تہران – ندا کا تعلق ایران کے دارالحکومت تہران سے ہے اور وہ طلاق یافتہ ہیں
دن کے اوقات میں وہ ہیئر ڈریسر کے طور پر کام کرتی ہیں تو رات کے وقت وہ جسم فروشی پر مجبور ہیں، وہ اس کی وجہ گھر کے اخرجات پورے نہ ہونا بتاتی ہیں
ندا کا کہنا ہے ”میں جو کر رہی ہوں، میں اس بارے میں بہت شرمندہ ہوں لیکن میرے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں“
وہ کہتی ہیں ”میں ایک ایسے ملک میں رہتی ہوں، جہاں خواتین کی عزت نہیں کی جاتی، معیشت تباہ ہو رہی ہے اور ہر دن تقریباً ہر چیز کی ہی قیمت اوپر جا رہی ہے“
ندا نے بتایا کہ ”میں سنگل ماں ہوں۔ مجھے اپنے بیٹے کا بھی خیال رکھنا ہے۔ جسم فروشی سے اچھے پیسے مل جاتے ہیں اور اب میں ایک گھر خریدنے کا ارادہ بھی رکھتی ہوں۔ یہ میری زندگی کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ میں واقعتاً اپنی روح کو بیچ رہی ہوں“
سنہ 2012ع میں ایران نے جسم فروشی پر قابو پانے کے لیے ایک قومی پروگرام کا اعلان کیا، تاہم غیر سرکاری تنظمیوں اور محققین کی رپورٹس کے مطابق سیکس انڈسٹری میں کام کرنے والوں کی تعداد میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوا ہے
ایران کی قدامت پسند مذہبی اسٹیبلشمنٹ بہت عرصہ قبل سے ہی ملک میں سیکس ورکرز کی موجودگی سے انکار کرتی ہے۔ اس کے بجائے حکام جسم فروشی کو مغرب کا نوجوانوں کو کرپٹ کرنے کا منصوبہ قرار دیتے ہیں یا خواتین پر الزام عائد کرتے ہیں جو غلط مردوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں
غیر سرکاری اعداد و شمار اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ ایران میں زیادہ تر سیکس ورکرز نوجوان ہیں۔ مختلف این جی اوز کے اعداد و شمار اس بات کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ سنہ 2016 میں بارہ برس کی کمسن لڑکیاں بھی جسم فروشی میں ملوث دیکھی گئیں
ایران میں منشیات کی لت میں مبتلا خواتین کا علاج کرنے والی این جی او ’آفتاب سوسائٹی‘ کے مطابق سنہ 2019ع میں ایران کے دارالحکومت تہران میں خواتین سیکس ورکرز کی تعداد تقریباً دس ہزار تھی، جن میں سے تقریباً 35 فیصد شادی شدہ تھیں
جبکہ تہران یونیورسٹی میں سماجی بہبود کے پروفیسر عامر محمود ہریچی کا کہنا ہے کہ تہران میں خواتین سیکس ورکرز کی تعداد اس سے دگنی بھی ہو سکتی ہے
خواتین کے لیے ملازمت کے مواقع میں کمی اور صنفی مساوات کی عدم موجودگی کی وجہ سے بہت سی خواتین غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہیں اور پیسوں کے لیے جسم فروشی پر مجبور ہیں تاہم اس کام میں بہت سے خطرات بھی ہیں
تہران میں یونیورسٹی کی طالبہ اور پارٹ ٹائم جسم فروشی کرنے والی مہناز کہتی ہیں ”مرد جانتے ہیں کہ ایران میں جسم فروشی غیر قانونی ہے اور اس میں ملوث خواتین کے لیے سخت سزائیں ہیں تو وہ اسے اپنے فائدے کے لیے لیے استعمال کرتے ہیں“
انہوں نے بتایا ’میرے ساتھ کئی مواقع پر ایسا ہوا کہ کسٹمرز نے کام پورا ہونے پر پیسے دینے سے انکار کر دیا اور میں شکایت کے لیے حکام کے پاس بھی نہ جا سکی‘
مہناز کہتی ہیں کہ ’تہران میں مہنگائی بہت زیادہ ہے اور دوسری ملازمتیں کرنے سے ان کے اخراجات پورے نہیں ہوں گے‘
