اسرائیل اور متحدہ عرب امارات ‘امن معاہدے’ کے اعلان پر عالمی برادری کا ملا جلا ردِ عمل

ویب ڈیسک

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی کی راہ ہموار کرنے کے لئے طے پانے والے ‘امن معاہدے‘ کے اعلان کے بعد عالمی برادری کی طرف سے ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے.

فلسطین کی آزادی پسند تنظیم حماس نے اس معایدے کو "اسرائیلی قبضے اورجرائم کے صلے” سے تشبیہہ دی ہے جب کہ اسرائیل کے وزیر اعظم نے اسے ایک ’تاریخی دن‘ قرار دیا ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ مشرق وسطی’ میں امن کے قیام اور دو ملکوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا.

مذکورہ ‘امن معاہدہ‘ طے پانے کے بعد متحدہ عرب امارات تیسرا عرب ملک بن گیا ہے جو  یہودی ریاست کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کرنے جا رہا ہے. اس سے پہلے اردن اور مصر نے اسرائیل کو تسلیم کر کے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے ہیں.

جب کہ خلیجی ممالک میں یو اے ای پہلا ملک ہے، جو اسرائیل کے ساتھ باظابطہ طور پر سفارتی تعلقات استوار کر رہا ہے.

اسرائیل-یو اے ای معاہدے کے بعد اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس نے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے.

ان کا کہنا ہے کہ اس سے اسرائیل اور فلسطین کے رہنماؤں کو بامقصد مذاکرات کے لئے ماحول میسر آئے گا اور دو ریاستوں کے قیام کا مسئلہ بھی حل ہوگا.

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اسے ایک تاریخی دن قرار دیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ ہم  صرف فلسطینی علاقوں کے انضمام میں تاخیر پر راضی ہوئے ہیں جب ہمارا انضمام کا ہمارا منصوبہ برقرار ہے. انہوں دوٹوک انداز میں دہرایا کہ ہم اپنی زمین پر اپنے حق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے.

اسرائیل کے وزیر دفاع اور متبادل وزیر اعظم بینی گینٹز نے اس معاہدے کو انتہائی اہم قرار دیا. انہوں نے دیگر عرب ممالک کو بھی اپیل کی کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کریں.

متحدہ عرب امارات کے رہنما شیخ محمد بن زائد النہیان کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اس معاہدے کے بعد فلسطینی علاقوں کا اسرائیل میں مزید انضمام رک جائے گا. انہوں نے اس معاہدے کو بہادرانہ قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس سے اسرائیل اور فلسطین کا تنازع حل ہوگا.

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے ایک بہت بڑی پیش رفت اور دو عظیم دوستوں کے درمیان تاریخی معاہدہ قرار دیا. ان کا کہنا تھا کہ کچھ ایسی پیش رفت ہونے کا امکان ہے، جس پر میں ابھی بات نہیں کرسکتا.

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے  معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے  اسے ایک بڑی خوشخبری قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں اس میں گہری دلچسپی رکھتا تھا کہ اسرائیل مغربی کنارے میں انضمام نہ کرے. انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ انضمام سے متعلق اسرائیلی فیصلے کو معطل کردے گا.

فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل-یو اے ای معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ دراصل فلسطینی عوام کے خلاف جارحیت اور ان کے کاز سے غداری ہے. انہوں نے بتایا کہ ہم نے صورتحال پر لائحہ عمل طے کرنے کے لیے فلسطینی قیادت کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے.

فلسطین کے اسلامی گروپ حماس کے ترجمان حازم قاسم نے بھی معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ دراصل اسرائیلی قبضے اور جرائم کا صلہ ہے.

اسرائیل سے سفارتی تعلقات رکھنے والے عرب ملک مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے ایک ٹوئٹ میں معاہدے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ میں اپنے خطے کی خوشحالی اور استحکام کے لیے اس معاہدے کے معماروں کی کاوشوں کی تعریف کرتا ہوں۔

فرانس نے  معاہدے کو ایک مثبت قدم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ  اس معاہدے کے اعلان کے بعد اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان مسائل ہونے چاہییں.

ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے ابھی تک اس معاہدے پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close