لاہور – سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے استعفے کی خبر سامنے آتے ہی وہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے لگے اور ان کی سادگی کے حوالے سے میمز وائرل ہوئیں
وزیر اعظم عمران خان کئی سیاسی رہنماؤں کی مخالفت کے باوجود عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر برقرار رکھنے پر مصر رہے تھے، حتیٰ کہ وزیراعظم نے انہیں ’وسیم اکرم پلس‘ بھی قرار دیا، جو بالآخر اب مائنس ہو چکے ہیں
عثمان بزدار کی کارکردگی کو سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم کی ورلڈ کپ 1992ع کی کارکردگی سے تشبیہہ دیتے ہوئے وزیراعظم نے ایک بار کہا تھا کہ عثمان بزدار ان کی ٹیم (کابینہ) کے وسیم اکرم پلس ہیں
لیکن گذشتہ شب انہوں نے عثمان بزدار سے استعفیٰ لے کر تخت لاہور کی وزارت اعلیٰ کے لیے حکومتی اتحادی مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کو نامزد کر دیا تو سوشل میڈیا صارفین نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب یعنی ’وسیم اکرم پلس‘ کو ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنا دیا
ٹوئٹر صارفین کی جانب سے دلچسپ تبصرے کیے جانے لگے جن میں وزیر اعظم عمران خان کے کہنے پر وزارت اعلیٰ کا منصب چھوڑنے پر ستائش بھی شامل تھی
صورتحال اس وقت دلچسپ ہوئی جب سابق کرکٹر وسیم اکرم نے بھی اس ٹرینڈ میں حصہ ڈالا اور ٹویٹ کی ”مجھے نہیں معلوم کہ میں کیوں ٹرینڈ کر رہا ہوں، بہر حال میں بھی اس میں اپنا حصہ ڈال دیتا ہوں“
وسیم اکرم کی اس ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے معروف میزبان اور گلوکار فخر عالم نے عثمان بزدار کا نام لیے بغیر کہا ”کیونکہ آپ کا پلس ورژن مائنس ہو گیا ہے۔“
جواباً ایک ٹوئٹر صارف نے پرویز الٰہی کی تصویر شیئر کی اور انہیں ’سلیم ملک الٹرا پرو میکس‘ قرار دیتے ہوئے لکھا: ’آپ کی جگہ انہوں نے لے لی ہے۔‘
بہت سے صارفین عثمان بزدار کی تعریف کرتے ہوئے ان کی کمی بھی محسوس کر رہے ہیں۔ میاں عبدالماجد نامی صارف نے عثمان بزدار کی ایک تصویر شیئر کی جس پر تحریر تھا: ’موجودہ حکومت کا اکلوتا رہنما جس کا نہ تو کوئی اسکینڈل ہے اور نہ ہی کوئی نفرت کرنے والا۔ کوئی منفی بات بھی نہیں، صرف مثبت انرجی۔‘ ساتھ ہی انہوں نے لکھا: ’الوداع عثمان بزدار۔ ہم آپ کی کمی محسوس کریں گے۔‘
ٹوئٹر صارف ڈاکٹر سردار علی شہباز نے عثمان بزدار کی ’معصومیت‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی ایک تصویر لگائی جس پر لکھا تھا: ’حکومت جاتی ہے تو جائے، مگر کسی چور ڈاکو کو او آر ایس نہیں دوں گا۔‘
ٹوئٹر صارف قاسم علی نے ٹویٹ کی جس میں عثمان بزدار کی تصویر کے ساتھ لکھا تھا: ’خان صاحب، سرپرائز تو قوم کو دینا تھا مجھے کیوں دے دیا؟
یہاں وہ اسلام آباد میں 27 مارچ کے جلسے سے قبل کیے گئے وزیراعظم کے اعلان کا ذکر کر رہے تھے، جس میں انہوں نے کوئی ’سرپرائز‘ دینے کی بات کی تھی
تیمور نامی صارف نے عثمان بزدار کی ایک وڈیو شیئر کی، جس میں وہ شاعری پڑھ رہے ہیں ’جیہڑے دیوانہ ساکوں سڈیندن، اوہی پیمبر ساکوں منیسن
جڈاں شرافت دی رسم چلسی، جڈاں محبت رواج بنڑسی‘
عثمان بزدار اقتدار میں کیسے آئے اور کیسے گئے؟
خیال رہے عثمان بزدار کے خلاف نہ صرف حزب اختلاف بلکہ ان کی اپنی جماعت کے ارکان بھی تھے۔ پنجاب کے سابق وزیر اور تحریک انصاف کے سینیئر رہنما علیم خان نے جہانگیر ترین کے گروپ میں شمولیت اختیار کر کے تخت لاہور کے خلاف طبل جنگ بجا دیا تھا. پنجاب کی وزارت اعلٰی کے امیدوار بھی بڑھ چکے تھے۔
