اسلام آباد – وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنان نے سندھ ہاؤس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر اندر داخل ہونے کے بعد وہاں ہنگامہ آرائی کی تاہم پولیس کی جانب سے کچھ گرفتاریاں کرنے کے بعد انھیں باہر نکال دیا گیا ہے
وفاقی وزیر داخلہ نے سندھ ہاؤس میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی آمد اور ہنگامہ آرائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘ایسا نہیں ہونا چاہیے۔’
نجی ٹی وی چینل سما سے گفتگو میں شیخ رشید نے کہا کہ ‘یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے میں ابھی اسلام آباد پولیس سے پوچھتا ہوں۔’
پی ٹی آئی کے کارکنوں نے جمعے کی شام چھ بجے کے قریب سندھ ہاؤس کا گیٹ توڑا تو انھوں نے ہاتھوں میں لوٹے اٹھا رکھے تھے
ادھر پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن نے سندھ ہاؤس پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کے دھاوے اور ہنگامہ آرائی پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے صورتحال کو دیکھنے کو کہا ہے
میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ ہم بھی ایسے کریں کیونکہ ہمیں بھی بنی گالا کا راستہ معلوم ہے۔‘
سندھ ہاؤس سے سامنے آنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تین سے چار پولیس اہلکاروں نے ابتدائی طور پر گیٹ کو لاتیں مارنے والے کچھ افراد کو وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی تاہم اس کے بعد کے مناظر میں مشتعل افراد کی بڑی تعداد نے آگے بڑھ کر دروازے کو توڑا
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سندھ ہاؤس پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے ہنگامہ آرائی کے حوالے سے کہا کہ ‘بچے ہیں، جذباتی ہیں، ایسا ہو جاتا ہے کوئی ایسی بات نہیں ہے۔’
انھوں نے نجی ٹی وی چینل دنیا ٹی وی سے گفتگو میں الزام عائد کیا کہ سندھ ہاؤس ایک علامت بن گیا ہے، چھانگا منگا بن گیا ہے۔
‘ضمیر فروشی کا مرکز ہے جس میں پیپلز پارٹی کے لوگ نوٹوں کی بوریاں رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔’
انھوں نے کہا کہ ‘پی ٹی آئی کے ناراض اراکین نے جو گھٹیا حرکت کی گئی ہے، ظاہر ہے ان کے بارے میں معاشرے میں نفرت پائی جاتی ہے اور آج اس کا اظہار کیا گیا ہے۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے ان سے ایسا کرنے کا نہیں کہا تھا اور اسد عمر صاحب نے ان سے ایسا کرنے سے روک دیا ہے۔
’تحریک انصاف میں مائنس ون کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ تحریک انصاف میں مائنس ون کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ ابہام اگر کسی کے ذہن میں ہے تو اسے نکال دینا چاہیے۔
اسلام آباد میں وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزیراعظم کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قانونی دائرے میں رہتے ہوئے اس کا مقابلہ کیا جائے گا۔
تاہم انھوں نے منحرف پارٹی اراکین سے اپیل کی کہ ’اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے ہارس ٹریڈنگ نہ نوٹوں کی بوریوں پر بات کروں گا میں یہ کہوں گا ٹھنڈے دل سے تولیے اور غور کریں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر جماعت کے اراکین پارٹی کے خلاف جائیں گے تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آج قانون، آئین اور اخلاقیات کو مد نظر رکھتے ہوئے تحریک انصاف نے فیصلہ کیا ہے کہ اپیل کے باوجود کوئی منحرف ہوتا ہے تو نوٹس اور صدارتی ریفرنس دائر کیا جائے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ ’سب کچھ ٹھیک ہے صرف عمران خان ٹھیک نہیں ہے۔ یعنی کہ سب کچھ بچ سکتا ہے اگر مائنس ون ہو جائے۔‘
