ریاض – رمضان کی آمد کے ساتھ ہی مکہ کے باسی کو شہر کی اس تاریخی توپ کی یاد آ رہی ہے، جس سے افطاری کے وقت گولہ داغا جاتا تھا۔ لیکن یہ روایت آٹھ سال قبل ختم ہو چکی ہے
گولہ داغے جانے کی روایت کے بارے میں کئی دلچسپ تاریخی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں
یہ روایت کئی سال تک یہ رمضان کے ضروری معمولات میں شامل تھی کہ لوگ مغرب کی اذان کے آغاز کے ساتھ ہی توپ سے گولہ داغنے کی منفرد آواز سن کر کھجوروں اور زم زم سے روزہ افطار کرتے تھے
مزید پڑھیں
مکہ کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے احمد صالح حلبی کہتے ہیں ”تاریخی مآخذ ظاہر کرتے ہیں کہ اس آئیڈیا کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی اور اس کا آغاز مصر کے شہر قاہرہ میں ہوا تھا۔ اس روایت کی بنیاد کب پڑی، اس حوالے سے کئی بیانیے ہیں۔“
بعض تاریخ دانوں کا دعویٰ ہے کہ سنہ 865 میں رمضان کے پہلے دن سورج غروب ہونے کے وقت مملوک سلطان خوش قدم انہیں موصول ہونے والی نئی توپ کو ٹیسٹ کرنا چاہتے تھے۔
پہلی بار جب اس توپ سے گولہ داغا گیا تو اتفاقاً اس وقت مغرب کی اذان ہو رہی تھی، سرکردہ مقامی افراد نے سمجھا کہ یہ روزہ افطار کرنے کا اشارہ ہے
انہوں نے اس نئی روایت کا خیرمقدم کیا اور یوں توپ سے ہر روز گولہ داغے جانے لگا اور سحری ختم ہونے اور عاشورہ کی آمد پر اس کا استعمال کیا جانے لگا
جبکہ ایک دوسرے حوالے کے مطابق اس روایت کا آغاز سلطان خوش قدم کی بیٹی سے ہوا، جنہوں نے حادثاتی طور پر توپ سے گولہ داغے جانے کی آواز سن لی
اس حوالے سے احمد صالح حلبی نے بتایا ”لوگوں نے سوچا کہ حکومت نے روزہ ختم ہونے کے اعلان کے لیے نئی روایت کا آغاز کیا ہے تو اس حوالے سے باتیں شروع ہوگئیں۔ خوش قدم کی بیٹی فاطمہ کو جب پتا چلا کہ کیا ہوا ہے تو انہیں یہ آئیڈیا پسند آیا۔ انہوں نے مغرب، سحر اور سرکاری چھٹیوں کے اعلان کے دوران توپ چلانے کا حکم جاری کیا“
ان دونوں بیانیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ رمضان میں توپ سے گولہ داغنے کا آغاز قاہرہ سے ہوا تھا اور یہ افطاری کی روایتی آواز بن گئی
احمد صالح حلبی نے مکہ میں توپ کے حوالے سے بتایا کہ یہ پوری دنیا میں رائج رمضان کی روایت کا حصہ تھی
انہوں نے کہا ”مکہ میں رمضان کے دوران توپ سے خالی گولہ داغا جاتا تھا، جس کا وزن دو کلو ہوتا تھا۔ رمضان کی آمد سے لے کر عیدالفطر کے اعلان تک تقریباً ڈیڑھ سو راؤنڈز فائر کیے جاتے تھے“
انہوں نے مزید کہا کہ 2022 مسلسل آٹھواں سال ہے، جب مکہ میں دوران رمضان توپ چلنے کی آواز نہیں گونج رہی
احمد صالح حلبی نے امید ظاہر کی کہ مقدس مہینے سے وابستہ اس روایت کا دوبارہ احیاء کیا جائے گا.