سنہ 1979ع میں ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد کئی سیکس ورکرز کو موت کی سزا سنائی گئی اور قحبہ خانوں کو بند کر دیا گیا۔ جنسی تعلقات کے لیے عورتوں کے استعمال کو قانونی شکل دینے کے لیے ’نکاحِ متعہ‘ کو متعارف کروایا گیا
واضح رہے کہ نکاحِ متعہ ایک متنازع مذہبی عمل ہے، جسے شیعہ مسلک میں وقتی شادی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس میں خاتون کو شادی کے لیے رقم دی جاتی ہے
نکاحِ متعہ ایک معاہدے کی بنیاد پر ہوتا ہے، جس میں شادی کی مدت اور عارضی بیگم کو اس کے عوض دی جانے والی رقم درج ہوتی ہے، تاہم یہ معاہدہ زبانی بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے کسی مولوی کی جانب سے تصدیق ضروری نہیں تاہم عموماً مولوی اس عمل کے لیے موجود ہوتا ہے
نکاح متعہ کا یہ عمل شیعہ مسلک کے مقدس شہروں مشہد اور قم میں عام ہے، جہاں دنیا بھر سے شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی وڈیوز میں مردوں کو مشہد میں سیکس کی تلاش کرتے دیکھا جا سکتا ہے، تاہم حکام کا کہنا ہے کہ وہ صرف عارضی شادیاں کرتے ہیں
جبکہ اب ایسی لا تعداد آنلائن سروسز موجود ہیں جو ایران میں نکاح متعہ کی سہولت فراہم کرتی ہیں
سیکس ورکرز ایران میں جسم فروشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی ایک بڑی وجہ مہنگائی کو قرار دیتے ہیں
گذشتہ برس سے ایران میں مہنگائی کی شرح 48.6 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا ہے اور جن لوگوں کے پاس ملازمتیں ہیں انھیں بھی مناسب تنخواہیں نہیں دی جا رہی
اس کے علاوہ بیس سے پینتیس برس کے ان مردوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، جو پیسوں کے لیے خواتین سے سیکس کرتے ہیں۔ مرد سیکس ورکرز کی تعداد بھی ایران کے تمام بڑے شہروں میں بڑھ رہی ہے
ایک ایسے ہی نوجوان کمیار ہیں، جن کی عمر اٹھائیس برس ہے اور وہ ایک سپر مارکیٹ میں کیشیئر ہیں
گذشتہ برس تک وہ اپنے والدین کے ساتھ رہتے تھے اور اپنے والد کی مدد کے بغیر اپنے اخراجات پورے نہیں کر پاتے تھے، لیکن اب وہ تہران میں کرائے کا اپارٹمنٹ لے سکتے ہیں اور ایک دن بیرون ملک منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں
وہ کہتے ہیں ”میں اپنے گاہگوں کو سوشل میڈیا پر ڈھونڈتا ہوں۔ ان خواتین کی عمر تیس سے چالیس برس کے درمیان ہوتی ہے۔ ایک بار میری ایک گاہک کی عمر چون برس تھی۔ وہ سب مجھ سے اچھا سلوک کرتی ہیں، اچھے پیسے دیتی ہیں اور رات کو اپنے گھر سوتی ہیں۔ میرے کافی زیادہ گاہک ہیں“
کمیار ایک انجینیئر ہیں، لیکن اس شعبے میں انہیں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا. وہ کہتے ہیں ”میں ہمیشہ سے انجینیئر بننا چاہتا تھا لیکن اس شعبے میں میرے لیے کوئی ملازمت نہیں“
انہوں نے بتایا ”میں ایک لڑکی سے محبت کرتا تھا لیکن ہماری شادی نہیں ہو سکی کیونکہ میرے پاس کوئی مناسب ملازمت نہیں تھی۔ میں اب جو کر رہا ہوں، میں اس پر فخر محسوس نہیں کرتا۔ اجنبی لوگوں کے ساتھ سونا کبھی بھی میری خواہش نہیں رہی۔ ظاہر ہے کہ میں شرم محسوس کرتا ہوں لیکن اس سے میرے اخراجات پورے ہو جاتے ہیں۔ میں ایک ایسے ملک میں رہتا ہوں، جہاں میں اپنے مستقبل میں صرف مایوسی دیکھ سکتا ہوں“
یہ رپورٹ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی میں شائع ہوئی، جس میں شامل افراد کے نام ان کی حفاظت کے پیش نظر تبدیل کیے گئے ہیں