ایک طرف عبدالعلیم خان خود وزارت اعلٰی کی حصول کے لیے کوشاں رہے، جبکہ اسپیکر پنجاب اسمبلی اور سابق وزیراعلٰی چوہدری پرویز الہی بھی وزیراعلٰی کے عہدے کے مضبوط امیدوار تھے
سنہ 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے وفاق میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد آزاد امیدواروں کی شمولیت سے پنجاب میں بھی اکثریت حاصل کرلی تھی۔ پی ٹی آئی کی سب سے بڑے صوبے میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے نصف درجن سے زائد مضبوط امیدوار سامنے آئے تھے
انتخابات سے قبل شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور عبدالعلیم خان کا نام بھی وزارت اعلٰی کے لیے زیرگردش رہا، تاہم شاہ محمود قریشی صوبائی نشست پر شکست کے بعد اس دوڑ سے باہر ہو گئے تھے۔ انتخابات کے بعد عبدالعلیم خان کو ایک مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جارہا تھا، لیکن ان کے خلاف نیب مقدمات کے باعث ان کا نام وزارت اعلیٰ کی فہرست سے باہر کر دیا گیا
ان کے علاوہ جنوبی پنجاب سے خسرو بختیار کے بھائی ہاشم جواں بخت، لاہور سے میاں اسلم اقبال، چکوال سے یاسر ہمایوں، میانوالی سے رکن اسمبلی منتخب ہونے والے سبطین خان کا نام وزارت اعلٰی کے امیدوار کے طور پر سرفہرست تھا، جبکہ سابق وزیراعلٰی پنجاب پرویز الٰہی بھی اس دوڑ میں شامل تھے۔
دو ہفتوں سے زائد عرصے طویل مشاورت کے بعد اگست میں قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اپنا پہلا فیصلہ وزیراعلیٰ پنجاب کی نامزدگی کا کیا اور انہوں نے سردار عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیراعلیٰ نامزد کرتے ہوئے سب کو حیران کر دیا
عثمان بزدار کون ہیں؟
پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازہ خان کی تحصیل تونسہ سے تعلق رکھنے والے عثمان بزدار 2018 میں پہلی مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ عثمان بزدار تونسہ اور بلوچستان کے قبائلی علاقے میں آباد بزدار قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔
سردار عثمان بزدار کے والد سردار فتح محمد خان اپنے قبیلے کے سردار تھے، وہ تین مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے، اور انہوں نے ایک سکول میں استاد کی حیثیت سے بھی کام کیا
عثمان بزدار نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز پرویز مشرف کے دور میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے کر کیا اور وہ 2008 تک مسلم لیگ ق کے تحصیل ناظم رہے۔ 2008 میں انہوں نے مسلم لیگ ق چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن میں حصہ لیا، تاہم ہو ناکام رہے
سنہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل انہوں نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں شمولیت اختیار کی، تاہم انتخابات سے قبل خسرو بختیار کی سربراہی میں بننے والا یہ گروپ تحریک انصاف میں ضم ہوگیا
عثمان بزدار میڈیا اور خبروں سے دور رہنے والی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں اور وزیراعظم عمران خان متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ عثمان بزدار میڈیا پر نہیں آتے اس لیے ان کے کاموں کو پذیرائی نہیں ملتی
