہ اب تک برطانیہ میں مقیم ہیں
ان کی غیرموجودگی میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے بینر تلے پاکستان مسلم لیگ ن سمیت دیگر حزب اختلاف کی جماعتیں پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف مہم پر ہیں، جو اب وزير اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر منتج ہو چکی ہے
واضح رہے کہ اپوزیشن جماعتیں 2018ع کے انتخابات کے بعد سے اب تک یہ دعویٰ کرتی آئیں ہیں کہ پی ٹی آئی کی الیکشن میں جیت اسٹیبلشمنٹ کے مرہون منت تھی
پی ڈی ایم میں پاکستان مسلم لیگ ن، جمعیت علماء اسلام (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی اور دیگر علاقائی اور قومی جماعتوں کا ایک اتحاد ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بھی اس اتحاد کا حصہ تھی لیکن سیاسی اختلافات کے باعث وہ پی ڈی ایم سے الگ ہو گئے تھے. اس وقت پیپلز پارٹی اگرچہ پی ڈی ایم شامل تو نہیں لیکن حکومت کے خلاف وہ بھی اپوزيشن کے ساتھ جڑی ہوئی ہے
پی ڈی ایم کے بینر تلے ہونے والے جلسوں، جلوسوں اور پریس کانفرنسوں کے دوران نواز شریف کی صاحبزادی اپنے والد کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو آگے بڑھاتی نظر آتی تھیں اور متعدد بار وہ نہ صرف وزیراعظم عمران خان بلکہ فوجی افسران بشمول سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کے اوپر بھی گرجتی برستی تھیں
نہ صرف پاکستان مسلم لیگ ن بلکہ دیگر جماعتوں کے اراکین بھی مریم نواز کو اپنی جماعت کا ’کراؤڈ پلر‘ یعنی لوگوں کی توجہ اپنی طرف راغب کرنے والے کہتے تھے
لیکن 2019ع کے بعد سے کئی بار یہ دیکھنے میں آیا کہ وقتاً فوقتاً مریم نواز خاموشی اختیار کر لیتیں اور پارٹی کے صدر اور ان کے چچا شہباز شریف آگے آ جاتے
حالیہ دنوں میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی حکومت مخالف سیاست میں تیزی آئی ہے اور سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران کے خلاف قومی اسمبلی میں جمع کرائی جانے والی قرارداد حکومت کے لیے اب تک کا سب سے بڑا امتحان ہے
لیکن حکومت کے اس امتحان کے وقت ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز سیاسی منظر نامے سے بالکل غائب ہوگئی ہوں
مریم نواز اپنی پارٹی کے اجلاسوں یا سیاسی ملاقاتوں کے بعد جاری ہونے والی فوٹیج میں اکثر نظر آجاتی ہیں لیکن اب وہ پریس کانفرنسوں میں دکھائی نہیں دیتیں اور نہ ان کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کہیں میڈیا میں سنائی دیتا ہے
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر وہ واحد شے ہے جہاں مریم نواز ایکٹو نظر آتی ہیں اور حکومتی جماعت بالخصوص وزیراعظم عمران خان پر طنز و تنقید کے نشتر بھی تواتر سے برساتی ہیں
ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ صرف مارچ کے ماہ میں اب تک انہوں نے اکتیس ٹویٹس کی ہیں اور اسی دوران وہ اپنے والد اور چچا کی ٹویٹس کو بھی ریٹویٹ کرتی رہی ہیں
ان اکتیس ٹویٹس میں متعدد بار مریم نواز نے وزیراعظم عمران خان پر تنقید کی، انہیں ’نااہل‘ قرار دیا، حکومت کی مشکلات کو ’مکافات عمل‘ قرار دیا، لیکن ان کا ”اسٹیبلشمنٹ مخالف“ بیانیہ ان میں کہیں نظر نہیں آیا
ان کی زیادہ تر ٹوئٹس اب صرف وزیراعظم عمران خان پر تنقيد اور طنز کرنے تک ہی محدود ہو گئی ہیں