وزیر خارجہ نے اپوزیشن سے سوال کیا کہ جب بے نظیر بھٹو کے خلاف، آصف علی زرداری کے خلاف اور نواز شریف کو مائنس ون کرنے کی بات کی جا رہی تھی تو کیا آپ مانے تھے۔
اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ مائنس ون کا مطلب مائنس عمران نہیں مائنس پی ٹی آئی ہے۔
وزیر خارجہ نے اپوزیشن کے نام پیغام میں افغانستان کی صورتحال، انڈین میزائل کا پاکستان کی حدود میں گرنا، یورپ کی صورتحال کا حوالہ دیا اور کہا کہ کیا اس ماحول میں ملک عدم استحکام کا متحمل ہو سکتا ہے۔
اس سے قبل اسلام آباد میں واقع سندھ ہاؤس میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ناراض ارکان کی موجودگی کی تصدیق کے بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ حکومت تحریک عدم اعتماد میں اِن ارکان کے ووٹ کی قانونی حیثیت کے بارے میں سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی۔
جمعرات کو پاکستانی ذرائع ابلاغ پر پاکستان تحریک انصاف کے متعدد اراکین قومی اسمبلی کے انٹرویو نشر ہوئے تھے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ دو درجن حکومتی ایم این اے سندھ ہاؤس میں موجود ہیں اور وہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے تناظر میں ‘اپنے ضمیر کی آواز پر فیصلہ’ کریں گے۔
ان اطلاعات کے سامنے آنے کے بعد حکومتی رہنماؤں نے ان اراکین کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے کا عندیہ دیا تھا اور اس سلسلے میں جمعہ کو تحریک انصاف کا ایک اہم مشاورتی اجلاس وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں منعقد ہوا۔
اس اجلاس کے بعد ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بتایا کہ ’حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں آرٹیکل 186 کے تحت ریفرینس دائر کیا جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت سپریم کورٹ سے اس بارے میں رائے مانگے گی کہ ‘جب ایک پارٹی کے ارکان واضح طور پر ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہوں اور پیسوں کے بدلے وفاداریاں تبدیل کریں تو ان کے ووٹ کی قانونی حیثیت کیا ہے؟’
فواد چوہدری نے یہ بھی بتایا کہ عدالت عظمیٰ سے یہ رائے بھی طلب کی جائے گی کہ ’کیا ایسے ارکان جو اپنی وفاداریاں معاشی مفادات کے بوجوہ تبدیل کریں ان کی نااہلیت زندگی بھر ہو گی یا انھیں دوبارہ انتخاب لڑنے کی اجازت ہو گی؟‘
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آرٹیکل 63-A کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ میں آرٹیکل 186 کے تحت ریفرینس فائل کیا جائیگا، سپریم کورٹ سے رائے مانگی جائیگی کہ جب ایک پارٹی کے ممبران واضع طور پر ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہوں اور پیسوں کے بدلے وفاداریاں تبدیل کریں تو ان کے ووٹ کی قانونی حیثیت کیا ہے
وزیر اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ سے اس ریفرینس کو روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ سنانے کی درخواست کی جائے گی
’سندھ ہاؤس میں پولیس گردی ہوئی تو نتائج کے ذمہ دار عمران خان اور شیخ رشید‘
ادھر پاکستان کے تین سابق وزرا اعظم نے جمعرات کو ایک مشترکہ بیان میں اسلام آباد کی پولیس و انتظامیہ اور سیکریٹری داخلہ کو ’خبردار‘ کیا ہے کہ وہ کسی سیاسی عمل کا حصہ نہ بنیں
اپوزیشن اتحاد میں شامل شاہد خاقان عباسی، راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی نے اس بیان میں متنبہ کیا ہے کہ سندھ ہاؤس، جہاں اپوزیشن کے علاوہ حکمراں جماعت کے ناراض اراکین نے ’پناہ‘ لے رکھی ہے، میں پولیس گردی کی صورت میں وزیر اعظم عمران خان اور وزیر داخلہ شیخ رشید ذمہ دار ہوں گے
دوسری طرف عمران خان کی حکومت کے وزرا کا دعویٰ ہے کہ سندھ ہاؤس ہارس ٹریڈنگ کا مرکز بنا ہوا ہے
