ایک ابو تھے، وہ جب بھی اپنے بچوں کو کھیلنے کے لیے کوئی چیز دلاتے تو کہتے کہ ٹوٹنے پر بتا دینا، جوڑنے کی کوشش کریں گے، نہ جڑی تو رونا مت، میں بالکل نہیں ڈانٹوں گا نہ تمہاری ماں ڈانٹے گی۔ ہاں، وہی چیز دوبارہ تب ملے گی، جب پیسے ہوں گے ورنہ شاید نہ بھی ملے..
ایک ابو اور تھے، وہ جب کوئی بھی کھلونا لاتے تو ہر مہینے اس کی خیر خبر رکھتے۔ غائب ہوتا یا ٹوٹ جاتا تو باقاعدہ ڈانٹ پڑتی، کھلونا قیمتی ہوتا تو پھینٹی کا بھی چانس بن جاتا
آپ بچے ہوتے تو کون سے والے ابو کو پسند کرتے؟
زندگی میں قیمتی سے قیمتی چیز برباد ہو جانے کا یہی معاملہ ہے۔ چیز اسی لیے ہوتی ہے کہ وہ گم ہو یا ٹوٹ جائے۔ ہمیشہ باقی رہنے والا کیا ہے؟ آپ چیزیں سنبھال لیں اور خود مر جائیں تو بھی کیا کام آئیں گی آپ کے؟
دوسروں کے ہاتھوں ہوئے کسی بھی نقصان پر ہمارا ری ایکشن ذرا تیز ہوتا ہے، خود وہی کام کر بیٹھیں تو اپنے آپ کو منانے کے لیے ہمارے پاس بہت سی وجہیں ہوتی ہیں
نقصان اس لیے نہیں ہوا کہ ہم لاپروا تھے، وہ اس لیے ہوا کہ ہم نے یہ سوچ لیا تھا کہ اب آخری دم تک یہ چیز ہمارے پاس رہے گی۔ ایک جھٹکا کتنے بندوں کو ہر چیز سے محروم کر دیتا ہے، سوچیں کبھی اس کے بارے میں…
بچے نے اپنا کھلونا چھوڑیں اگر کوئی کام کی چیز بھی توڑ دی ہے تو کیا غصہ کرنے سے وہ واپس آ جائے گی؟ برتن دھوتے ہوئے مددگار خاتون سے ٹوٹ گئے یا ہاتھ سے پھسل گئے تو اس پہ آفت اٹھانے کا فائدہ کیا ہو گا؟ کیا ضمانت ہے کہ اس بار چیخنے کے بعد اگلی مرتبہ ایسا نہیں ہو گا؟
احتیاط انسانی فطرت میں شامل ہے لیکن کچھ لوگوں میں اس کا درجہ کتنا ہوگا، یہ نہیں اندازہ لگایا جا سکتا۔ جس طرح بے دھیانی میں توے پہ ہاتھ لگ جائے تو بندہ فوراً کھینچ لیتا ہے اسی طرح گرتی ہوئی چیز کو لپک کر پکڑنے کی کوشش بھی ہر انسان کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو چیز ٹوٹی اس کے پیچھے وجہ کیا تھی؟
آپ کو اندازہ ہے کہ آٹھ گھنٹے کی نیند پوری نہ ہو تو کسی بھی چیز سے ٹھوکر کھانے یا ہاتھوں سے کچھ سلپ ہو جانے کے چانسز کتنے بڑھ جاتے ہیں؟ دماغ سست ہو جاتا ہے اور جسم کو مطلوبہ رفتار، گرپ یا چستی نہیں دے پاتا۔ اسی طرح ڈپریشن یا اینزائٹی میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ آج کل کون ہے جو نیندیں پوری کرسکتا ہے؟ کس کے ساتھ پریشانیاں نہیں جڑیں؟ بچے زیادہ توڑ رہے ہیں چیزیں تو اس کے پیچھے بھی چڑچڑا پن ہے یا کوئی ٹیکنیکل مسئلہ ہے
آپ دیکھیں، ہمارے جو ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں، بندہ بچ جائے تو پہلا بیان یہی آتا ہے کہ سمجھ نہیں آیا ہوا کیا تھا، ایک دم بس سامنے سے گاڑی آئی اور…..
یہ جو ایک دم ہے، یہ عین وہ لمحہ ہے جب آپ درست فیصلہ نہیں کرسکے اور ٹھک گئے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اس لمحے کی تیاری ہم کب سے کر رہے تھے؟ نیند کم تھی، طبیعت خراب تھی، جلدی تھی، ڈپریشن تھا، گاڑی خراب تھی، بریک بدلنے والی تھے جو نہیں بدلوائے؟ کوئی تو وجہ تھی؟ شاعر کہتا ہے کہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں،
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا!
تو یہ سارا جو توڑا تاڑی والا سسٹم ہے، اس کے پیچھے بے احتیاطی سے زیادہ بے دھیانی اور اس کی مختلف وجہیں ہیں۔ وہ ایک لمحہ جسے ہم حادثے کی گھڑی کہتے ہیں، اس کے لیے حالات کی تیاری جانے کب سے ہو رہی ہوتی ہے اور پتہ اس وقت لگتا ہے جب وہ ہو جاتا ہے
مشورہ ہے، بلڈ پریشر قابو میں رکھیں
چیز کا نقصان بندے کے نقصان سے زیادہ نہیں ہوتا
چیز ٹوٹنے یا نقصان ہو جانے کے بعد والا غصہ شاید کائنات کی سب سے بے مقصد چیز ہے۔ پریشانی، دکھ، تکلیف الگ بات ہے، وہ کسی بھی مالی مقصان پہ ہونا فطری ہے لیکن غصہ؟ بھڑاس تو پھر بھی نہیں نکلتی چوں کہ نقصان پورا نہیں ہوا ہوتا
تو ایسی صورت میں کیا کریں؟ جسے کوئی چیز لا کر دیں اسے ایڈوانس میں دو ہاتھ جڑ دیں ملا نصر الدین کی طرح، کہ بعد میں توڑی یا گمائی تو فائدہ کچھ نہیں ہوگا؟ یا پھر ہر چیز لوہے کی خریدیں تاکہ گم ہو تو ہو، ٹوٹنے والے دھڑکے سے جان چھوٹ جائے؟ یا زندگی میں ہر خدشے کی انشورنس کروا لیں؟
حل بس یہی ہے کہ جس وقت ایسی کوئی بھی قیمتی یا نازک چیز ہاتھ آئے تو سمجھ لیں پیسے کنوئیں میں گئے، جب تک کسی کا ٹھڈا نہیں لگتا تب تک باقی رہے گی۔ چیزوں کو ہمیشہ کے لیے محفوظ سمجھنا چھوڑ دیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ کھلونے جو سجا کر بچوں کی پہنچ سے دور رکھے ہوئے ہیں، انہیں دیں تاکہ وہ ان کا حق ادا کریں
خاندانی ڈنر سیٹ شوکیس سے نکالیں، اسے استعمال میں لائیں اور قیمتی سامان رکھنے کا شوق ہے تو دل بڑا کریں کہ ہاتھی خریدنے والوں کو دروازے کشادہ رکھنے ہی پڑتے ہیں!
بشکریہ : انڈپینڈنٹ اردو، عرب میڈیا.