حکومت سنبھالنے کے بعد عثمان بزدار وفاقی کابینہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر لاہور سے اسلام آباد پہنچتے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ کابینہ اجلاس کی صدارت اور دیگر حکومتی امور نمٹانے کے لیے عمران خان انہیں تربیت دینے کے لیے وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں مدعو کیا کرتے تھے
عثمان بزدار ایسے وزیر اعلیٰ، جن کا آخر وقت تک وزیر اعظم نے دفاع کیا
وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ملک کے ایک بڑے اور اہم ترین صوبے میں نسبتاً ایک کم تجربہ کار شخص کو وزارت اعلیٰ کا منصب دینے پر پی ٹی آئی کے وفاقی و صوبائی اراکین نے بھی اعتراضات اٹھائے تھے
ان کے بارے میں متنازع خبروں اور اعتراضات پر وزیراعظم عمران خان کو مداخلت کرنا پڑی تھی اور انہوں نے ٹویٹر پر ایک پیغام میں عثمان احمد خان بزدار کی نامزدگی کا دفاع کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ وہ عثمان بزدار کے ساتھ کھڑے ہیں
وزیراعظم عمران خان نے متعدد مرتبہ ان کے کام اور شخصیت کی برملا تعریف کی اور انہیں ایک دیانت دار اور باوقار شخص قرار دیا، تاہم جلد ہی پی ٹی آئی کے اندر اور باہر سے عثمان بزدار کے طرزِ حکومت پر سوالات اٹھائے جانے لگے
اگرچہ عثمان بزدار کے تقریباً ساڑھے تین سال کے دور حکومت کے دوران متعدد مرتبہ پی ٹی آئی کے صوبائی ارکان اسمبلی نے ان کے انتظامی امور، بیروکریسی اور صوبے کے دیگر معاملات پر کمزور گرفت کے متعلق عمران خان سے شکایات بھی کیں لیکن وزیر اعظم نے ہمیشہ ان کی حمایت کی
واضح رہے کہ ماضی میں پاکستان تحریک انصاف کے اہم رکن اور وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین خان کے حامی ارکان اسمبلی پر مشتمل ایک طاقتور گروپ نے بھی عثمان بزدار پر انہیں نظر انداز کرنے کے مختلف الزامات عائد کیے تھے جبکہ اس گروپ کی حکومت سے دوریاں بھی پیدا ہوئیں تھی
موجودہ صورتحال میں بھی پنجاب میں پی ٹی آئی کے ناراض اراکین میں سے علیم خان اور جہانگیر ترین گروپ کے ارکان نے انہیں وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کا مطالبہ کر رکھا تھا
وزیر اعظم عمران خان نے عثمان بزدار کو پی ٹی آئی کے اندر اور باہر سے تمام تر مخالفت اور متنازع خبروں کے باوجود وزرات اعلیٰ کے عہدے پر کیوں بٹھائے رکھا؟ اس بارے میں مختلف سیاسی تجزیہ نگار اپنے اپنے طور پر مختلف رائے رکھتے ہیں
وزارتیں آنے جانے والی چیز ہیں، عہد کی تکمیل کیلئے عمران خان کے شانہ بشانہ ہوں، عثمان بزدار
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد عمران خان کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا عزم کا اظہار کیا ہے
ٹوئٹر پر جاری کردہ پیغام میں انہوں نے کہا کہ میں نے وزیراعظم عمران خان صاحب کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا ہے اور منظوری کے بعد وزارتِ اعلیٰ چھوڑ دوں گا
وزیر اعظم کا ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزارتیں اور عہدے آنے جانے والی چیز ہیں، پارٹی اور عوام سے کیے گئے عہد کی تکمیل کے لیے عمران خان کے شانہ بشانہ ہوں. مجھے کبھی کسی عہدے کی تمنا نہیں رہی اور اپنی ذات سے بڑھ کر ملک اور قوم کا مفاد عزیز ہے
تین سالہ کارکردگی کا بارے میں عثمان بزادر کا کہنا تھا کہ الحمد للہ ساڑھے تین سال میں عوامی فلاح و بہبود کے ہزاروں منصوبے شروع کیے، اسلامی فلاحی ریاست کے منشور پر عمل درآمد کیا، ہر شہری کو ہیلتھ انشورنس دی اور ہر ضلع کو اس کا حق دلوایا