تحریک انصاف کے رہنما راجہ ریاض نے جمعرات کو کہا تھا کہ حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے دو درجن ارکانِ قومی اسمبلی سندھ ہاؤس میں موجود ہیں اور ان کے یہاں آنے کی وجہ پارلیمنٹ لاجز پر حملے کے بعد پیدا ہونے والے سکیورٹی خدشات ہیں
شاہد خاقان عباسی، راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی نے اپنے مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اکثریت اور ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں اور ’پولیس گردی، آئین شکنی پر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی لاتعلقی اور مجرمانہ خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ آئین کے بجائے پارٹی لیڈر کے تابع ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’نہیں چھوڑوں گا‘ کہنے والے کو سب چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ سابق وزرا اعظم نے الزام لگایا ہے کہ ’عمران خان 172 ارکان لا نہیں پا رہے (اس لیے) پولیس اور انتظامیہ کے ذریعے ان کے اغوا کی تیاری ہے۔‘
دوسری طرف وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات نے سندھ ہاؤس کو ’نیلام گھر‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’سندھ کے عوام کا پیسہ چوری کر کے آج پھر ضمیروں کی بولیاں لگ رہی ہیں۔‘
الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نہ صرف یوسف رضا گیلانی کے ووٹ خریدنے کا فیصلہ کرے بلکہ اس نیلام گھر کے تمام کرداروں پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگائے۔‘
شاہ محمود قریشی کی سندھ میں گورنر راج کی تجویز کی مخالفت
پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزیر داخلہ شیخ رشید کی جانب سے سندھ میں گورنر راج کی تجویز کی مخالفت کی ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق انھوں نے جمعہ کو اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’کراچی میں گورنر راج کی تجویز کے حق میں نہیں ہوں۔‘ گذشتہ روز شیخ رشید نے کہا تھا کہ انھوں نے وزیر اعظم ’عمران خان سے کہا ہے کہ سندھ نے جو خرید و فروخت کی ہے ہمیں سندھ میں گورنر راج نافذ کر دینا چاہیے، یہ جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔‘
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب وفاقی دارالحکومت میں واقع سندھ ہاؤس میں حکمراں جماعت تحریک انصاف کے ’دو درجن سے زیادہ‘ اراکین قومی اسمبلی کی موجودگی کا انکشاف کیا گیا ہے۔
اپنے مؤقف میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’آج وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت سیاسی کمیٹی کا اجلاس ہے۔ میں ماضی کے تجربات کی روشنی میں وہاں اپنا نقطہ نظر پیش کروں گا۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہر ممبر باوقار لوگوں کا چنا ہوا ہے اور وہ اپنے ضمیر کے مطابق اپنے فیصلے کرنے کا پابند ہے۔‘
’آج نوے کی سیاست کو دہرایا جا رہا ہے، اسی طرز سیاست کے خلاف میثاق جمہوریت لایا گیا تھا، میثاق جمہوریت میں کچھ اصول طے کیے گئے تھے۔۔۔ سندھ ہاؤس میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ میثاق جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔‘
وفاقی وزیر نے زور دیا ہے کہ ’کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ان توقعات کو ذہن میں رکھنا ہو گا جو حلقے کی عوام نے منتخب کرتے ہوئے آپ سے وابستہ کیں۔‘
اُدھر پاکستان بار کونسل نے بھی سندھ میں گورنر راج لگانے کی تجویز کی مذمت کی ہے۔
ایک بیان میں بار کونسل کا کہنا ہے کہ ’سندھ میں گورنر راج لگانے سے ملک میں انتشار پھیلنے کا خدشہ ہے۔ گورنر راج سے جمہوری عمل کو نقصان ہو گا۔ اس طرح کا غیر جمہوری اقدام روکنے کے لیے عوام اور وکلا برادری ہر حد تک جائے گی۔‘