پی ڈی ایم کے تحت اسلام آباد میں حکومت مخالف لانگ مارچ 23 مارچ کو ہونا تھا، تاہم پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پاکستانی دارالحکومت میں اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی موجودگی اور کانفرنس کے پیش نظر مارچ کی تاریخ کو دو دن آگے بڑھا دیا ہے
حکومت مخالف مارچ اب 25 مارچ کو تمام وزرائے خارجہ کی اپنے ممالک واپسی کے بعد اسلام آباد میں داخل ہوگا۔ اسی لانگ مارچ کے حوالے سے پاکستانی میڈیا پر مولانہ فضل الرحمان سے منسوب کرکے یہ خبریں بھی چل رہی تھیں کہ مریم نواز اس مارچ کی قیادت کریں
تاہم مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے اب تک کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے
جب محمد زبیر سے مریم نواز کی خاموش کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ ’لوگ روایتی سیاست کے عادی ہو گئے ہیں، جس میں ایک شخص کے اردگرد سارے معاملات گھومتے ہیں‘
انہوں نے کہا ’پاکستان مسلم لیگ ن ایک بہت بڑی پارٹی ہے جس میں بہت سارے لوگ ہیں اور اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت شہباز شریف دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کی قیادت کر رہے ہیں۔ مریم نواز خاموش نہیں ہیں اور وہ یہیں موجود ہیں
انہوں نے کہا ”جب پارٹی کو ان کی ضرورت ہوگی، ان کا انتہائی احسن طریقے سے استعمال کیا جائے گا“
پاکستان خصوصاً صوبہ پنجاب کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار مریم نواز کی خاموشی کو پاکستان مسلم لیگ ن کی حکمت عملی قرار دیتے ہیں
لاہور میں تقریباً دو دہائیوں سے صحافت کرنے والے صحافی و تجزیہ نگار احمد ولید نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پارٹی کی سیاست کو دو حصوں میں تقسیم کیا
انہوں نے بتایا کہ جب پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کرنی ہوتی ہے تو مریم نواز جماعت کا چہرہ پیش کرتی ہیں اور جب معاملات کو بات چیت سے آگے بڑھانا ہو تو شہباز شریف آگے آجاتے ہیں
ان کا کہنا تھا ”ابھی فی الحال مریم نواز اس لیے خاموش ہیں کہ بات چیت چل رہی ہے“
”ن لیگ وہ پارٹی ہے جس کا ماننا ہے کہ مسائل کا حل مذاکرات سے ہی ممکن ہے اور بات چیت سب سے کرنی چاہیے چاہے وہ اسٹیبلشمنٹ ہی کیوں نہ ہو“
یہاں ایک انتہائی اہم سوال اٹھتا ہے کہ کیا بات چیت کے عمل کے دوران مریم نواز کا خاموش ہوجانا جماعت کی جانب سے اس بات کا اعتراف ہے کہ مریم نواز اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہیں؟
احمد ولید اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کم سے کم ن لیگ کی سیاست میں ایسا نہیں ہوتا۔ اگر آپ نواز شریف کی سیاست دیکھیں تو وہ کبھی آپ کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اور کبھی مخالف نظر آئیں گے۔‘
’جب انہیں سویلین حکومت کے ہاتھ مضبوط کرتے تھے تو انہوں نے 1998 میں آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور کیا اور پھر جب پرویز مشرف آرمی چیف بنے تو انہوں نے نواز شریف کو بہت ٹَف ٹائم دیا۔‘
احمد ولید نے سابق فوجی آمر پرویز مشرف کی مثال دیتے ہوئے کہا ”جب 2013ع میں نواز شریف وزیراعظم بنے تو انہوں نے پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا اور جب اسٹیبلشمنٹ سے ان کے معاملات خراب ہوئے تو وہ شہباز شریف اور چوہدری نثار کی بات مان کر مشرف کو ملک سے باہر جانے دینے پر راضی بھی ہو گئے“